عزمِ حسین ؓ
اسلامی اور قمری سال 1437ھ کا آغاز محرم کے پہلے مہینے سے ہوچکا ہے
اسلامی اور قمری سال 1437ھ کا آغاز محرم کے پہلے مہینے سے ہوچکا ہے ۔عیسوی سال کے آغاز پرعالم بشریت سالِ نوکی آمد پر رنگا رنگ پروگرام منعقد کرکے نئے سال کا استقبال کرتے ہیں۔ دنیا کی مہنگی ترین آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ہجری سال کے آغازکا اندازغم زدہ اور دل سوزکیوں ہے؟کبھی عالم بشریت نے اس فکری اور روحانی فلسفے پرغور کرنے کی کوشش کی ہوگی 'نہیں '۔ اسی لیے جوش ملیح آبادی کہہ گئے :
انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
قابلِ فکرپہلو یہ ہے کہ ہجری سال کے اختتامی مہینے ''ذو الحجہ''میں حضرت ابراہیم ؑ کو خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کی بشارت ہوئی ۔چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے حکمِ خداوندی کی تعمیل میں اپنے فرزند ارجمند حضرت اسماعیلؑ کے گلے پر جیسے ہی چھری چلائی تو اللہ تعالیٰ نے فرزند کی جگہ ایک مینڈھے کو وارد فرمایا ۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنی اس آزمائش میں کامیاب ہوئے ، اس خوشی میں اُمتِ مسلمہ اس آزمائش کی کامیابی کو ہر سال روایتی اور مذہبی جوش وخروش کے ساتھ عید مناتی ہے جس کو عیدِ قرباں یا عید الاضحی کہا جاتا ہے ۔
بقول علامہ اقبال کے:
غریب وسادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیلؑ
اِدھر شہیدِ کربلاسبط رسول حسین ابن علی کی محرم الحرام 61 ہجری میں خداوند کریم کی طرف سے سخت آزمائش کی گھڑی ہے جس میں نانا کے دین کی حفاظت واطاعت اور سربلندی کی خاطر اپنی ذات اورخاندان جس میں خواتین، نوجوان ، بوڑھے اور شیر خوار بچے اور اصحاب ہیں جو ہر طرح کی کڑی آزمائش میں امام کا ساتھ چھوڑنے پر رضامند نہیں۔واقعہ کربلاکسی اقتدار کے حصول کا واقعہ نہیں بلکہ نانا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کے دین ، شریعت ،مذہب کی حفاظت تھا ۔
سیاست یا وراثت کے ذریعے اقتدار کا حصول اُن کا مقصدِ حیات قطعاً نہیں تھا۔اقتدارِ اعلیٰ خدا کا حق ہے اور اس کے برحق نمایندوں کا ۔دین مذہب عبدیت عالم کو زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا کرتا ہے تاکہ انسان اللہ کی پاک ذات کو حاکمیت اعلیٰ تسلیم کرتے ہوئے اُس کے آگے سجدہ ریز ہوسکے اور اُس کا شکر بجا لائے یہی ہے ہمارا دینِ حنیف۔ یزید بن معاویہ کی دلی خواہش تھی کہ حسین ابنِ علی، جگرگوشہ بتول ، نواسئہِ رسول کے دین اور شریعت کو اپنے حسب ومنصب کے حساب سے ترتیب دے جس پر امام عالیٰ مقام کسی بھی قیمت پرتیار نہ ہوئے اور انھوں نے یزید کی بیعت سے صاف صاف انکار کردیا ۔
عاشور اور شبِ عاشورکیا ہے ؟ محرم الحرام کی پہلی تاریخ سے دسویں تاریخ تک عشرہ کہا جاتا ہے اور اس مہینے کی دسویں تاریخ کو اس واقعے کی نسبت سے عاشورکا نام دیا جاتا ہے۔عاشور نام ہے بھوک وپیاس کی شدت میں صبرواستقامت، شجاعت وبہادری سے باطل قوتوں کے سامنے سینہ سپر کھڑے رہنا ۔عام مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جو حق پر ہوگا، مصائب و آلام کے پہاڑ بھی اُسی پر ٹوٹیں گے۔ واقعہ کربلا قیامت تک حق پرستوں کو روشنی اور رہنمائی فراہم کرتا رہے گا ۔ہر سال عقیدت واحترام کے ساتھ مجالس کا اہتمام یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ابدی اور لافانی شے ہے۔
جب مدینے سے لشکرِ حسینی ،انصارِحسینی مدینے کی طرف ہجرت کررہے تھے تو ان کے ہمراہ اہلِ بیت جن میں آپ کی بہن بی بی زینب، چھوٹی بیٹی سکینہ، ازواج شہربانو اور اُمِّ رباب کی گود میں اُن کے شیرخوار فرزند شہزادہ علی اصغرؓ،آپ کے جواں سال کڑیل شبیہ پیغمبر اور خوبصورت فرزند حضرت علی اکبر ؓ، سقائے سکینہ غازی عباس علمدارؓ(پسر اُم البنین) ، عون و محمد ،آپکے فرزند بیمارِکربلا حضرت زین العابدینؓ ، شہزادہ قاسم اور جملہ جانثارانِ کربلا جن کی تعداد لگ بھگ 72 ہوگی ۔ایسا غم ناک موقع بھی آیا کہ امام عالیٰ مقام کو ننھے شیر خوار شہید بچے علی اصغرکی قبر خود کھودنا پڑی ۔
پانی کی قدرو منزلت کو سمجھنا عین سنت رسولؐ کی پیروی ہے۔ نہرفرات کے کنارے واقع بیابان صحرائی سرزمین کربلا میں حسینی لشکر پرایذا رسانی کے ساتھ نہر فرات کے پانی کی بندش جو رہتی دنیا تک یزید کے بد نما چہرے کوداغدارکرگئی اور امام مظلوم فکری اور روحانی مرتبت پر فائز ہوئے۔ عالمِ بشریت بالخصوص اُمّتِ مسلمہ کی طرف سے اس ماہ میں پانی کی سبیلوں کا اہتمام کرنا اس جملے کے ساتھ کہ ''پانی پیو تویادکرو پیاس امام کی ''اسی شدت پیاس کی یاد کو تازہ کرتا ہے ۔
کہتے ہیں جب کوئی گھر پر مہمان آئے تو اس کو پہلے پینے کا پانی پیش کرو ۔جانورکوذبح کرنے سے قبل پانی پلایا جاتا ہے اللہ اللہ! روایت ہے کہ کربلا کی تپتی ہوئی سرزمین سے بلکتے بچوں ، عورتوں کی چیخ وپکار ''العطش العطش'' کی صدائیں ہر خیمے سے بلند ہورہی تھیں ۔یہاں پر ایک اشتباہ کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ شاید واقعہ کربلا ایک حادثہ یا سانحہ تھا جو وقتی حالات کے پیشِ نظر رونما ہوا ۔جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں ۔
واقعہ کربلا حقیقت میں خدا کی ایک واضح تدبیر اور حکمت عملی تھی جس کا مقصد اصل اسلام کا احیاء اور باطل کے بازوؤں کو تاقیامت شل کردینا تھا۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ مستند روایات کے مطابق رسولِ خدا ؐ نے خود اپنی حیات میں اُم المومنین حضرت اُمِّ سلمہؓ کو حضرت امام حسینؓ کی کربلا میں شہادت کی بشارت دی تھی اور کربلا کی خاک نشانی کے طور پر انھیں دی تھی اور فرمایا تھا کہ جب یہ خاک خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا میرا حسین شہید ہوگیا ہے۔ لہذا اس تدبیرکی قیمت خداوندِ عالم اور اس کے رسول ؐ کی محبوب ترین ہستی کی قربانی تھی۔
بقول سید علی رضا زیدی :
لکھ چُکا قرطاس مقتل پر حسین ؓ ابنِ علیؓ
دیر تک روتا رہا ، پھر کاتبِ تقدیر بھی
خاندانِ رسالت کے اس بے تاج بادشاہ کی شخصیت وکردار پر قلم اُٹھانا آسان کام نہیں لیکن 3 شعبان المعظم 4 ہجری کو ولادت پانے سے صبح عاشور تک اس مظلومِ امام کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بے شک فرزند رسول ؐ نے تا قیامت اس دنیا کے با شعور اور عقل و فہم رکھنے والی بشریت کو ایک ایسا ضابطہ حیات دیا کہ ان کی پیروی کرکے ہم اس جہانِ فانی اور آخرت میں بھی سرخرو ہوسکیں ۔
آپ ہر حالت میں اپنے احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور سننے والا حیرت و استجاب میں ڈوب جاتاتھا۔ فصاحت اور بلاغت آپ کو اپنے مقدس نانا اور والد بزرگوار حضرت علی ابنِ ابو طالب سے وراثت میں ملی تھی ۔ایک مقام پرحضرت امام حسین ؑ نے فرمایا ''ہم اللہ کے غالب وکامیاب گروہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قریب ترین عترت اور ان کے پاکیزہ اہلِ بیت ہیں اور گراں قدر چیزوں میں سے ایک ہیں۔''
ایک جگہ فراخ دلی کے متعلق فرمایا: ''جس نے لین دین کیا ، اُس نے سرداری پائی اور جس نے بخل کیا اُس نے ذلت اُٹھائی۔'' سخاوت کے بارے میں امام حسین ؓ ایک جگہ فرماتے ہیں ''سخی وہی ہے جس نے اس کو بھی دیا جس سے وہ توقع وابستہ نہ رکھتا ہو۔''مقصد حسینؓ صرف اور صرف اطاعت خداوندی اور ترویج اسلام اپنے نانا کے دین کے مطابق تھی۔ انھیں کسی تخت یا بادشاہت کی ضرورت نہیں تھی نا ہی اُن کے سامنے قطعاً دنیاوی لوازمات کی کوئی اہمیت تھی۔
امام حسینؓ نے قربانیِ عظیم دے کر یہ آفاقی پیغام دے دیا کہ دشمن چاہے کتنا ہی طاقتورکیوں نہ ہو،اگر آپ حق پر ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی ، بلکہ دشمن ان کے عزم ، حوصلے اور بلند ہستی کو دیکھتے ہوئے لرزہ براندام ہوجائے گا۔ذرا امام کا اعلیٰ حوصلہ اور عزم تو دیکھیے کہ اس خونی معرکے میں 22ہزار لشکرِ یزید کا مقابلہ صرف72 انصارِ حسینی نے کیا۔
اُمّتِ مسلمہ میں جاری انتشار کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم عام اور معمول کی زندگی میں قومی اور اجتماعی معاملات کی بجائے ذاتی منفعت کی خاطر مصلحت پسندی سے کام لیتے ہیں ۔
دنیا میں روزبروز رونما ہونے والے حالات و واقعات اس نقطے کی طرف واضح اشارہ کررہے ہیں کہ مستقبل میں قوموں کی تباہی کسی جوہری اورکیمیائی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ تباہی کا سب سے بڑا ہتھیار ''پانی'' ہوگا ۔ دنیا میں سنگین مسئلہ پانی کی منصفانہ تقسیم ہوگا۔ عراق و شام ، فلسطین میں جاری نا حق خون ریزی ہمیں کس طرف لے کر جارہی ہے شاید ہم اس حقیقت سے بالکل نا آشنا ہیں۔ اسی لیے ضرورت ہے اُمّتِ مسلمہ میں مکمل اتحاد اور یگانگت کی جو فلسفہ حسینی کواپنائے بغیر نا ممکن ہے۔