پیپلز پارٹی کی کہانی تاریخ کی زبانی
اس کے علاوہ عوامی محاذ پر شیرو اور دادل اس جلسے کے محافظین میں سے تھے۔
بات 1962ء کی ہے، جب پیپلز پارٹی کے سربراہ کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے اور ایوب خان کی صدارت میں ایک جلسہ پولو گراؤنڈ میں منعقد کیا جانا تھا۔ یہ جلسہ عام نہ تھا بلکہ ایک قسم کا ورکرز کنونشن تھا جس کا مقصد ایوب خان کو آئینی صدر بنانا تھا۔ پولو گراؤنڈ کا یہ جلسہ نہایت منظم تھا اور کراچی کے بڑے جلسوں میں سے ایک تھا۔ یہ بات اس وقت کی ہے جب کراچی تجارتی شہر کے علاوہ ملک کا دارالسلطنت بھی تھا۔ ملک کی انتظامیہ تو اس جلسے کی تمام تر خدمات انجام دے رہی تھی۔
اس کے علاوہ عوامی محاذ پر شیرو اور دادل اس جلسے کے محافظین میں سے تھے۔ ایک طرف انتظامیہ گورنمنٹ کی سطح پر جلسے کی کامیابی کے لیے کوشاں تھی دوسری طرف لیاری کے یہ دو نمایاں دادا حضرات مصروف بہ کار تھے۔ ابھی یہ جلسہ شروع ہونے کو ہی تھا، تمام انتظامات مکمل ہو گئے، صدر مملکت آنے کو تھے، جلسے کی کارروائی شروع ہونے کو تھی اور اعلانات ابتدائیہ ہوئے ہی تھے کہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن اور لیڈر جو جلسہ گاہ میں بیٹھے تھے، اسٹیج پر چڑھ دوڑے۔ اور یہ جلسہ درہم برہم ہو گیا۔
جو لوگ اسٹیج پر چڑھ دوڑے ان میں نمایاں لوگ علی مختار رضوی مرحوم، فتحیاب علی خان مرحوم، آغا جعفر مرحوم، ڈاکٹر باقر عسکری، جوہر حسین مرحوم، معراج محمد خان نمایاں تھے، یہ لوگ اور ان کے ساتھی حضرات کس طرح جلسہ گاہ میں داخل ہوئے، یہ بھی ایک کہانی ہے۔ غرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بہت سے لوگ کوچ کر گئے، ان لیڈران میں جو بہ قید حیات ہیں، ان میں معراج محمد خان اور ڈاکٹر باقر عسکری شامل ہیں۔ معراج محمد خان کے متعلق ذوالفقار علی بھٹو نے فرمایا تھا کہ معراج میرا جانشین ہو گا۔ کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن میں خاندانی جمہوریت کا تصور نہ تھا۔
وہ الگ بات تھی کہ کچھ صورت حال ایسی بنی کہ ان کی بیوی ظالم حکومتوں کے تحت سب سے زیادہ مشکلات سے دوچار ہوئیں۔ یہ نصرت بھٹو تھیں جو یکے بعد دیگرے صدمات سے دوچار ہوتی گئیں، شوہر تو شہید ہوا ہی، بیٹے بھی گردش سیاست دوراں کا شکار ہوئے، جو واقعی اپنی ذات اور سچائی کا نشان رہے۔ بیگم نصرت بھٹو نہ سولی چڑھیں اور نہ شہید کی گئیں مگر پھر بھی وہ سب سے زیادہ ستم کا شکار ہوئیں۔ جوان بیٹوں اور بیٹی کا ذکر کیا، شوہر کا سولی چڑھنا دیکھ کر توانائی کھو بیٹھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور پارٹی نے مقدمہ لڑنے کی ٹھان لی تو معراج محمد خان بیگم نصرت بھٹو کے پاس گئے اور مزاحمتی تحریک چلانے کی ٹھان لی۔ مگر پارٹی فدائین سے محروم اور زر پرستی میں دھنس چکی تھی۔
وڈیرے اپنی اپنی شادیاں کر رہے تھے۔ بے نظیر البتہ اس پل صراط سے گزر رہی تھیں، اور ان کو سیاست کا عملی ادراک تھا۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے ملک کے ان نوجوانوں کو جمع کرنا شروع کیا جو جگر لخت لخت کی طرح بکھر چکے تھے۔ منور سہروردی، امیر حیدر کاظمی، مسرور احسن، نجیب احمد یہ لوگ اپنی انجمن تھے۔ منور شہید کر دیے گئے۔
اگر میں منور سہروردی کی قربانیوں کی تفصیل لکھوں تو وہ کئی صفحات پر محیط ہو گی۔ ایک مختصر سی منور سہروردی کی تصویر کھینچ رہا ہوں کیونکہ 1968-79 میں پیپلز پارٹی نے اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور اس کے نعرے غریبوں کے لیے حیات کا پیام تھے، عملی طور پر ان کے صوبائی لیڈر انسان دوست تھے، ان کے دروازے ہر شخص پر کھلے رہتے تھے۔ پہلی مثال منور سہروردی کی جو گولیوں کا نشانہ بنے، ایک غریب بیوہ عورت کی درخواست منور سہروردی کے گھر لے گیا۔ اس عورت کی بیٹی کی شادی تھی۔ ان کی شہادت سے ایک ماہ قبل کی بات ہے، گھر گیا تو وہ نہ تھے صرف چند سطور منور سہروردی کے لیے لکھی تھیں، دوسرے روز فون آیا کہ خاتون کو گھر بھیج دیں۔
وہ گھر گئے مگر منور نہ ملے مگر ان کی بیوی نے ان کی مدد کی۔ کوئی خطیر رقم نہ تھی مگر پھر بھی مناسب تھی۔ ایسا ہی امیر حیدر کاظمی کا حال تھا، وہ وزیر صحت تھے، کیوں نہ ہوتے ان کی لیڈر محترمہ بھی لوگوں کے کام آتی تھیں۔ ان میں انسانی اقدار موجود تھیں۔ مگر زرداری صاحب جو ہمارے سابق صدر مملکت بھی رہ چکے ہیں انھوں نے عنان سیاست بدل ڈالی، اس سے پارٹی کا زوال شروع ہو گیا اور پارٹی میں وراثت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وراثت کا چلنا کوئی بری بات نہیں مگر اس شخص میں لیاقت تو ہو۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو 1967ء میں کس طرح کوچہ بہ کوچہ، قریہ بہ قریہ، شہر بہ شہر ریلوں میں، بسوں میں سفر کرتے تھے، اسی لیے پنجاب ان کا پایہ تخت تھا۔
ہر ضلع میں انھوں نے خطاب کیا۔ ہر شخص کے دل کی بات کی۔ عالمی افق پر بھی ان کی کارروائیاں قابل دید تھیں۔ ان کا تصور مسلم امہ کے اتحاد کا بھی قابل دید تھا۔ شاہ فیصل کی شخصیت، ایک طرف یوگنڈا کے عیدی امین دوسری جانب معمر قذافی کو ملا کے گفتگو۔ اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ڈالی۔ اپنی پارٹی کے جھنڈے کو لیبیا کے جھنڈے جیسا بنایا۔ جہاں بہت سی خوبیاں تھیں جانے والے میں وہاں مجیب کے ساتھ ملا جلا عمل ہوتا تو آج ذوالفقار علی بھٹو حیات ہوتے اور بے نظیر حیات ہوتیں تو پاکستان کی تقدیر بدلی ہوتی۔ مگر بنگلہ دیش کے وجود نے بھی بھٹو صاحب کو کمزور کیا۔ ایک وقت ایسا آ گیا کہ پیپلز پارٹی کے دست و بازو کو نکال باہر کیا گیا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد کمزور ترین لوگ جو سیاست میں عوام کی نفسیات نہ جانتے تھے محض ہوشیاری، تعاون اور شطرنج کی سیاست کرنے لگے۔ ڈرائنگ روم کی سیاست اور لیڈروں میں اتحاد کر کے سیاست کرنا شروع کیا گیا۔ آنے والے دنوں کا خیال نہ کیا گیا۔ بس ساری قوت اس بات پر صرف کی جانے لگی کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ خواص ہیں۔ معاشی مساوات کی بات بھول گئے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ المرتضیٰ لاڑکانہ میں جس گھر میں ذوالفقار علی بھٹو رہا کرتے تھے وہاں میر مرتضیٰ بھٹو نے دروازے پر ایک جھونپڑی بنا رکھی تھی جو ان کی بیٹھک تھی۔
اگر دل میں غربا کی عزت نہ سہی دکھاوا تو ہونا چاہیے۔ اب محلات کا مقابلہ ہے۔ صدور و وزرا میں ملک کا کوئی نگہباں نہیں۔ سیاست ایک ایسا کاروبار ہے نہ ملازمتیں ہیں نہ مزدور، بس کمائی اور کمائی جاری ہے۔ یہ انگلینڈ کے لیڈر نہیں ہیں کہ اپنے فلیٹس سے آئے اور اپنے فلیٹس میں واپس چلے گئے۔ اب تو ملک کا یہ حال ہے ایک ڈیڑھ ارب ڈال کے آئے اور کھربوں روپے لے کے چلے گئے۔
پاکستان ایک عجیب ریاست بن چکی ہے۔ جہاں لیڈروں نے مقاصد پاکستان ختم کر دیے۔ اور ان لیڈروں کی وجہ سے پاکستان میں رہبروں کا ایک خلا پیدا ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کئی بار جمہوریت کے نام پر آئی اور (ن) لیگ بھی، مگر طلبا انجمنوں پر قدغن لگا دی گئی اور یہ قدغن ہے کہ جاری، کیونکہ طلبا ہمیشہ ملکی حاکموں سے پنجہ آزمائی کی طاقت رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ حق کے ساتھ ہوتے ہیں وہ عام طور پر والدین کے خرچ پر تعلیمی اداروں میں ہوتے ہیں یا کچھ ایسے بھی جو اپنے تعلیمی اخراجات خود پورا کرتے ہیں۔ عام طور پر پوسٹ گریجویٹ تعلیم جاری رکھنے والے طلبا جو سیاست میں قدم رکھ سکتے ہیں لہٰذا سیاست دانوں کی کارروائی یوں ہی چلتی رہے گی۔ پیپلزپارٹی کے ابتدائی دور میں طلبا ہی اس کی قوت اور ہراول دستہ تھے۔
کراچی کے بیشتر پولنگ ایجنٹ دسمبر 1970ء کے انتخابات میں طلبا ہی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کافی تھے۔ مگر ناقص سیاسی حکمت عملی کا انجام تو دیکھیے لاہور جہاں طلبا کا جم غفیر ہوتا تھا جو پولنگ ایجنٹ بنتا تھا آج وہ لوگ جو ماضی کے ہر اول دستہ تھے۔ ان کی اولاد پیپلز پارٹی کیوں چھوڑ گئی؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ پارٹی اپنے گھر سے قیادت ڈھونڈھ رہی ہے اور یہ قیادت اس قابل نہیں کہ کارکنوں میں نئی روح پھونک سکے۔
ماسوائے یہ ایک پرانا شور ''زندہ ہے بھٹو زندہ ہے''، ''کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے''۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد بے نظیر نے جس طریقے سے قیادت سنبھالی تھی بلاول بھٹو کے نہ وہ آدرش ہیں، اور نہ زیرکی۔ نہ فکر اور نہ اپنا کوئی نعرہ یا رخ، بلکہ بے نظیر جب طالب علم تھیں ان کی نمایاں عزت تھی اور وہ اپنے باپ کی نہ صرف بیٹی تھیں بلکہ ان کو بھٹو کے آدرشوں اور روح کا پاس تھا، وہ چالاک نہ تھیں بلکہ سمجھدار تھیں اور آنے والے وقت کو سمجھتی تھیں، پھر عوام کی جذباتی کیفیت اور امیدوں سے آشنا تھیں اور آج بھٹو کی راجدھانی لاہور میں بیرسٹر عامر حسن نے انتخاب لڑ کر پیپلز پارٹی کے بھرمِ درازی قد و قامت کو کھول دیا۔