یونس خان کے ساتھ گذرے بچپن کے دن

یونس ایک عظیم کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین اور ہنس مکھ انسان بھی ہے۔


خالد اقبال October 16, 2015
ہم قومی ٹیم میں شمولیت کے خواب کو پاگل پن سے تشبیہ دیتے تھے مگر ہماری اِس سوچ کو یونس خان نے اپنے جوش اور جنون سے غلط ثابت کردیا۔

MUMBAI: آج مجھے یہ بات بتاتے ہوئے صرف خوشی نہیں بلکہ فخر بھی محسوس ہورہا ہے کہ میں نے اپنا بچپن پاکستان کے اُس عظیم بلے باز کے ساتھ گذارا جس نے تمام تر مشکلات، وسائل کی کمی اور بغیر کسی پرچی کے باوجود نہ صرف قومی ٹیم میں جگہ بنائی بلکہ اب وہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کا سب سے کامیاب بلے باز بن گیا ہے، جی ہاں آپ بالکل ٹھیک سمجھے، میں یونس خان کی ہی بات کررہا ہوں۔



میرا بچپن بھی یونس خان کے ساتھ اسٹیل ٹاون میں ہی گذرا اور اب بھی رہائش اُسی علاقے میں ہے۔ ہمارا صرف محلہ ہی ایک نہیں تھا بلکہ انٹر تک ایک ہی کالج میں تعلیم حاصل کی۔ چونکہ یونس خان کو ابتداء سے ہی پڑھائی میں کچھ خاص لگاؤ نہیں تھا اور کرکٹ اُس کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی تھی، اِس لیے انٹر کے بعد یونس خان نے اپنا اوڑھنا بچھونا کرکٹ کو بنا دیا اور میں نے ایم ۔ کام اور بی ۔ ایڈ کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کرنے کے بعد تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگیا اور آج کل اسٹیل ٹاؤن میں ہی اُسی کالج میں پڑھا رہا ہوں جہاں سے انٹر تک تعلیم حاصل کی تھی۔

اگر یونس خان کے بچپن کی بات کی جائے تو معاملہ یہ تھا کہ وہ کرکٹ کھیلنے کے لیے نہ دن دیکھتا تھا نہ رات، نہ ہی وہ کسی کے ساتھ کا انتظار کرتا تھا، بس جب اور جہاں موقع ملا کھیلنا شروع کر دیتا۔ جیسے ہی صبح کے آٹھ بجتے، بچے اسکول کی جانب رواں دواں ہوجاتے لیکن اسی دوران وہ اکثر اسکول کی چھٹی کرتا اور ہاتھ میں بیٹ اٹھائے اپنے ایک دوست (اگر دوست کے ساتھ ساتھ اُسے یونس کا کوچ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا) کے ساتھ پاکستان اسٹیل مل کے رہائشی علاقے اسٹیل ٹاؤن کے دلکش اور درختوں میں چھپے سر سبز فٹبال کے میدان کے ساتھ منسلک باسکٹ بال کے میدان کی جانب روانہ ہوجاتا اور پھر کئی گھنٹے تک کسی جنونی کی طرح چاروں لوہے کی باڑ سے گھرے اس باسکٹ بال کے کورٹ میں بیٹنگ میں مصروف رہتا، اور ہم لوگ اسے دیکھ کر کبھی ہنستے اور کبھی اُس کا تمسخر اُڑاتے ہوئے کہتے کہ یونس شاید اونچے خواب دیکھ رہا ہے۔ اِسے ابھی اندازہ نہیں ہوا کہ پاکستان کی ٹیم میں منتخب ہونے کے لیے اچھی کارکردگی سے زیادہ اہمیت مضبوط سفارش کی ہوتی ہے جو اِس کے پاس ہے نہیں۔

بس اِسی طرح وقت گذرتا گیا اور یونس اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مزید محنت کرنے لگا یہ جانے بغیر کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو بھی سکے گا یا نہیں؟ لیکن ہماری اِس سوچ کو یونس خان نے اپنے جوش اور جنون سے غلط ثابت کردیا اور بالاخر پاکستان کی ٹیم کا حصہ بنا، صرف حصہ ہی نہیں بنا بلکہ ایک طویل عرصے تک وہ قومی ٹیم کا لازمی جز رہا بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں تو اب بھی صورتحال یہی ہے۔

یونس خان کے کیرئیر پر ایک نظر

یونس خان نے اسٹیل ٹاؤن کے باسکٹ بال کورٹ سے اپنی کرکٹ کا آغاز کیا جبکہ وہ وہیں کے اسکول شاہ لطیف بوائز اسکول اینڈ کالج میں زیر تعلیم تھا لیکن اسے تعلیم سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ جس طرح پہلے عرض کیا کہ کرکٹ اس کے رگوں میں خون کی طرح دوڑتی تھی، اِس لیے اُس کی ہمیشہ سے توجہ پڑھائی سے زیادہ کھیل پر رہی، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ یونس کا سارا ہی خاندان کرکٹ کا دیوانہ تھا۔ یونس خان کے بڑے بھائی شمشاد پاکستان اسٹیل مل کی کرکٹ ٹیم کی جانب سے کھیلتے اور وہ بھی یونس کی طرح شاندار بیٹسمین تھے اور اپنی شاندار کارگردگی سے اُنہوں نے پاکستان اسٹیل کو کئی میچ بھی جتوائے۔



شمشاد خان نے یونس کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا، یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے یونس خان پر خاص توجہ دینا شروع کر دی اور اسٹیل ٹاؤن کے فریدی اسٹیڈم کی سیمنٹیڈ وکٹ پر روزانہ کی بنیاد پر یونس کو پریکٹس کروانے کا آغاز کردیا۔ یونس اگرچہ عمر کے اعتبار سے چھوٹا تھا لیکن بڑے بڑے باؤلر کے سامنے پُراعتماد طریقے سے بلے بازی کرتا تھا۔ کرکٹ کا شوق تو مجھے بھی تھا، اور اِسی شوق کی وجہ سے میں نے بھی یونس کے ساتھ پریکٹس کا آغاز کردیا، لیکن ہارڈ بال سے کھیلنا پسند نہ آیا جس کے بعد جلد ہی ٹیپ بال پر واپس آگیا لیکن یونس اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹا اور بڑے انہماک سے اپنے مشن پر لگا رہا۔ اس دوران بڑے بھائی تو جرمنی چلے گئے لیکن اُن کی جگہ چھوٹے بھائی شریف خان نے لے لی اور یونس پر خاص توجہ شروع کردی۔

آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ یونس خان نے سیمنٹ سے بنی وکٹ پر کھیل کر ہی اپنی بلے بازی کے معیار کو بین الاقوامی سطح لانے کی کامیاب کوشش کی۔ اُن کے بھائی شریف اور جس دوست کا تذکرہ شروع میں کیا یعنی ان کے غیر سرکاری کوچ اعجاز نے یونس کے ساتھ دن رات محنت کی اور اس مقام تک پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اِسی دوران مجھے یونس کے ساتھ ٹیپ بال سے بھی کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا جبکہ نائٹ میچز میں کئی ٹورنامنٹ کھیلے اور یہ یاد گار لمحے کبھی نہیں بھولائے جاتے۔ اب جب بھی یونس کو ٹی وی پر کھیلتا دیکھتا ہوں تو ماضی کی یہ یادیں اپنی تمام تر مسکراہٹوں کے ساتھ سامنے آکھڑی ہوتی ہیں جب رات بھر کرکٹ کھیلتے، گپیں لگتیں اور صبح پراٹھوں اور ملائی کا ناشتہ ہوتا۔

اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یونس ایک عظیم کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین اور ہنس مکھ انسان بھی ہے اور اب بھی جب ملاقات ہوتی ہے تو لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی یونس خان ہے جس کے نام پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز اور سینچریاں بنانے کا اعزاز ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یونس خان نے اپنی کرکٹ کا آغاز اسٹیل ٹاؤن یعنی کراچی سے کیا اور پاکستان اسٹیل مل سے کئی سال کرکٹ کھیلی لیکن پاکستانی ٹیم میں ان کا انتخاب پشاور سے ہوا اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس عظیم بلے باز کو تراشنے میں پاکستان اسٹیل کے میدانوں کا بھرپور کردار ہے، یہی وجہ ہےکہ پاکستان اسٹیل کے کرکٹ اسٹیڈیم کا ایک انکلوژر انہی کے نام سے منسوب ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں