میری پوری صلاحیتیں سامنے نہیں آسکیں منوج باجپائی
اٹھارہ برسوں میں ہندی فلموں کے شائقین نے متنوع کرداروں میں منوج کی صلاحیتوں کا نظارہ کیا ہے.
جب بھی بولی وڈ کے باصلاحیت اور غیرروایتی اداکاروں کی فہرست مرتب کی جائے گی تو اس میں منوج باجپائی کا نام یقینی طور پر شامل ہوگا۔
باجپائی کو شہرت رام گوپال ورما کی فلم'' ستیہ'' سے ملی تھی۔ 1998ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں منوج نے انڈر ورلڈ ڈان، بھیکو ماترے کا کردار اتنی مہارت سے ادا کیا تھا کہ یہ کردار اس کی پہچان بن گئی۔ اگرچہ آنے والے برسوں میں منوج نے مختلف طرح کے بے شمار کردار ادا کیے لیکن آج بھی اس کا نام سنتے ہی بھیکوماترے کا رول پردۂ تصور پر ابھر آتا ہے اور ذہن میں اس کا مشہور ڈائیلاگ ''ممبئی کا کنگ کون؟'' گونجنے لگتا ہے۔ منوج نے اٹھارہ سالہ کیریر میں ہمیشہ غیرروایتی کرداروں کے انتخاب کو ترجیح دی جو اس کی صلاحیتوں کے لیے چیلنج ثابت ہوں۔'' چکرویو''اس باصلاحیت اداکار کی آنے والی فلم ہے۔ پرکاش جھا اس فلم کے ڈائریکٹر ہیں جو غیرروایتی موضوعات پر فلمیں بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ منوج کے علاوہ ''چکر ویو'' کی کاسٹ میں ارجن رام پال، ابھے دیول، ایشا گپتا، اوم پوری اور کبیر بیدی شامل ہیں۔
''چکرویو''بھارت میں ایک عرصے سے جاری نکسل باغیوں کے ایشو پر بنائی گئی ہے۔ کیا تاریخی موضوع پر بنائی جانے والی فلموں کے اداکاروں کے لیے اس موضوع کے بارے میں جاننا ضروری ہے اور اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اس بارے میں منوج باجپائی نے کہا،'' میرے خیال میں یہ ضروری ہے اور اس سے اداکار کو اپنے کردار کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور یقینی طور پر اس کا ان کی پرفارمینس پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ میں تاریخ کا طالب علم رہا ہوں، لہٰذا مجھے نکسل باغیوں سے جُڑی تمام باتوں کا بخوبی علم ہے۔ میں نے اس فلم میں ایک نکسل باغی کا ہی رول کیا ہے۔ اس ایشو پر میری معلومات سے مجھے راجن کے کردار کی ادائیگی میں بہت مدد ملی۔ ''
ایک دور میں ماڈلنگ، بالخصوص ریمپ ماڈلنگ صرف پیشہ ور ماڈلز ہی تک محدود تھی لیکن حالیہ برسوں میں معروف فلمی ستاروں میں بھی ریمپ واک کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ گذشتہ دنوں لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب انھوں نے ایک فیشن شو کے دوران منوج کو بھی ریمپ پر چلتے ہوئے دیکھا۔ اس بارے میں منوج کا کہنا تھا،''یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ میں نے ریمپ پر واک کی ہو۔ میں پہلے بھی اس طرح کے فیشن شوز میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت مجھ پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا ( مسکراہٹ) درحقیقت 'گینگز آف واسع پور' کی کام یابی کے بعد مجھے زیادہ توجہ ملنے لگی ہے۔ اس سے پہلے 'ایسڈ فیکٹری' کی ریلیز کے موقع پر بھی میں نے ریمپ ماڈلنگ میں حصہ لیا تھا، لیکن اس وقت کسی نے میری تصویر تک کھینچنے کا تکلف نہیں کیا تھا۔ ''
2012ء کے آسکر ایوارڈز کی غیرملکی زبان کی فلم کی کیٹیگری میں نام زدگیوں کے لیے ہندوستان کی جانب سے ''برفی'' کا نام بھیجے جانے پر تنقید کی جارہی ہے۔ مختلف فن کار اس بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ''برفی'' کے مرکزی کردار ، برفی ( رنبیر کپور) اور جھلمل ( پریانکا چوپڑا)، دونوں جسمانی معذوری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آسکر کی دوڑ میں شمولیت کے لیے'' برفی'' کو منتخب کیے جانے پر منوج بھی خوش نہیں۔ وہ کہتا ہے،''مسئلہ یہ ہے کہ جب کمرشیل فلمیں کرنے والے مقبول اداکار غیرروایتی کردار ادا کرتے ہیں تو انھیں زیادہ توجہ ملتی ہے۔ اور جب یہی کردار غیرروایتی اداکار ادا کرتے ہیں تو انھیں قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔ آسکر کے لیے بھیجی جانے والی فلموں کے انتخاب میں اگر ایمان داری سے کام لیا جاتا تو اب تک میری کئی فلمیں منتخب ہوچکی ہوتیں۔
' گینگز آف واسع پور' کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی ہے لیکن حیرت اور افسوس ہے کہ یہ فلم ان لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکی جن کے پاس آسکر کے لیے فلم بھیجنے کا اختیارہے۔ میرے لیے اس موضوع پر مزید بات ممکن نہیں ہوگا کیوں کہ اس طرح بات رنبیر کپور تک پہنچ جائے گی اور میرے اس کے ساتھ بہت اچھے مراسم ہیں۔''
اٹھارہ برسوں میں ہندی فلموں کے شائقین نے متنوع کرداروں میں منوج کی صلاحیتوں کا نظارہ کیا ہے لیکن خود منوج کی رائے میں ابھی تک اس کی صلاحیتیں کھل کر سامنے نہیں آسکیں۔ منوج کے مطابق،'' فلم ساز اب تک میرے صرف 25 فی صد ٹیلنٹ کو اسکرین پر پیش کرپائے ہیں۔ اگر میری پوری صلاحیتیں سامنے نہیں آسکیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں کیوں کہ میں اپنے لیے خود کوئی کردار تخلیق نہیں کرسکتا۔ مجھے اس وقت کا انتظار ہے جب کوئی ایسا کردار ادا کرنے کا موقع ملے جس کے لیے مجھے اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لانی پڑیں۔''
منوج باجپائی آرٹ یا متوازی سنیما کے ساتھ ساتھ کمرشیل سنیما پر بھی اتنی ہی توجہ دیتے ہیں۔ اس بارے میں ان کا نقطۂ نظر کچھ یوں ہے،''آرٹ فلموں کے ساتھ ساتھ کمرشیل فلمیں بھی بہت اہم ہوتی ہیں، اور موجودہ دور میں تو ان کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے، مگر میں ان کا انتخاب بھی اپنی مرضی سے کرتا ہوں۔ میں آرٹ فلموں کے اداکاروں سے کہوں گا کہ وہ کمرشیل فلموں سے دور نہ رہیں کیوں کہ ' گینگز آف واسع پور' جیسی فلم کی کام یابی نہ صرف ان کی مارکیٹ ویلیو بڑھاتی ہے بلکہ انھیں شہرت بھی دیتی ہے۔''
باجپائی کو شہرت رام گوپال ورما کی فلم'' ستیہ'' سے ملی تھی۔ 1998ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں منوج نے انڈر ورلڈ ڈان، بھیکو ماترے کا کردار اتنی مہارت سے ادا کیا تھا کہ یہ کردار اس کی پہچان بن گئی۔ اگرچہ آنے والے برسوں میں منوج نے مختلف طرح کے بے شمار کردار ادا کیے لیکن آج بھی اس کا نام سنتے ہی بھیکوماترے کا رول پردۂ تصور پر ابھر آتا ہے اور ذہن میں اس کا مشہور ڈائیلاگ ''ممبئی کا کنگ کون؟'' گونجنے لگتا ہے۔ منوج نے اٹھارہ سالہ کیریر میں ہمیشہ غیرروایتی کرداروں کے انتخاب کو ترجیح دی جو اس کی صلاحیتوں کے لیے چیلنج ثابت ہوں۔'' چکرویو''اس باصلاحیت اداکار کی آنے والی فلم ہے۔ پرکاش جھا اس فلم کے ڈائریکٹر ہیں جو غیرروایتی موضوعات پر فلمیں بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ منوج کے علاوہ ''چکر ویو'' کی کاسٹ میں ارجن رام پال، ابھے دیول، ایشا گپتا، اوم پوری اور کبیر بیدی شامل ہیں۔
''چکرویو''بھارت میں ایک عرصے سے جاری نکسل باغیوں کے ایشو پر بنائی گئی ہے۔ کیا تاریخی موضوع پر بنائی جانے والی فلموں کے اداکاروں کے لیے اس موضوع کے بارے میں جاننا ضروری ہے اور اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اس بارے میں منوج باجپائی نے کہا،'' میرے خیال میں یہ ضروری ہے اور اس سے اداکار کو اپنے کردار کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور یقینی طور پر اس کا ان کی پرفارمینس پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ میں تاریخ کا طالب علم رہا ہوں، لہٰذا مجھے نکسل باغیوں سے جُڑی تمام باتوں کا بخوبی علم ہے۔ میں نے اس فلم میں ایک نکسل باغی کا ہی رول کیا ہے۔ اس ایشو پر میری معلومات سے مجھے راجن کے کردار کی ادائیگی میں بہت مدد ملی۔ ''
ایک دور میں ماڈلنگ، بالخصوص ریمپ ماڈلنگ صرف پیشہ ور ماڈلز ہی تک محدود تھی لیکن حالیہ برسوں میں معروف فلمی ستاروں میں بھی ریمپ واک کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ گذشتہ دنوں لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب انھوں نے ایک فیشن شو کے دوران منوج کو بھی ریمپ پر چلتے ہوئے دیکھا۔ اس بارے میں منوج کا کہنا تھا،''یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ میں نے ریمپ پر واک کی ہو۔ میں پہلے بھی اس طرح کے فیشن شوز میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت مجھ پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا ( مسکراہٹ) درحقیقت 'گینگز آف واسع پور' کی کام یابی کے بعد مجھے زیادہ توجہ ملنے لگی ہے۔ اس سے پہلے 'ایسڈ فیکٹری' کی ریلیز کے موقع پر بھی میں نے ریمپ ماڈلنگ میں حصہ لیا تھا، لیکن اس وقت کسی نے میری تصویر تک کھینچنے کا تکلف نہیں کیا تھا۔ ''
2012ء کے آسکر ایوارڈز کی غیرملکی زبان کی فلم کی کیٹیگری میں نام زدگیوں کے لیے ہندوستان کی جانب سے ''برفی'' کا نام بھیجے جانے پر تنقید کی جارہی ہے۔ مختلف فن کار اس بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ''برفی'' کے مرکزی کردار ، برفی ( رنبیر کپور) اور جھلمل ( پریانکا چوپڑا)، دونوں جسمانی معذوری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آسکر کی دوڑ میں شمولیت کے لیے'' برفی'' کو منتخب کیے جانے پر منوج بھی خوش نہیں۔ وہ کہتا ہے،''مسئلہ یہ ہے کہ جب کمرشیل فلمیں کرنے والے مقبول اداکار غیرروایتی کردار ادا کرتے ہیں تو انھیں زیادہ توجہ ملتی ہے۔ اور جب یہی کردار غیرروایتی اداکار ادا کرتے ہیں تو انھیں قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔ آسکر کے لیے بھیجی جانے والی فلموں کے انتخاب میں اگر ایمان داری سے کام لیا جاتا تو اب تک میری کئی فلمیں منتخب ہوچکی ہوتیں۔
' گینگز آف واسع پور' کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی ہے لیکن حیرت اور افسوس ہے کہ یہ فلم ان لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکی جن کے پاس آسکر کے لیے فلم بھیجنے کا اختیارہے۔ میرے لیے اس موضوع پر مزید بات ممکن نہیں ہوگا کیوں کہ اس طرح بات رنبیر کپور تک پہنچ جائے گی اور میرے اس کے ساتھ بہت اچھے مراسم ہیں۔''
اٹھارہ برسوں میں ہندی فلموں کے شائقین نے متنوع کرداروں میں منوج کی صلاحیتوں کا نظارہ کیا ہے لیکن خود منوج کی رائے میں ابھی تک اس کی صلاحیتیں کھل کر سامنے نہیں آسکیں۔ منوج کے مطابق،'' فلم ساز اب تک میرے صرف 25 فی صد ٹیلنٹ کو اسکرین پر پیش کرپائے ہیں۔ اگر میری پوری صلاحیتیں سامنے نہیں آسکیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں کیوں کہ میں اپنے لیے خود کوئی کردار تخلیق نہیں کرسکتا۔ مجھے اس وقت کا انتظار ہے جب کوئی ایسا کردار ادا کرنے کا موقع ملے جس کے لیے مجھے اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لانی پڑیں۔''
منوج باجپائی آرٹ یا متوازی سنیما کے ساتھ ساتھ کمرشیل سنیما پر بھی اتنی ہی توجہ دیتے ہیں۔ اس بارے میں ان کا نقطۂ نظر کچھ یوں ہے،''آرٹ فلموں کے ساتھ ساتھ کمرشیل فلمیں بھی بہت اہم ہوتی ہیں، اور موجودہ دور میں تو ان کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے، مگر میں ان کا انتخاب بھی اپنی مرضی سے کرتا ہوں۔ میں آرٹ فلموں کے اداکاروں سے کہوں گا کہ وہ کمرشیل فلموں سے دور نہ رہیں کیوں کہ ' گینگز آف واسع پور' جیسی فلم کی کام یابی نہ صرف ان کی مارکیٹ ویلیو بڑھاتی ہے بلکہ انھیں شہرت بھی دیتی ہے۔''