مسلمانوں کو بھارت میں رہنا ہے تو گائے کا گوشت کھانا چھوڑنا ہوگا وزیراعلی ہریانہ

مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہب میں کہیں نہیں لکھا کہ گائے کا گوشت کھانا ضروری ہے، منوہارلال کھاتر


ویب ڈیسک October 16, 2015
مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہب میں کہیں نہیں لکھا کہ گائے کا گوشت کھانا ضروری ہے، منوہارلال کھاتر۔ فوٹو:فائل

گائے کا گوشت کھانے پر ہندو انتہا پسند تنظیم بے جے پی کی جانب سے شدت پسندی کے بعد بھارتی وزرا بھی سامنے آگئے لیکن اب بھارتی ریاست ہریانہ کے وزیراعلی منوہارلال کھاتر نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ اگر مسلمانوں کو بھارت میں رہنا ہے تو گائے کا گوشت کھانا ترک کرنا ہوگا۔

بھارتی اخبار کو انٹرویو کے دوران ہریانہ کے وزیراعلی کا کہنا تھا کہ بھارت میں گائے کو مقدس علامت سمجھا جاتا ہے اس لئے مسلمانوں کو اگر بھارت میں رہنا ہے تو گائے کا گوشت کھانا چھوڑنا ہی ہوگا، دادری میں گائے کا گوشت فریج میں رکھنے پر شہری کو جلائے جانے کے واقعے پر لال کھاتر کا کہنا تھا کہ دادری حادثہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا اور دونوں جانب سے غلط کیا گیا تاہم انہوں نے بی جے پی کے غنڈوں کی حمایت نہ چھوڑی اور الزام عائد کیا کہ مقتول نے گائے کی شان میں گستاخی کی اس لئے مشتعل ہجوم نے اسے ہلاک کردیا۔

ریاست ہریانہ کے وزیراعلی نے کہا کہ گائے کا گوشت کھانے سے ایک کمیونٹی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور قانون اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کے جذبات سے کھیلا جائے، انٹرویو کے دوران جب ان سے سوال کیاگیا کہ بھارت میں عیسائی بھی گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور قانون کسی کو اس چیز پر مجبور بھی نہیں کرتا کہ آپ کو کیا کھانا ہے اور کیا نہیں جس پر لال کھاتر کا کہنا تھا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہب میں کہیں نہیں لکھا کہ گائے کا گوشت کھانا لازمی ہے اور وہ گائے کا گوشت کھائے بغیر بھی مسلمان یا عیسائی رہ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ 61 سالہ منوہار لال کھاتر 4 دہائیوں تک ہندو انتہا پسند تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے عسکری ونگ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) سے وابستہ رہے ہیں اور انہوں نے گائے سے متعلق گاؤناش سنرکشن اور گاؤ سموردھن قوانین بنائے جس کے تحت ہریانہ میں گائے کے ذبح پر پابندی عائد کی گئی جسے ان کی حکومت کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ اور اس قانون کے تحت گائے ذبح کرنے والے کو 10 سال جیل اور گائے کا گوشت کھانے والوں کو 5 سال قید کی سزا کا حکم دیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں