بھارت میں سکھوں کی مذہبی کتاب کی بے حرمتی پر ہنگامے4افراد ہلاک100زخمی
پولیس نے لدھیانہ سے سکھ برادری کے 75 رہنماوں کو سڑکوں کو بلاک کرنے کے خدشے کے پیش نظر گرفتار کرلیا
سکھوں کی مذہبی کتاب کی مبینہ بے حرمتی کے بعد بھارتی پنجاب میں ہنگامے پھوٹ پڑے جبکہ فریدکوٹ میں سکھوں اورپولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں کم 4 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے،سکھ مظاہرین نے متعددسڑکیں بلاک کردیں اورکئی گاڑیوں کوآگ لگا دی۔
بھارتی میڈیاکے مطابق گزشتہ 2روز سے بھارتی پنجاب کے علاقوں فریدکوٹ اور ضلع موگامیں سکھ برادری سراپا احتجاج ہے،یہ احتجاج اس وقت شروع ہواجب برگاری گاؤں کے ایک گردوارے کے قریب سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کے100مسخ شدہ صفحے ملے،اطلاعات کے مطابق مقدس کتاب کوگردوارے سے جون میں چوری کیا گیاتھا۔
دوسری جانب پولیس نے لدھیانہ سے سکھ برادری کے 75 رہنماوں کو سڑکوں کو بلاک کرنے کے خدشے کے پیش نظر گرفتار کرلیا،سکھوں نے حکومتی رویے اور مقدس کتاب کی بے حرمتی پر مختلف شہروں میں آج ہڑتال کا اعلان کیاہے۔
واقعے کے نتیجے میں فریدکوٹ کے گاؤں ویبھال گاؤں میں ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں اب تک کم از کم 4افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں میں بٹھنڈاکے انسپکٹر جنرل بھی شامل ہیں۔دوسری جانب پولیس نے لدھیانے سے سکھ برادری کے 75 رہنماؤں کو سڑکوں کو بلاک کرنے کے خدشے کے پیش نظر گرفتار کرلیاہے۔اس کے علاوہ منگل کوبھی اس طرح کے احتجاج کے دوران کم از کم 19 افراد زخمی ہوگئے تھے جبکہ پولیس نے 200 مظاہرین کوگرفتار بھی کیا تھاتاہم انھیں بعد میں رہا کردیاگیا۔
بھارتی پولیس نے سکھوں کو منتشر کرنے کیلیے واٹرکینن کا استعمال، لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکے جس میں کئی افرادزخمی ہوگئے،شہر فرید کوٹ میں پولیس سے جھڑپوں کے نتیجے میں 8 پولیس اہلکاروں سمیت 15سکھ مظاہرین زخمی ہو گئے۔
سکھوں نے حکومتی رویے اور مقدس تحریر کی بے حرمتی پر فرید کوٹ ،فیروز پور بنالا اوردیگر کئی شہروں میں کل ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد بھارت میں اقلیتوں کو زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔رواں برس مئی میں ہی امریکی کانگریس کے ایک پینل کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ عام انتخابات کے بعد سے حزب اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات دیتے رہے ہیں اور اقلیتوں کے خلاف حملوں اور راشٹریا سیوک سنگھ اور وشا ہندو پریشد جیسی انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ سال دسمبر میں ہندوگروہوں نے4ہزار مسیحی خاندانوں اور ایک ہزار مسلم گھرانوں کے افراد کواتر پردیس میں ''گھر واپسی'' کے نام سے چلائی جانے والی مہم میں جبری طور پر ہندو بنانے کا اعلان کیاتھا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ باوجود ایک سیکولرجمہوریت ہونے کے بھارت اقلیتوں کوتحفظ فراہم کرنے اور ان کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہاہے جس سے اقلیتوں کے خلاف جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
بھارتی میڈیاکے مطابق گزشتہ 2روز سے بھارتی پنجاب کے علاقوں فریدکوٹ اور ضلع موگامیں سکھ برادری سراپا احتجاج ہے،یہ احتجاج اس وقت شروع ہواجب برگاری گاؤں کے ایک گردوارے کے قریب سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کے100مسخ شدہ صفحے ملے،اطلاعات کے مطابق مقدس کتاب کوگردوارے سے جون میں چوری کیا گیاتھا۔
دوسری جانب پولیس نے لدھیانہ سے سکھ برادری کے 75 رہنماوں کو سڑکوں کو بلاک کرنے کے خدشے کے پیش نظر گرفتار کرلیا،سکھوں نے حکومتی رویے اور مقدس کتاب کی بے حرمتی پر مختلف شہروں میں آج ہڑتال کا اعلان کیاہے۔
واقعے کے نتیجے میں فریدکوٹ کے گاؤں ویبھال گاؤں میں ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں اب تک کم از کم 4افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں میں بٹھنڈاکے انسپکٹر جنرل بھی شامل ہیں۔دوسری جانب پولیس نے لدھیانے سے سکھ برادری کے 75 رہنماؤں کو سڑکوں کو بلاک کرنے کے خدشے کے پیش نظر گرفتار کرلیاہے۔اس کے علاوہ منگل کوبھی اس طرح کے احتجاج کے دوران کم از کم 19 افراد زخمی ہوگئے تھے جبکہ پولیس نے 200 مظاہرین کوگرفتار بھی کیا تھاتاہم انھیں بعد میں رہا کردیاگیا۔
بھارتی پولیس نے سکھوں کو منتشر کرنے کیلیے واٹرکینن کا استعمال، لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکے جس میں کئی افرادزخمی ہوگئے،شہر فرید کوٹ میں پولیس سے جھڑپوں کے نتیجے میں 8 پولیس اہلکاروں سمیت 15سکھ مظاہرین زخمی ہو گئے۔
سکھوں نے حکومتی رویے اور مقدس تحریر کی بے حرمتی پر فرید کوٹ ،فیروز پور بنالا اوردیگر کئی شہروں میں کل ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد بھارت میں اقلیتوں کو زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔رواں برس مئی میں ہی امریکی کانگریس کے ایک پینل کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ عام انتخابات کے بعد سے حزب اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات دیتے رہے ہیں اور اقلیتوں کے خلاف حملوں اور راشٹریا سیوک سنگھ اور وشا ہندو پریشد جیسی انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ سال دسمبر میں ہندوگروہوں نے4ہزار مسیحی خاندانوں اور ایک ہزار مسلم گھرانوں کے افراد کواتر پردیس میں ''گھر واپسی'' کے نام سے چلائی جانے والی مہم میں جبری طور پر ہندو بنانے کا اعلان کیاتھا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ باوجود ایک سیکولرجمہوریت ہونے کے بھارت اقلیتوں کوتحفظ فراہم کرنے اور ان کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہاہے جس سے اقلیتوں کے خلاف جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔