ہم بھی وہیں موجود تھے

جہاں یہ بہت زیادہ ضروری نہیں تھا، کہیں کہیں کچھ مزاحیہ اور پر لطف واقعات کا ذکر تو ہے


Amjad Islam Amjad October 15, 2015
[email protected]

آپ بیتی یا یادداشتوں پر مشتمل کتابوں میں ایک عجیب خوبی ہوتی ہے کہ ایسی سو فی صد تحریروں میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور مل جاتی ہے جس کے ساتھ آپ کے تجربے' مشاہدے' مطالعے یا انداز فکر کا رشتہ نکل آتا ہے چاہے اس کے مصنف اور اس کی زندگی سے آپ کا دور کا واسطہ بھی نہ ہو اور یہ بات انتہائی بور شخصیتوں اور کتابوں پر بھی صادق آتی ہے لیکن اس وقت جو کتاب میرے پیش نظر ہے اس کے موضوع اور مصنف سے میرا تقریباً نصف صدی کا بہت گہرا' قریبی اور متنوع قسم کا تعلق ہے اور یہ ہر لحاظ سے ایک عمدہ اور قابل مطالعہ کتاب ہے۔

اختر وقار عظیم میرے یونیورسٹی کے ساتھی اور ٹی وی کے حوالے سے قدیم ترین دوستوں میں تو ہیں ہی لیکن ان سے پہلا تعارف ان کے والد مرحوم سید وقار عظیم کی معرفت ہوا کہ مجھے اورینٹل کالج کے شعبہ اردو میں دو برس ان سے پڑھنے کا موقع ملا ہے اور آج بھی ان کے لیکچر دینے کا مخصوص انداز اور ٹھہراؤ والی خوب صورت آواز میری یادوں میں روز اول کی طرح تازہ اور محبوب ہے۔

اختر کا تعلق شعبہ تاریخ سے تھا اور ان کی اولین تحریروں میں سے ایک مضمون میں نے اپنی ادارت میں پنجاب یونیورسٹی کے مجلے ''محور'' میں شایع کیا تھا ان ہی دنوں اعظم خورشید مرحوم شعبہ اردو میں اور اطہر شاہ خاں جرنلزم میں تھے اور ہم چاروں ہی کا تعلق آگے چل کر پی ٹی وی سے قائم ہوا فرق صرف یہ ہے کہ اختر اور اعظم پی ٹی وی کے باقاعدہ ملازم رہے جب کہ اطہر شاہ خاں کی اور میری وابستگی اس ادارے سے بطور لکھنے والوں کے رہی۔

اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ زیر نظر کتاب ان ہی چار دہائیوں کی یادوں اور یادداشتوں پر مشتمل ہے جو اختر وقار عظیم نے اس ادارے میں گزارے، کتاب کا نام جو ابن انشا کے ایک مصرعے سے لیا گیا ہے کہ ''ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے'' انتہائی موزوں اور برمحل ہے کہ انھوں نے ان سب واقعات' شخصیات اور ان سے متعلق کچھ دلچسپ اور کم معروف باتوں کو بڑے ہموار اور خوشگوار انداز میں قلم بند کیا ہے جن کو انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا اپنی فطری شرافت' تہذیب اور تعمیری انداز فکر کی وجہ سے انھوں نے بالخصوص شخصیات کے روشن پہلوؤں کو ہی زیادہ اجاگر کیا ہے اور بشری کمزوریوں کے ذکر سے وہاں بھی اجتناب کیا ہے۔

جہاں یہ بہت زیادہ ضروری نہیں تھا، کہیں کہیں کچھ مزاحیہ اور پر لطف واقعات کا ذکر تو ہے مگر وہاں بھی حد ادب کا لحاظ کسی بین الاقوامی سرحد کی طرح ہمیشہ ملحوظ رکھا گیا ہے، اپنے سینئرز میں سے انھوں نے اسلم اظہر صاحب مصلح الدین مرحوم اور ایک دو اور لوگوں کا ذکر نسبتاً تفصیل سے کیا ہے جس کے یہ حضرات بلاشبہ حق دار اور مستحق تھے مگر آغا ناصر' فضل کمال' کنور آفتاب احمد' محسن علی' شہزاد خلیل' یاور حیات' محمد نثار حسین اور مختار صدیقی سمیت کچھ اور احباب کا تفصیلی ذکر اور ان سے متعلق واقعات کا اندراج شاید مزید دلچسپی کا باعث ہوتا کہ یہ سب لوگ اپنے اپنے حوالے سے بہت متنوع ٹیلنٹ کے حامل انتہائی دلچسپ اور گنی لوگ تھے۔


اسی طرح بدلتی ہوئی حکومتوں کے ساتھ ابھرنے والی سیاسی قیادتوں اور پی ٹی وی سے متعلق ان کے رویوں کے بارے میں بھی اگر وہ کچھ اور واقعات اور تفصیلات لکھتے تو ان کے بہت سے ایسے رنگ سامنے آ کر تاریخ کا حصہ بن سکتے تھے جن پر بوجوہ بہت کم لکھا گیا ہے بالخصوص ذوالفقار علی بھٹو' ضیاء الحق' بے نظیر زرداری' پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے بارے میں جو دلچسپ واقعات اور تاثرات اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ان کو دیکھ اور پڑھ کر یہ تاثر مزید گہرا ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں کے بہت سے روپ اس سے پہلے کم کم ہی سامنے آئے ہیں۔

بے نظیر کی بھٹے کھانے سے رغبت اور ٹی وی کیمرے سے آشنائی ضیاء الحق کی عاجزانہ مسکراہٹ کے دامن میں چھپی منتقم مزاجی' میاں نواز شریف کا کیمرہ کانشس ہونا اور معاونین پر غیر ضروری انحصار اور پرویز مشرف کی نخوت آمیز حقیقت پسندی کا بیان مصنف کی احتیاط پسندی کے باوجود ایسا دلچسپ اور معلومات افزا ہے کہ آپ اس کی روشنی میں ان کی آف کیمرہ شخصیت کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ اور جان سکتے ہیں۔

اختر وقار عظیم نے اسپورٹس کوریج اور اس کے ٹریننگ کورسز کے حوالے سے بہت سے غیر ملکی دورے کیے ہیں جن کا احوال میری ذاتی رائے میں اس کتاب کا سب سے زیادہ قابل مطالعہ حصہ ہے اس نسبت سے مصلح الدین مرحوم ان کے رول ماڈل محسوس ہوتے ہیں جن کی بے مثال حس مزاح' Wit اور عمدہ شعری ذوق کا میں خود بھی مداح اور گواہ ہوں وہ بھی ہمارے کچھ دوستوں کی طرح بندہ جائے جملہ نہ جائے کے قائل تھے مگر ان کا یہ جوہر زیادہ تر افسروں اور نقصان پہنچا سکنے والے طاقت ور لوگوں کے سامنے کھلتا تھا کہ وہ عملی طور پر اس بہترین جہاد کے قائل تھے جس کا اصل اصول ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا اور پھر اس پر جمے رہنا ہے۔

اختر وقار ان کی نسبت زبان کے دھیمے اور فطری طور پر صلح کل آدمی ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے دور ملازمت میں اصولوں پر سمجھوتے کو ہمیشہ ناپسند کیا ہے یہ وصف غالباً انھیں اپنے والد مرحوم سید وقار عظیم سے میراث میں ملا ہے کہ وہ بھی کسی غلط بات پر جھگڑے سے گریز کے باوجود نہ تو اسے تسلیم کرتے تھے اور نہ ہی اس کے حامیوں کی صف میں کھڑے ہوتے تھے۔

اس کتاب میں بیان کردہ کئی واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر دی گئی ذمے داری کو بہتر سے بہتر انداز میں ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ہر مشکل اور امتحانی صورت حال میں اپنے حواس کو قائم رکھتے ہوئے حوصلے اور کامن سنس کے استعمال کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہونے کا جتن کرتے تھے اور غالباً اسی تنظیمی صلاحیت کی وجہ سے انھوں نے اپنے بیشتر ہم عصروں سے زیادہ اور تیز رفتار ترقی کی ہے۔

ذاتی یادداشتیں تکنیک کے اعتبار سے ایک طرح کا فلیش بیک ہوتی ہیں جن میں پورے منظر کے بجائے اس کے صرف وہی حصے سامنے لائے جاتے ہیں جن کو متعلقہ کردار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اس اعتبار سے شاید اختر وقار عظیم کو یہ رعایت حاصل تھی کہ وہ پورے منظرنامے اور اس کی بعض تفصیلات سے گریز کر سکتے تھے لیکن جس دلچسپ اور رواں دواں انداز میں یہ کتاب لکھی گئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ اسی موضوع سے متعلق ایک اور کتاب لکھ کر اس دائرے کو وسیع تر کریں تاکہ یہ پی ٹی وی کی ابتدا' تعمیر و ترقی اور عروج و زوال کی ایک مستند اور قابل اعتبار دستاویز بن سکے اور یہ کام کوئی اختر وقار جیسا insider اور قابل اعتبار راوی ہی کر سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔