امام عدل وحریت پیکر شجاعت مراد رسول کریم ؐ خلیفۂ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ
حضرت عمرؓ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات، ترقی اور عروج کا زمانہ تھا۔
KARACHI:
امام عدل و حریت، مرادِ مصطفیٰ ﷺ، خلیفۂ دوم سیدنا عمر فاروق ؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لیے روشن خدمات، جرأت، بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شان دار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن اور تاب ناک ہے۔ آپ ؓ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات، ترقی اور عروج کا زمانہ تھا۔ مسلمان اس قدر خوش حال ہوگئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے مستحق زکوٰۃ کو تلاش کرتے تھے لیکن ان کو زکوٰۃ لینے والا مشکل سے ملتا تھا۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو حضور ﷺ نے بارگاہ خداوندی سے مانگا تھا اسی لیے آپ کو ''مرادِ مصطفیٰؐ'' کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ آپؓ عشرہ مبشرہ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں، جن کو دنیا میں ہی حضور ﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپ ؓ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ آپ کی شان میں چالیس کے قریب احادیث نبویﷺ موجود ہیں۔ آپؓ کی صاحب زادی حضرت سیدہ حفصہؓ کو حضور اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ اور ام المؤمنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہوجانا اسلام کی فتح، ان کی ہجرت نصرت الٰہی اور ان کی خلافت اﷲ تعالیٰ کی رحمت تھی۔
سیدنا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اے(عمرؓ) ابن خطاب! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تم کو شیطان کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے کو اختیار کرلیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔ (ترمذی)
ایک روز رحمت دو عالم ﷺ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے ہم راہ دائیں بائیں ابو بکر ؓ و عمرؓ بھی تھے۔ آپ ﷺ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اسی حالت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)
ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور زمین والوں میں سے ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (ترمذی)
حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی اقتدا کرنا۔
(مشکوٰۃ)
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے تمام غزوات و جنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ ''بدر کے قیدیوں'' کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کو حضرت عمر فاروقؓ کا مشورہ اس قدر پسند آیا کہ آپؓ کی رائے اور مشورہ کی تائید میں آیت قرآنی نازل ہوئی۔
آپؓ کا نام عمر ابن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے۔ آپ ؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور ﷺ سے جاملتا ہے۔ مشہور روایت کے مطابق آپ ؓ نبوت کے چھٹے سال33 سال کی عمر میں اسلام کی دولت سے سرفراز ہوئے۔ آپ ؓ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا رنگ سفیدی مائل بہ سرخ تھا، رخساروں پر گوشت کم اور قد لمبا تھا، جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے بلند نظر آتے اور ایسا معلوم ہوتا گویا آپؓ سواری پر سوار ہیں۔ آپ ؓ انتہائی بہادر اور طاقت ور تھے۔ اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی، اسلام لانے کے بعد ویسی ہی شدت اسلام میں بھی تھی۔ آپؓ خاندان قریش کے وجیہہ اور شریف ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں سفارت کاری آپ ؓ ہی کی ذمے داری تھی۔ آپؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور و معروف اور آپ ؓ کا اسلام لانا حضور ﷺ کی دعاؤں کا ثمر اور معجزہ تھا۔
آپؓ کے اسلام لانے کے اعلان سے صحابہ کرامؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کفار پر رعب پڑگیا۔ آپ ؓ کے اسلام لانے سے حضور ﷺ نے بیت اﷲ میں اعلانیہ نماز ادا کی۔ سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے قبل بیت اﷲ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا، میں ہجرت کرکے مدینہ جارہا ہوں، یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی، جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کروانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے۔ لیکن کفار میں سے کسی کو بھی آپؓ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آپؓ کے اسلام لانے سے دین اسلام بہت تیزی سے پھیلنے لگا۔
آپؓ نے خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دور خلافت میں ان کے ساتھ مل کر اسلام کی اشاعت و غلبے کے لیے بہت کام کیا۔ خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کے لیے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کے لیے حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ''خفیہ رائے شماری'' کا طریقہ اختیار کیا۔
صحابہ کرامؓ کی ''اعلیٰ مشاورتی کونسل'' اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ نے سیدنا حضرت عمرفاروقؓ کی ''جانشینی'' کا اعلان کیا۔ بعض مؤرخین کے مطابق رائے شماری کے دوران چند صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ حضرت عمرؓ کا مزاج سخت ہے، اگر وہ سختی پر قابو نہ پاسکے تو بڑا سانحہ ہوگا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جواب دیا کہ عمرؓ کی سختی میری نرمی کی وجہ سے ہے۔ جب تنہا ان پر ذمے داری عاید ہوگی تو یقینا جلال و جمال کا امتزاج قائم ہوجائے گا۔
سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور فرمایا، اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی، جب تم لوگ حضورﷺ اور سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کی نرمی اور مہربانی سے فیض یاب تھے۔ میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ اب میں تم پر سختی نہیں کروں گا۔ اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔ اسی خطبے میں آپؓ نے سوال کیا کہ اے لوگو! اگر میں احکامات نبوی ﷺ کے خلاف حکم دوں تو تم کیا کروگے؟ لوگ کچھ نہ بولے اور خاموش رہے، پھر دوبارہ آپؓ نے یہی سوال دہرایا تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اس تلوار سے سر کاٹ دیں گے۔ اس پر آپؓ بہت خوش ہوئے۔
عرب کے زورآور رئیس آپؓ کے نام اور تذکرے سے کانپ جاتے تھے۔ خلیفۃ المسلمین بننے کے بعد آپ ؓ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے، جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ پاؤں رکھتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں۔ تو فرمایا! میرے لیے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبرؓ کے پاؤں رہتے ہوں۔
آپؓ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا، جو آپؓ کی ضرور ت کے لیے بہت کم تھا۔ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے، وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے، جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔ حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کیے۔ خوفِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں ''آیات قیامت و آخرت'' کی تلاوت پر بے ہوش ہو جاتے۔ زکوٰۃ و صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ اپنی رعایا کی خبرگیری کے لیے راتوں کو جاگ کر گشت کیا کرتے۔ جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال رکھتے، بازار سے سامان خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
سیدنا حضرت عمر فاروق ؓجب کسی صوبے یا علاقے میں کسی کو گورنر مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت اور لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور پھر اس کو مقرر کرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرواتے۔ رعایا کو حکم تھا کہ میرے حکام (گورنرز) سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف و خطر مجھے اطلاع دیں۔ آپ ؓ اپنے حکام کی معمولی بات پر بھی گرفت کرتے اور ان کو مقرر کرتے وقت ایک کھلا خط لکھ کر دیتے، جس میں یہ ہدایات درج ہوتیں۔
'' باریک کپڑے نہ پہننا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، اپنے مکان کا دروازہ بند نہ کرنا، کوئی دربان نہ رکھنا تاکہ جس وقت بھی کوئی حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے بلاروک ٹوک آجاسکے، بیماروں کی عیادت کو جانا اور جنازوں میں شرکت کرنا''
حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت و آرام کا بہت خیال رکھتے تھے۔ عوامی شکایات کو ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے موقع پر احکامات جاری کرتے۔ راتوں کو گشت کرتے اور راہ چلتے لوگوں سے مسائل و حالات پوچھتے۔ دوردراز علاقوں کے لوگ وفود کی صورت میں حاضر ہوکر اپنے مسائل وغیرہ سے آگاہ کرتے اور بعض مرتبہ آپؓ مختلف علاقوں کا خود دورہ کرکے لوگوں کی شکایات کا ازالہ فرماتے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو فتح کرنے اور قیصر و کسری کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، عجم، آرمینہ، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران (جس میں بلوچستان کا بھی کچھ حصہ آجاتا ہے) سمیت دیگر کئی علاقے فتح کیے۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں3600 علاقے فتح ہوئے۔ 900 جامع مسجدیں اور 4000 عام مساجد تعمیر ہوئیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں خزانے کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔ جیل خانہ اور پولیس کا محکمہ بھی آپؓ نے ہی قائم کیا۔
''تاریخ سن ہجری'' قائم کیا، جو آج تک جاری ہے۔ امیرالمؤمنین کا لقب اختیار کیا۔ فوجی دفتر ترتیب دیا۔ ''دفترمال'' قائم کیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کرائے، مقبوضہ ممالک کو صوبوں میں تقسیم کیا۔ اصلاح کے لیے درّے کا استعمال کیا۔ راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا۔ فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ رضاکاروں کی تن خواہیں مقرر کیں۔ پرچہ نویس مقرر کیے۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کے لیے مکانات تعمیر کروائے۔ گم شدہ بچوں کی پرورش کے لیے روزینے مقرر کیے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔
مکاتب و مدارس قائم کیے۔ معلمین کے مشاہرے مقرر کیے۔ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے وظیفے بھی آپؓ نے ہی مقرر کیے۔ نماز تروایح باجماعت قائم کی۔ شراب کی حد کے لیے 80 کوڑے مقرر کیے۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔ وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔ مساجد کے اماموں اور مؤذنوں کی تن خواہیں مقرر کیں۔ مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ آپؓ نے اس کے علاوہ بھی بہت سے فلاحی و اصلاحی کام کیے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح عمری ''الفاروقؓ'' میں رقم طراز ہیں کہ! تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکمران دکھا سکتے ہو؟ جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیص میں دس دس پیوند لگے ہوں۔
کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر آتا ہو، فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو، جہاں جاتا ہو جریدہ و تنہا جاتا ہو، اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، دور دربار، نقیب و چاؤش، حشم وخدم کے نام سے آشنا نہ ہو، اور پھر یہ رعب و ادب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو، سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا، عمر فاروقؓ کے ''سفر شام'' میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا، چاروں طرف غُل پڑا تھا کہ ''مرکز عالم'' جنبش میں آگیا ہے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔ 27 ذوالحجہ 23 ھجری کو آپؓ حسب معمول نماز فجر کے لیے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کی، ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ ایک شخص ''ابولولو فیروز مجوسی'' جو پہلے سے ہی ایک زہر آلود خنجر لیے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا تھا، نے خنجر کے تین وار آپؓ کے پیٹ پر کیے، جس سے آپؓ کو کافی گہرے زخم آئے اور آپؓ بے ہوش ہو کر گرگئے۔
اس دوران قاتل کو پکڑنے کی کوشش میں مزید صحابہ کرامؓ زخمی ہوگئے اور قاتل نے پکڑے جانے کے خوف سے فوری خودکشی کرلی۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے زخم مندمل نہ ہوئے اور یکم محرم الحرام کو دس سال چھے ماہ اور دس دن تک 22 لاکھ مربع میل زمین پر نظام خلافت راشدہ ؓ کو قائم کرنے کے بعد آپؓ نے 63 برس کی عمر میں جام شہادت نوش فرمالیا۔
حضرت صہیبؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور ''روضہ نبوی'' ﷺ میں خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پہلو میں دفن ہوئے۔
فاتح ارض مقدس، پیکر شجاعت سیدنا عمر فاروق اعظم ؓ
خلیفۂ دوم کا نام عمر، لقب فاروق اعظم اور کنیت ابوحفص تھی۔ والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا۔ آپؓ سفیدی مائل بہ سُرخ، رخساروں پر گوشت کم اور دراز قد تھے۔ آپؓ کا تعلق قریش کی ایک شاخ عدی سے تعلق تھا۔ سلسلۂ نسب عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداﷲ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک تھا۔ آپؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور ﷺ سے ملتا ہے۔
آپؓ 583ء میں پیدا ہوئے اور عرب کے دیہی ماحول میں پرورش پائی۔ آپؓ نے اونٹ چرائے اور فن سپہ گری میں بھی دست رس حاصل کی۔ آپؓ نے شہ سواری اور پہلوانی میں بھی مقام حاصل تھا۔ آپؓ کے گھرانے میں سب سے پہلے آپؓ کے بہنوئی حضرت سعدؓ اور پھر بہن فاطمہؓ نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد آپؓ نے نبوت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا۔ ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ نے رب سے التجا کی کہ یااﷲ اپنے دین کی مضبوطی کے لیے یا تو ہشام کا بیٹا دے یا خطاب کا بیٹا۔ نبی کریم ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور اﷲ پاک نے خطاب کے بیٹے کو چُن لیا۔ تمام صحابہؓ مُرید رسول ﷺ ہیں، مگر حضرت عمرؓ مراد رسول ﷺ ہیں۔ آپؓ کے اسلام لانے پر حضرت جبرائیل ؑنبی کریمؐ کے پاس آئے، مبارک باد دی اور فرمایا آسمان والے ایک دوسر ے کو عمر کے اسلام لانے کی خوش خبری سنا رہے ہیں۔
ہجرت نبویؐ کے کچھ عرصے بعد حضرت عمرؓ نے بیس افراد کے ساتھ ا علانیہ ہجرت کی۔ آپؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔ آپؓ 634ء میں خلافت کے منصب پہ فائز کیے گئے اور644ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ آپؓ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22 لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت عمرؓ کا زمانۂ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔ اس میں دو بڑی طاقتوں ایران و روم کو شکست دے کر ایران، عراق اور شام کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد آپؓ خود وہاں تشریف لے گئے۔
ایک مرتبہ ایک یہودی اور ایک منافق کا جھگڑا ہوا۔ منافق جو ظاہراً مسلمان تھا، نے یہودی سے کہا کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے پاس اپنا تنازع لے کے جاتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گے ہم دونوں منظور کرلیں گے۔ دونوں نبی کریمؐ کے پاس گئے، نبی کریمؐ نے دونوں کی بات سنی اور فیصلہ یہودی کے حق میں فرما دیا۔ اس منافق نے کہا کہ ہم اپنا جھگڑا حضرت عمر ؓکے پاس لے کے چلتے ہیں۔ چناںچہ حضرت عمر ؓ کے پاس گئے۔ اس یہودی نے کہا کہ ہمارے درمیان فیصلہ آپ کے پیغمبر نے کر دیا ہے۔ جب آپ ؓ نے یہ سنا تو آپؓ نے فرمایا، جو میرے نبیؐ کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کا فیصلہ عمر کی تلوار کرتی ہے اور اس منافق کا سر تن سے جدا کر دیا۔ جب رسول ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے فاروق (یعنی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا) کا لقب عطا کیا۔
حضرت عمر فاروق ؓ بہت ہی بارعب اور نڈر تھے لیکن انصاف ہمیشہ آپ کی عدالت سے ہی ملتا تھا۔ حضرت عمر ؓایک دفعہ منبر رسول ﷺ پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اے عمر! ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے لباس پہنا ہوا ہے یہ زیادہ ہے جب کہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اس مجمع میں میرا بیٹا موجود ہے اس بات کا جواب میرا بیٹا دے گا۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ کھڑے ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا، بیٹا بتاؤ تمہارا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداﷲ ؓ نے فرمایا کہ جو میرے بابا کو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا لباس نہیں بن سکتا تھا اور ان کے پاس جو لباس تھا وہ بہت خستہ حال تھا اس لیے میں نے اپنا کپڑا بھی اپنے والد کو دے دیا، جس سے ان کا پورا لباس بن گیا۔
جب آپ ؓخلیفہ بنے تو راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں پہرا دیا کرتے تھے تاکہ معلوم ہوسکے کہ رعایا کو کوئی تکلیف تو نہیں۔ ایسا حکم ران ملنا آج کے اس دور میں مشکل ہے جو اپنی رعایا کے لیے اپنا سکون بھی قربان کر دے۔ جب مدائن فتح ہوا تو مال غنیمت کا ڈھیر مسجد نبوی میں لگایا گیا تو حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے ایک ایک ہزار درہم حضرت حسن ؓاور حضرت حسین ؓکو دیے اور پھر حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کو پانچ سو درہم دیے۔ حضرت عبداﷲ ؓ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی قیادت میں غزوات میں حصہ لیا، جب کہ اس وقت حسنینؓ بہت چھوٹے تھے لیکن آپ نے انہیں زیادہ رقم عطا فرمائی ہے۔ فاروق اعظم ؓ کو یہ سن کر جلال آگیا اور فرمایا کہ عبداﷲ تم حسنین کے مقابلے میں اپنی بابت پوچھتے ہو؟ تو جاؤ ان کے باپ (حضرت علیؓ) جیسا کوئی باپ لے آؤ۔ ان کی ماں (حضرت فاطمہؓ) جیسی کوئی ماں لے آؤ۔ ان کے نانا (تاج دار مدینہ ﷺ) جیسا کوئی نانا لے آؤ۔ ان کی نانی (حضرت خدیجہؓ) جیسی کوئی نانی لے آؤ۔ ان کے چچا (حضرت جعفرؓ) جیسا کوئی چچا لے آؤ۔ ان کی پھوپھی (حضرت ام ہانیؓ) جیسی کوئی پھوپھی لے آؤ۔ ان کے ماموں (حضرت ابراہیمؓ ) جیسا ماموں لے آؤ۔ خدا کی قسم! عمر پر تم ان جیسا ایک رشتہ بھی نہ لاسکو گے۔
جب یہ سارا واقعہ حضرت علی ؓ تک پہنچا تو جناب علی ؓ نے فرمایا، عمر جنتیوں کا چراغ ہے۔ جب یہ بات سیدنا عمرؓ تک پہنچی تو عمر ؓ بے قرار ہوگئے اور حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ علی میرے بھائی یہ بات مجھے لکھ کے دے دو۔ حضرت عمر ؓ نے وصیت فرمائی کہ جب میں مروں تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا اور ان کے وصال کے بعد اس وصیت پر عمل کیا گیا۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے انصاف کی یہ حالت تھی کہ جب آپ ؓ کا انتقال ہوا تو کچھ عرصے بعد دور دراز علاقے کا ایک چرواہا آیا اور چیخ کر بولا۔ لوگو! حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا ہے۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ تم مدینہ سے بہت دور جنگل میں تھے۔ تمہیں اس سانحہ کی اطلاع کس نے دی؟
چرواہا بولا! جب تک حضرت عمر فاروق ؓزندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا، لیکن پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کرلے گیا۔ میں نے بھیڑیے کی جرات سے جان لیا کہ آج دنیا میں عمر فاروق ؓموجود نہیں ہیں۔ چناںچہ ان لوگوںنے جب تحقیق کی تو پتا چلا کہ اِسی روز حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تھا۔
سیدنا عمر فاروق ؓ کا معمول تھا کہ نماز کے فرائض خود سرانجام دیا کرتے تھے۔ بدھ کے دن 27 ذوالحجہ23 ھ کو حضرت عمرفاروق ؓ حسب معمول نماز فجر پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ وہاں فیروز نامی مجوسی بھی خنجر چھپائے کھڑا تھا اور پھر موقع ملتے ہی اس ظالم نے امیرالمومنین ؓ کو زہر میں بجھے ہوئے خنجر کے پے درپے وار کرکے گھائل کردیا۔ مراد رسول ﷺ کے عزم و ہمت کے کیا کہنے کہ زخموں سے چُور امیرالمومنین حضرت عمرفاروق ؓ نے گرتے ہی مصلیٰ امامت حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے سپرد کیا۔ خون میں لت پت امیرالمومنین ؓ نے اشاروں سے نماز مکمل کی۔ نماز کے بعد آپؓ نے پہلا سوال یہ کیا کہ میرا قاتل کون ہے؟ معلوم ہوا کہ وہ غیر مسلم ہے تو آپ ؓ نے بلند آواز سے کہا الحمدﷲ۔ گویا امیرالمومنین کی شہادت کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا تھا۔ فاروق اعظم ؓ کو یقین ہوگیا کہ میری خواہش ضرور پوری ہوگی۔ آپؓ یکم محرم الحرام کو 63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں شہادت پاگئے۔ آپؓ کی تدفین حضرت عائشہ ؓ کی اجازت سے حضور ﷺ کے پہلو میں ہوئی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صُہیب ؓ نے پڑھائی۔
امام عدل و حریت، مرادِ مصطفیٰ ﷺ، خلیفۂ دوم سیدنا عمر فاروق ؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لیے روشن خدمات، جرأت، بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شان دار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن اور تاب ناک ہے۔ آپ ؓ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات، ترقی اور عروج کا زمانہ تھا۔ مسلمان اس قدر خوش حال ہوگئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے مستحق زکوٰۃ کو تلاش کرتے تھے لیکن ان کو زکوٰۃ لینے والا مشکل سے ملتا تھا۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو حضور ﷺ نے بارگاہ خداوندی سے مانگا تھا اسی لیے آپ کو ''مرادِ مصطفیٰؐ'' کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ آپؓ عشرہ مبشرہ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں، جن کو دنیا میں ہی حضور ﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپ ؓ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ آپ کی شان میں چالیس کے قریب احادیث نبویﷺ موجود ہیں۔ آپؓ کی صاحب زادی حضرت سیدہ حفصہؓ کو حضور اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ اور ام المؤمنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہوجانا اسلام کی فتح، ان کی ہجرت نصرت الٰہی اور ان کی خلافت اﷲ تعالیٰ کی رحمت تھی۔
سیدنا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اے(عمرؓ) ابن خطاب! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تم کو شیطان کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے کو اختیار کرلیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔ (ترمذی)
ایک روز رحمت دو عالم ﷺ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے ہم راہ دائیں بائیں ابو بکر ؓ و عمرؓ بھی تھے۔ آپ ﷺ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اسی حالت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)
ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور زمین والوں میں سے ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (ترمذی)
حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی اقتدا کرنا۔
(مشکوٰۃ)
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے تمام غزوات و جنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ ''بدر کے قیدیوں'' کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کو حضرت عمر فاروقؓ کا مشورہ اس قدر پسند آیا کہ آپؓ کی رائے اور مشورہ کی تائید میں آیت قرآنی نازل ہوئی۔
آپؓ کا نام عمر ابن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے۔ آپ ؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور ﷺ سے جاملتا ہے۔ مشہور روایت کے مطابق آپ ؓ نبوت کے چھٹے سال33 سال کی عمر میں اسلام کی دولت سے سرفراز ہوئے۔ آپ ؓ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا رنگ سفیدی مائل بہ سرخ تھا، رخساروں پر گوشت کم اور قد لمبا تھا، جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے بلند نظر آتے اور ایسا معلوم ہوتا گویا آپؓ سواری پر سوار ہیں۔ آپ ؓ انتہائی بہادر اور طاقت ور تھے۔ اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی، اسلام لانے کے بعد ویسی ہی شدت اسلام میں بھی تھی۔ آپؓ خاندان قریش کے وجیہہ اور شریف ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں سفارت کاری آپ ؓ ہی کی ذمے داری تھی۔ آپؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور و معروف اور آپ ؓ کا اسلام لانا حضور ﷺ کی دعاؤں کا ثمر اور معجزہ تھا۔
آپؓ کے اسلام لانے کے اعلان سے صحابہ کرامؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کفار پر رعب پڑگیا۔ آپ ؓ کے اسلام لانے سے حضور ﷺ نے بیت اﷲ میں اعلانیہ نماز ادا کی۔ سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے قبل بیت اﷲ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا، میں ہجرت کرکے مدینہ جارہا ہوں، یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی، جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کروانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے۔ لیکن کفار میں سے کسی کو بھی آپؓ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آپؓ کے اسلام لانے سے دین اسلام بہت تیزی سے پھیلنے لگا۔
آپؓ نے خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دور خلافت میں ان کے ساتھ مل کر اسلام کی اشاعت و غلبے کے لیے بہت کام کیا۔ خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کے لیے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کے لیے حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ''خفیہ رائے شماری'' کا طریقہ اختیار کیا۔
صحابہ کرامؓ کی ''اعلیٰ مشاورتی کونسل'' اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ نے سیدنا حضرت عمرفاروقؓ کی ''جانشینی'' کا اعلان کیا۔ بعض مؤرخین کے مطابق رائے شماری کے دوران چند صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ حضرت عمرؓ کا مزاج سخت ہے، اگر وہ سختی پر قابو نہ پاسکے تو بڑا سانحہ ہوگا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جواب دیا کہ عمرؓ کی سختی میری نرمی کی وجہ سے ہے۔ جب تنہا ان پر ذمے داری عاید ہوگی تو یقینا جلال و جمال کا امتزاج قائم ہوجائے گا۔
سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور فرمایا، اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی، جب تم لوگ حضورﷺ اور سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کی نرمی اور مہربانی سے فیض یاب تھے۔ میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ اب میں تم پر سختی نہیں کروں گا۔ اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔ اسی خطبے میں آپؓ نے سوال کیا کہ اے لوگو! اگر میں احکامات نبوی ﷺ کے خلاف حکم دوں تو تم کیا کروگے؟ لوگ کچھ نہ بولے اور خاموش رہے، پھر دوبارہ آپؓ نے یہی سوال دہرایا تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اس تلوار سے سر کاٹ دیں گے۔ اس پر آپؓ بہت خوش ہوئے۔
عرب کے زورآور رئیس آپؓ کے نام اور تذکرے سے کانپ جاتے تھے۔ خلیفۃ المسلمین بننے کے بعد آپ ؓ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے، جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ پاؤں رکھتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں۔ تو فرمایا! میرے لیے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبرؓ کے پاؤں رہتے ہوں۔
آپؓ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا، جو آپؓ کی ضرور ت کے لیے بہت کم تھا۔ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے، وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے، جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔ حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کیے۔ خوفِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں ''آیات قیامت و آخرت'' کی تلاوت پر بے ہوش ہو جاتے۔ زکوٰۃ و صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ اپنی رعایا کی خبرگیری کے لیے راتوں کو جاگ کر گشت کیا کرتے۔ جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال رکھتے، بازار سے سامان خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
سیدنا حضرت عمر فاروق ؓجب کسی صوبے یا علاقے میں کسی کو گورنر مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت اور لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور پھر اس کو مقرر کرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرواتے۔ رعایا کو حکم تھا کہ میرے حکام (گورنرز) سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف و خطر مجھے اطلاع دیں۔ آپ ؓ اپنے حکام کی معمولی بات پر بھی گرفت کرتے اور ان کو مقرر کرتے وقت ایک کھلا خط لکھ کر دیتے، جس میں یہ ہدایات درج ہوتیں۔
'' باریک کپڑے نہ پہننا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، اپنے مکان کا دروازہ بند نہ کرنا، کوئی دربان نہ رکھنا تاکہ جس وقت بھی کوئی حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے بلاروک ٹوک آجاسکے، بیماروں کی عیادت کو جانا اور جنازوں میں شرکت کرنا''
حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت و آرام کا بہت خیال رکھتے تھے۔ عوامی شکایات کو ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے موقع پر احکامات جاری کرتے۔ راتوں کو گشت کرتے اور راہ چلتے لوگوں سے مسائل و حالات پوچھتے۔ دوردراز علاقوں کے لوگ وفود کی صورت میں حاضر ہوکر اپنے مسائل وغیرہ سے آگاہ کرتے اور بعض مرتبہ آپؓ مختلف علاقوں کا خود دورہ کرکے لوگوں کی شکایات کا ازالہ فرماتے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو فتح کرنے اور قیصر و کسری کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، عجم، آرمینہ، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران (جس میں بلوچستان کا بھی کچھ حصہ آجاتا ہے) سمیت دیگر کئی علاقے فتح کیے۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں3600 علاقے فتح ہوئے۔ 900 جامع مسجدیں اور 4000 عام مساجد تعمیر ہوئیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں خزانے کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔ جیل خانہ اور پولیس کا محکمہ بھی آپؓ نے ہی قائم کیا۔
''تاریخ سن ہجری'' قائم کیا، جو آج تک جاری ہے۔ امیرالمؤمنین کا لقب اختیار کیا۔ فوجی دفتر ترتیب دیا۔ ''دفترمال'' قائم کیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کرائے، مقبوضہ ممالک کو صوبوں میں تقسیم کیا۔ اصلاح کے لیے درّے کا استعمال کیا۔ راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا۔ فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ رضاکاروں کی تن خواہیں مقرر کیں۔ پرچہ نویس مقرر کیے۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کے لیے مکانات تعمیر کروائے۔ گم شدہ بچوں کی پرورش کے لیے روزینے مقرر کیے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔
مکاتب و مدارس قائم کیے۔ معلمین کے مشاہرے مقرر کیے۔ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے وظیفے بھی آپؓ نے ہی مقرر کیے۔ نماز تروایح باجماعت قائم کی۔ شراب کی حد کے لیے 80 کوڑے مقرر کیے۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔ وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔ مساجد کے اماموں اور مؤذنوں کی تن خواہیں مقرر کیں۔ مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ آپؓ نے اس کے علاوہ بھی بہت سے فلاحی و اصلاحی کام کیے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح عمری ''الفاروقؓ'' میں رقم طراز ہیں کہ! تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکمران دکھا سکتے ہو؟ جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیص میں دس دس پیوند لگے ہوں۔
کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر آتا ہو، فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو، جہاں جاتا ہو جریدہ و تنہا جاتا ہو، اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، دور دربار، نقیب و چاؤش، حشم وخدم کے نام سے آشنا نہ ہو، اور پھر یہ رعب و ادب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو، سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا، عمر فاروقؓ کے ''سفر شام'' میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا، چاروں طرف غُل پڑا تھا کہ ''مرکز عالم'' جنبش میں آگیا ہے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔ 27 ذوالحجہ 23 ھجری کو آپؓ حسب معمول نماز فجر کے لیے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کی، ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ ایک شخص ''ابولولو فیروز مجوسی'' جو پہلے سے ہی ایک زہر آلود خنجر لیے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا تھا، نے خنجر کے تین وار آپؓ کے پیٹ پر کیے، جس سے آپؓ کو کافی گہرے زخم آئے اور آپؓ بے ہوش ہو کر گرگئے۔
اس دوران قاتل کو پکڑنے کی کوشش میں مزید صحابہ کرامؓ زخمی ہوگئے اور قاتل نے پکڑے جانے کے خوف سے فوری خودکشی کرلی۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے زخم مندمل نہ ہوئے اور یکم محرم الحرام کو دس سال چھے ماہ اور دس دن تک 22 لاکھ مربع میل زمین پر نظام خلافت راشدہ ؓ کو قائم کرنے کے بعد آپؓ نے 63 برس کی عمر میں جام شہادت نوش فرمالیا۔
حضرت صہیبؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور ''روضہ نبوی'' ﷺ میں خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پہلو میں دفن ہوئے۔
فاتح ارض مقدس، پیکر شجاعت سیدنا عمر فاروق اعظم ؓ
خلیفۂ دوم کا نام عمر، لقب فاروق اعظم اور کنیت ابوحفص تھی۔ والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا۔ آپؓ سفیدی مائل بہ سُرخ، رخساروں پر گوشت کم اور دراز قد تھے۔ آپؓ کا تعلق قریش کی ایک شاخ عدی سے تعلق تھا۔ سلسلۂ نسب عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداﷲ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک تھا۔ آپؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور ﷺ سے ملتا ہے۔
آپؓ 583ء میں پیدا ہوئے اور عرب کے دیہی ماحول میں پرورش پائی۔ آپؓ نے اونٹ چرائے اور فن سپہ گری میں بھی دست رس حاصل کی۔ آپؓ نے شہ سواری اور پہلوانی میں بھی مقام حاصل تھا۔ آپؓ کے گھرانے میں سب سے پہلے آپؓ کے بہنوئی حضرت سعدؓ اور پھر بہن فاطمہؓ نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد آپؓ نے نبوت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا۔ ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ نے رب سے التجا کی کہ یااﷲ اپنے دین کی مضبوطی کے لیے یا تو ہشام کا بیٹا دے یا خطاب کا بیٹا۔ نبی کریم ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور اﷲ پاک نے خطاب کے بیٹے کو چُن لیا۔ تمام صحابہؓ مُرید رسول ﷺ ہیں، مگر حضرت عمرؓ مراد رسول ﷺ ہیں۔ آپؓ کے اسلام لانے پر حضرت جبرائیل ؑنبی کریمؐ کے پاس آئے، مبارک باد دی اور فرمایا آسمان والے ایک دوسر ے کو عمر کے اسلام لانے کی خوش خبری سنا رہے ہیں۔
ہجرت نبویؐ کے کچھ عرصے بعد حضرت عمرؓ نے بیس افراد کے ساتھ ا علانیہ ہجرت کی۔ آپؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔ آپؓ 634ء میں خلافت کے منصب پہ فائز کیے گئے اور644ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ آپؓ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22 لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت عمرؓ کا زمانۂ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔ اس میں دو بڑی طاقتوں ایران و روم کو شکست دے کر ایران، عراق اور شام کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد آپؓ خود وہاں تشریف لے گئے۔
ایک مرتبہ ایک یہودی اور ایک منافق کا جھگڑا ہوا۔ منافق جو ظاہراً مسلمان تھا، نے یہودی سے کہا کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے پاس اپنا تنازع لے کے جاتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گے ہم دونوں منظور کرلیں گے۔ دونوں نبی کریمؐ کے پاس گئے، نبی کریمؐ نے دونوں کی بات سنی اور فیصلہ یہودی کے حق میں فرما دیا۔ اس منافق نے کہا کہ ہم اپنا جھگڑا حضرت عمر ؓکے پاس لے کے چلتے ہیں۔ چناںچہ حضرت عمر ؓ کے پاس گئے۔ اس یہودی نے کہا کہ ہمارے درمیان فیصلہ آپ کے پیغمبر نے کر دیا ہے۔ جب آپ ؓ نے یہ سنا تو آپؓ نے فرمایا، جو میرے نبیؐ کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کا فیصلہ عمر کی تلوار کرتی ہے اور اس منافق کا سر تن سے جدا کر دیا۔ جب رسول ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے فاروق (یعنی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا) کا لقب عطا کیا۔
حضرت عمر فاروق ؓ بہت ہی بارعب اور نڈر تھے لیکن انصاف ہمیشہ آپ کی عدالت سے ہی ملتا تھا۔ حضرت عمر ؓایک دفعہ منبر رسول ﷺ پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اے عمر! ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے لباس پہنا ہوا ہے یہ زیادہ ہے جب کہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اس مجمع میں میرا بیٹا موجود ہے اس بات کا جواب میرا بیٹا دے گا۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ کھڑے ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا، بیٹا بتاؤ تمہارا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداﷲ ؓ نے فرمایا کہ جو میرے بابا کو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا لباس نہیں بن سکتا تھا اور ان کے پاس جو لباس تھا وہ بہت خستہ حال تھا اس لیے میں نے اپنا کپڑا بھی اپنے والد کو دے دیا، جس سے ان کا پورا لباس بن گیا۔
جب آپ ؓخلیفہ بنے تو راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں پہرا دیا کرتے تھے تاکہ معلوم ہوسکے کہ رعایا کو کوئی تکلیف تو نہیں۔ ایسا حکم ران ملنا آج کے اس دور میں مشکل ہے جو اپنی رعایا کے لیے اپنا سکون بھی قربان کر دے۔ جب مدائن فتح ہوا تو مال غنیمت کا ڈھیر مسجد نبوی میں لگایا گیا تو حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے ایک ایک ہزار درہم حضرت حسن ؓاور حضرت حسین ؓکو دیے اور پھر حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کو پانچ سو درہم دیے۔ حضرت عبداﷲ ؓ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی قیادت میں غزوات میں حصہ لیا، جب کہ اس وقت حسنینؓ بہت چھوٹے تھے لیکن آپ نے انہیں زیادہ رقم عطا فرمائی ہے۔ فاروق اعظم ؓ کو یہ سن کر جلال آگیا اور فرمایا کہ عبداﷲ تم حسنین کے مقابلے میں اپنی بابت پوچھتے ہو؟ تو جاؤ ان کے باپ (حضرت علیؓ) جیسا کوئی باپ لے آؤ۔ ان کی ماں (حضرت فاطمہؓ) جیسی کوئی ماں لے آؤ۔ ان کے نانا (تاج دار مدینہ ﷺ) جیسا کوئی نانا لے آؤ۔ ان کی نانی (حضرت خدیجہؓ) جیسی کوئی نانی لے آؤ۔ ان کے چچا (حضرت جعفرؓ) جیسا کوئی چچا لے آؤ۔ ان کی پھوپھی (حضرت ام ہانیؓ) جیسی کوئی پھوپھی لے آؤ۔ ان کے ماموں (حضرت ابراہیمؓ ) جیسا ماموں لے آؤ۔ خدا کی قسم! عمر پر تم ان جیسا ایک رشتہ بھی نہ لاسکو گے۔
جب یہ سارا واقعہ حضرت علی ؓ تک پہنچا تو جناب علی ؓ نے فرمایا، عمر جنتیوں کا چراغ ہے۔ جب یہ بات سیدنا عمرؓ تک پہنچی تو عمر ؓ بے قرار ہوگئے اور حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ علی میرے بھائی یہ بات مجھے لکھ کے دے دو۔ حضرت عمر ؓ نے وصیت فرمائی کہ جب میں مروں تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا اور ان کے وصال کے بعد اس وصیت پر عمل کیا گیا۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے انصاف کی یہ حالت تھی کہ جب آپ ؓ کا انتقال ہوا تو کچھ عرصے بعد دور دراز علاقے کا ایک چرواہا آیا اور چیخ کر بولا۔ لوگو! حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا ہے۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ تم مدینہ سے بہت دور جنگل میں تھے۔ تمہیں اس سانحہ کی اطلاع کس نے دی؟
چرواہا بولا! جب تک حضرت عمر فاروق ؓزندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا، لیکن پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کرلے گیا۔ میں نے بھیڑیے کی جرات سے جان لیا کہ آج دنیا میں عمر فاروق ؓموجود نہیں ہیں۔ چناںچہ ان لوگوںنے جب تحقیق کی تو پتا چلا کہ اِسی روز حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تھا۔
سیدنا عمر فاروق ؓ کا معمول تھا کہ نماز کے فرائض خود سرانجام دیا کرتے تھے۔ بدھ کے دن 27 ذوالحجہ23 ھ کو حضرت عمرفاروق ؓ حسب معمول نماز فجر پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ وہاں فیروز نامی مجوسی بھی خنجر چھپائے کھڑا تھا اور پھر موقع ملتے ہی اس ظالم نے امیرالمومنین ؓ کو زہر میں بجھے ہوئے خنجر کے پے درپے وار کرکے گھائل کردیا۔ مراد رسول ﷺ کے عزم و ہمت کے کیا کہنے کہ زخموں سے چُور امیرالمومنین حضرت عمرفاروق ؓ نے گرتے ہی مصلیٰ امامت حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے سپرد کیا۔ خون میں لت پت امیرالمومنین ؓ نے اشاروں سے نماز مکمل کی۔ نماز کے بعد آپؓ نے پہلا سوال یہ کیا کہ میرا قاتل کون ہے؟ معلوم ہوا کہ وہ غیر مسلم ہے تو آپ ؓ نے بلند آواز سے کہا الحمدﷲ۔ گویا امیرالمومنین کی شہادت کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا تھا۔ فاروق اعظم ؓ کو یقین ہوگیا کہ میری خواہش ضرور پوری ہوگی۔ آپؓ یکم محرم الحرام کو 63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں شہادت پاگئے۔ آپؓ کی تدفین حضرت عائشہ ؓ کی اجازت سے حضور ﷺ کے پہلو میں ہوئی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صُہیب ؓ نے پڑھائی۔