انسانی دماغ کا سائز اس کی ذہانت میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا سائنس دان
مرد ہو یا عورت دونوں کے آئی کیو اور دماغی حجم کے درمیان بہت ہی کمزور تعلق ہے، سائنس دان
عام طور پر تصور کیا جاتا ہے جن لوگوں کا دماغ بڑا ہوتا ہے وہ زیادہ ذہین اور عقل مندہوتے ہیں لیکن اب ایک نئی تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دماغ کا سائز نہیں بلکہ اس کی بناوٹ اس کی ذہانت کا پتا دیتی ہے۔
یونیورسـٹی آف ویانا میں سائنس دانوں کی انٹرنیشنل ٹیم نے دماغ کے سائز اور بناوٹ پر تحقیق کے بعد انکشاف کیا کہ انسانی دماغ کا سائز کسی ایک انسان کے دوسرے سے زیادہ ذہین ہونے میں انتہائی کم کردار ادا کرتا ہے۔ اس تحقیق سے قبل سائنس دان 1836 میں اعضا کے جرمن ریسرچر فریڈرچ کی تحقیق کو ہی درست مان رہے تھے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انسانی دماغ کے سائز اور اس کی صلاحیتوں اور قابلیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے تاہم اب اس تحقیق سے اس نظریئے کو غلط ثابت کرتے ہوئے ایم آر آئی اسکین اور آئی کیو ٹیسٹ سے نیا نظریہ سامنے لایا گیا ہے جس کے دوران انٹرنیشنل ٹیم نے 8 ہزار افراد کے لیے گئے 148 نمونوں اور دماغ کے حجم اور آئی کیو کا موازنہ کیا۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ مرد ہو یا عورت، دونوں کے آئی کیو اور دماغی حجم کے درمیان بہت ہی کمزور تعلق ہے یعنی دماغ کسی بھی انسان کی کارگردگی میں بہت ہی معمولی کردار ادا کرتا ہے۔ اس تحقیق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے تحقیق کے اہم رکن جیکب پیٹس چنگ کا کہنا تھا کہ سائز سے زیادہ دماغ کی بناوٹ آئی کیو کی حیاتیاتی بنیاد میں اہم کردار ادا کرتی ہے جب کہ سائز مددگار میکنزم کے طور پر اپنا کام کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر کسی بھی وہیل مچھلی کے دماغ میں سب سے بڑا سینٹرل نروس سسٹم موجود ہوتا ہے لیکن جب کنٹرول کا وقت آتا ہے تو اس کے اندر موجود اسکریو اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ مردوں کے دماغ کا سائز عورتوں کے دماغ سے بڑا ہوتا ہے تاہم جب دونوں کا آئی کیو کیا گیا تو دونوں کی کارگردگی میں کوئی فرق سامنے نہیں آیا بلکہ جن لوگوں کا دماغ بیماری میگلینسی فیلے کے تحت بہت بڑھ جاتا ہے ان کا آئی کیو لیول اوسط انسان سے بھی کم ہوتا ہے، ڈاکٹر پیٹس چنگ کا کہنا ہے کہ اسی لیے دماغ کی بناوٹ اہم بن کر کا سامنے آتی ہے جو انسانی کارگردگی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
یونیورسـٹی آف ویانا میں سائنس دانوں کی انٹرنیشنل ٹیم نے دماغ کے سائز اور بناوٹ پر تحقیق کے بعد انکشاف کیا کہ انسانی دماغ کا سائز کسی ایک انسان کے دوسرے سے زیادہ ذہین ہونے میں انتہائی کم کردار ادا کرتا ہے۔ اس تحقیق سے قبل سائنس دان 1836 میں اعضا کے جرمن ریسرچر فریڈرچ کی تحقیق کو ہی درست مان رہے تھے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انسانی دماغ کے سائز اور اس کی صلاحیتوں اور قابلیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے تاہم اب اس تحقیق سے اس نظریئے کو غلط ثابت کرتے ہوئے ایم آر آئی اسکین اور آئی کیو ٹیسٹ سے نیا نظریہ سامنے لایا گیا ہے جس کے دوران انٹرنیشنل ٹیم نے 8 ہزار افراد کے لیے گئے 148 نمونوں اور دماغ کے حجم اور آئی کیو کا موازنہ کیا۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ مرد ہو یا عورت، دونوں کے آئی کیو اور دماغی حجم کے درمیان بہت ہی کمزور تعلق ہے یعنی دماغ کسی بھی انسان کی کارگردگی میں بہت ہی معمولی کردار ادا کرتا ہے۔ اس تحقیق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے تحقیق کے اہم رکن جیکب پیٹس چنگ کا کہنا تھا کہ سائز سے زیادہ دماغ کی بناوٹ آئی کیو کی حیاتیاتی بنیاد میں اہم کردار ادا کرتی ہے جب کہ سائز مددگار میکنزم کے طور پر اپنا کام کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر کسی بھی وہیل مچھلی کے دماغ میں سب سے بڑا سینٹرل نروس سسٹم موجود ہوتا ہے لیکن جب کنٹرول کا وقت آتا ہے تو اس کے اندر موجود اسکریو اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ مردوں کے دماغ کا سائز عورتوں کے دماغ سے بڑا ہوتا ہے تاہم جب دونوں کا آئی کیو کیا گیا تو دونوں کی کارگردگی میں کوئی فرق سامنے نہیں آیا بلکہ جن لوگوں کا دماغ بیماری میگلینسی فیلے کے تحت بہت بڑھ جاتا ہے ان کا آئی کیو لیول اوسط انسان سے بھی کم ہوتا ہے، ڈاکٹر پیٹس چنگ کا کہنا ہے کہ اسی لیے دماغ کی بناوٹ اہم بن کر کا سامنے آتی ہے جو انسانی کارگردگی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔