پویا ڈے

سفر ایک لحاظ سے مشاہدے و تجربے کا نام ہے، جو اپنے اندر گہرائی اور معنویت رکھتا ہے

shabnumg@yahoo.com

سفر ایک لحاظ سے مشاہدے و تجربے کا نام ہے، جو اپنے اندر گہرائی اور معنویت رکھتا ہے، تقابلی جائزے کی سوچ اجاگر ہوتی ہے، سیکھنے کے مواقعے فراہم ہوتے ہیں اور تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

سوچ کی یکسانیت کی سب سے بڑی وجہ ٹھہراؤ ہے جب کہ ہلچل اور تحرک ہو زندگی میں تو سوچ کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں اور خیال نئے تناظر میں خوب پھلتا و پھولتا ہے، مجھے ہمیشہ سے ایشیا کی قدیم تہذیب سے دلچسپی رہی ہے۔ چاہے سفر نامے ہوں یا وہاں جانے والے لوگوں کی باہم معلومات ہمیشہ میری دلچسپی کا مرکز رہی ہے اور ایک مستقل سوال کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے ارد گرد کی دنیا کہاں جا پہنچی ہے یہ سوال مستقل ذہن پر دستک دیتا رہا ہے دنیا کی بہت سی قومیں ایسی ہیں۔

جنھوں نے ہمارے ملک سے بھی زیادہ مشکلات جھیلیں اور برے دن دیکھے مگر آج وہ قومیں دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہو چکی ہیں جب کہ ہم یکسانیت کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ سفر کے حوالے سے کافی مشاہدات ہیں جو قارئین سے شیئر کر چکی ہوں اور جب بھی یہ سلسلہ منقطع ہوا تو قارئین کی طرف سے یہ فرمائش ہوئی کہ آپ ہمیں مزید اس بارے میں بتایئے بقول ان کے کہ مسائل کی تکرار میں انھیں کسی نئے خیال کا تحرک چاہیے۔

ہم سال میں کئی دن مناتے ہیں جیسے ارتھ ڈے، مئی ڈے، مدرز ڈے وغیرہ ان دنوں کی تجدید کا مقصد ہوتا ہے کہ ہم اس موضوع کی اہمیت کو دوبارہ ذہنوں میں تازہ کر لیں اس کی اہمیت و افادیت کو دوبارہ محسوس کریں تا کہ احساس کی خوبصورتی قائم رہ سکے۔ سری لنکا میں مئی کے مہینے میں بیساکھ فیسٹول منایا جاتا ہے جب کہ ہر مہینے پورے چاند کی تاریخ کو عام تعطیل ہوتی ہے۔

کولمبو کے ساحل سمندر پر پورے چاند کی کشش میں لہریں بیچین ہو کر چاند کو چھونے کی کوشش کر رہی تھیں، اسی لمحے خوبصورت لڑکی دلنی نے بتایا کہ ہمارے ہاں پورے چاند کی تاریخ پویا ڈے منایا جاتا ہے، دوسرے دن عام تعطیل ہوتی ہے یہ سن کر مجھے بہت اچھا لگا، ہر مہینے پورنیما اہل زمین کے احساس پر روشن دستک دیتا ہے اور سری لنکن اس کی تجدید کرتے ہیں اور اس حسین رات کو مناتے ہیں۔ یہ لوگ فطرت کے کس قدر قریب ہیں۔ تبھی ان کے چہرے مطمئن و مسرور ہیں، تھوڑی دیر پہلے میں نے دلنی سے اس کے نام کا مطلب پوچھا تھا۔

''دیپ'' مطلب بتاتے وقت اس کی آنکھیں روشن ہوگئیں، حالانکہ اس کا چہرہ سانولا تھا مگر اس کی آنکھوں میں امید و خواب کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں، لہٰذا لہجہ بھی روشن و متحرک تھا وہ بات کرتی اور ہر طرف دیپ کی کرنیں بکھر جاتیں۔ سری لنکا میں نوجوان بہت پرسکون اور زندہ دل دکھائی دیے۔ میں نے بہت پہلے ایک رپورٹ میں پڑھا تھا کہ سری لنکا کی ماں پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے دیگر ایشیائی ماؤں کے مقابلے میں بچے کی دیکھ بھال زیادہ اچھے طریقے سے کرتی ہے وہ بات بالکل صحیح نکلی، کیونکہ پڑھی لکھی اور پر سکون ماں ہی خوبصورت انسانوں کی تشکیل کرتی ہے ان کے چہرے سانولے مگر دل روشن ہیں۔

بہرکیف بات ہو رہی ہے پویا ڈے کی، اس دن کو تمام دنیا میں پھیلے ہوئے بدھ مت مناتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بدھا نے لیونار کلینڈر استعمال کیا تھا۔ بدھا کی پیدائش روحانی آگہی اور موت پورے چاند کی رات کو واقع ہوئے تھے یہ تکون بامعنی اور روحانی رمز سے سرشار ہے۔ لہٰذا چودھویں کی رات کو گو تم بدھ سے منسوب کیا جاتا ہے اور دن Religious Observance (مذہبی تہوار) کے طور پر سری لنکا کی زندگی کا اہم حصہ ہے، نیپال گوتم بدھ کی جنم بھومی کہلاتا ہے۔

لہٰذا یہ دن نیپال میں بھی بدھا پورنیما کے نام سے منایا جاتا ہے، سنسکرت میں پورنیما پورے چاند کی رات کو کہتے ہیں، شکھیامنی بدھا شکھیا بادشاہ کا بیٹا تھا جس کی سلطنت ہمالیہ کے پہاڑوں پر واقع تھی جو مرکزی نیپال میں کپل وستو سے پندرہ میل کے فاصلے پر موجود ہے۔ شکھیا نام قبیلے سے لیا گیا ہے جب کہ معنی کا مطلب بزرگ ہے خاندان کا نام گوتما تھا جس کے معنی ہیں بہترین گائے، سدھارتا کے لفظی معنی کامیابی حاصل کرنے والے کے ہیں۔

اسکالرز کہتے ہیں کہ بدھا کو یہ نام نروانا حاصل کرنے کے بعد عطا کیا گیا تھا، بدھا کی آگہی کو بیساکھ میں منایا جاتا ہے جس کی صحیح تاریخ پورے چاند کا پہلا مہینہ ہے جو چائنز لیونار کلینڈر کے مطابق پورے چاند کا چوتھا مہینہ کہلاتا ہے بیساکھ کے دوران گوشت اور الکوحل کی ممانعت ہے۔

یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب بدھسٹ اپنے ذہن، جسم و روح کو دنیاوی آلودگی سے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، غذا میں احتیاط کی جاتی ہے، بدھا کے پیغام کو دہراتے ہیں اور اسے عام زندگی میں عملی طور پر شامل کیا جاتا ہے، بیساکھ یا پویاڈے مختلف انداز سے منایا جاتا ہے۔ (رنگین لالٹین جلائی جاتی ہیں، یہ روشنی بدھا کی آگہی، وجد وکیف کی تمثیل سمجھی جاتی ہے جب کہ تائیوان میں معتقد خوشبو دار پانی، اس موقعے پر بدھا کے مجسمے پر ڈالتے ہیں، سنگا پور میں اس تہوار پر پرندے آزاد کر دیے جاتے ہیں۔

یہ عمل بھی بدھا کی تعلیمات کی تجدید ہے کیوں کہ بدھا نے یہ تصور دیا تھا کہ خواہشات، نفسانی ترغیبات اور منفی سوچ انسان کے اندر پنجرے کی مانند ہیں اس پنجرے میں انسان کا حال مثبت رویے اور قدریں قید ہو جاتی ہیں۔ یہ پنجرہ انسان خود بناتا ہے، ترجیحات کا جال بھی وہ خود ارد گرد بنتا ہے، وابستگی کی زنجیریں بھی اپنی مرضی سے پہنتا ہے اس کے بعد قید سے نکلنے کے راستے تلاش کرتا ہے، آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان زہر بھی خود پیتا ہے پھر آب حیات کی جستجو میں مگن ہو جاتا ہے۔ گوتم بدھ نے یہ پیغام دیا ہے کہ اس عارضی دنیا میں جب سب کچھ فنا کی طرف محو سفر ہے کیوں اپنا وقت ضایع کر رہے ہو، حال کے لمحوں میں زندگی کو محسوس کرو اور سب کچھ بھول جاؤ۔


وہ تمام تر لا حاصل خواہش جن کا حصول ناممکن ہو پھر ان کے لیے کیوں سوچتے ہو۔ جو کچھ میسر ہے اسے لا حاصل کی سوچ میں کیوں گنوادیتے ہو۔ آؤ میرے ساتھ وجود میں نفی کو محسوس کریں۔

ہونے پر نہ ہونے کا گمان کریں
بقا میں فنا کا جشن منائیں
یہ خیال بلھے شاہ کی سوچ سے ہرگز مختلف نہیں ہے۔
چل بلھیا، چل اوتھے چلیے جھتے سارے انھے
نا کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں منے
زندگی کا سارا فساد ماننے اور منوانے کی ارد گرد گھومتا ہے۔

یہ سمندر کے قریب پورنیما کے چاندکا جشن سحرانگیز ہے، دلنی کی باتیں بھی منفرد ہیں وہ بائیس سال کی سمجھدار لڑکی ہے وہ فیشن، خوبصورتی یا دکھاوے کی باتیں کرنے کے بجائے ایسی باتیں کر رہی تھی جن میں کسر نفسی، سادگی، قدامت اور فطری بے ساختگی تھی۔ اس کی باتیں پورنیما کے چاند جیسی اجلی تھیں، میں اپنے دیس میں ایسی باتیں کم سنتی ہوں کب پورنیما کا چاند طلوع ہوتا ہے اور کب ڈھل جاتا ہے ہم اس روشنی سے بے خبر رہتے ہیں۔

سری لنکا میں ہفتے میں دو دن کی چھٹی کے علاوہ پویا ڈے کی چھٹی ہر مہینے لازمی ہوتی ہے، اس کے علاوہ بھی کبھی عام تعطیل ہو جاتی ہے مگر دلنی بھی موبائل کمپنی میں کام کرتی ہے۔

وہ آفس بہت سادہ کپڑے پہن کر جاتی ہے میک اپ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ''ہم کام پر جاتے ہیں کوئی پکنک منانے نہیں'' وہ سادگی سے بولی تو میرا ذہن بے اختیار اپنے ملک کے اداروں میں بھٹکنے لگا، جہاں مقدس پیشے سے وابستہ خواتین ماڈلز دکھائی دیتی ہیں۔ ایک تقریب میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ معزز عہدے پر فائز خاتون کو دیکھا جس کی قمیض مارلن منرو کی طرح پیٹھ سے غائب تھی، ہمیں یہ تک سمجھ نہیں کہ ہمیں عمر، عہدے، رتبے اور ماحول کے مطابق کس طرح کا لباس پہننا چاہیے۔

''ہم کام کے وقت فقط کام کی بات کرتے ہیں، کبھی ذاتی باتیں زیر بحث نہیں آتیں۔''

دلنی نے میرا دل مزید دکھاتے ہوئے کہا دلنی کو خدا حافظ کر کے کولمبو کے راستوں پر ٹہلتے رہے۔ مندروں میں رنگ، روشنی اور خوشبوئیں بکھری ہوئی تھیں۔ ''چاند آسمان کے چہرے پر تاج پہنے مسکرا رہا ہے۔ ''

جان کیٹس کی نظم یاد آ گئی۔

چودھویں کے چاند کا اپنا کیمیائی عمل ہے، انتہا کی خوبصورتی انسان کو کبھی حیاتی طور پر بہت متحرک کر دیتی ہے تو کبھی ہوش و حواس چھین لیتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فطرت کا اپنا الگ کیمیائی اثر ہے، اب جاتے سمجھ میں آئی کہ چاند کے سحر نے کیوں گوتم بدھ کا جنم دن سے موت تک پیچھا کیا تھا چاندکے زیر اثر پروان چڑھنے والا شخص اپنے احساس میں چاند کی کرنیں سمیٹے عمر بھر آگہی کی روشنی بانٹتا رہا۔
Load Next Story