وسعت پذیر یک جہتی

جس طرح آج جنرل راحیل شریف کے لیے عوامی جذبات ابل رہے ہیں اسی طرح جنرل کاکڑ کے لیے بھی جذبات موجود تھے ج

لاہور:
یادش بخیر! 22 جولائی 2010ء کو ''وسعتوں اور توقعات'' کے عنوان سے لکھے گئے اپنے کالم میں میں نے جنرل وحید کاکڑ کی مثال دی تھی جنہوں نے ملک کو سیاسی بحران سے نہایت محتاط رہنمائی کے ذریعے نکال لیا۔ بڑے مہذبانہ انداز سے صدر غلام اسحاق کو ان کے منصب سے الگ کیا تا کہ مقابلتاً آزادانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے مس بھٹو کو ان کی کامیابی دکھائی جا سکے۔

جس طرح آج جنرل راحیل شریف کے لیے عوامی جذبات ابل رہے ہیں اسی طرح جنرل کاکڑ کے لیے بھی جذبات موجود تھے جن کی تسکین کے لیے مس بھٹو نے 1996ء میں انھیں چیف آف آرمی اسٹاف کے منصب پر توسیع دینے کی پیش کش کی جس کا انھوں نے بڑی نرمی سے انکار کر دیا۔

اب میں جنرل وحید کاکڑ کے الفاظ تحریر کرنا چاہتا ہوں ''میرے انکار کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر اس طرح کی روایت ڈال دی جائے تو اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس سے آرمی کی ترقیوں کا راستہ رک جاتا ہے۔

اگرچہ اعلیٰ فوجی مدارج کی وفاداری اور خلوص میں کوئی کلام نہیں لیکن پھر بھی وہ لوگ جو اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچنے کی دلی تمنا رکھتے ہوں اور جو ان کا حق بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے سارے کیریئر میں اس کے لیے کوشش بھی کرتے رہے ہوتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اگلے بارہ سے اٹھارہ مہینوں تک وہ اپنی سروس کے اختتام پر پہنچنے والے ہوتے ہیں گویا جو معاملہ بڑے فطری انداز سے رواں دواں ہے۔

اس میں اگر مجھے چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کی توسیع دیدی گئی تو اس سے ترقیوں کے اس تمام فطری عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا''۔ وہ یقیناً بہت واضح اور سیدھی سوچ رکھنے والے تھے۔ دوسری طرف مشرف اور کیانی دونوں کو توسیع دی گئی یا بالفاظ دیگر ان کی ازسرنو تعیناتی کی گئی مگر اس کا فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو جنرل راحیل شریف کے عہدے کی میعاد بڑھانے کی بحث درست نہیں ہے۔

عہدے میں توسیع سے زیادہ جو سب سے اہم چیز ہے وہ مسلح افواج کی یک جہتی ہے تا کہ وہ انیسویں صدی کے فوجی مائنڈ سیٹ سے باہر نکل کر جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (JCSC) کو زیادہ بااثر بنا سکیں۔ ہمارے پاس وسیع پیمانے پر لڑی جانے والی جنگ میں اپنے دشمن کے مقابلے میں تزویراتی گہرائی کی کمی ہے محدود عرصے کے لیے ہونے والی جنگ زندگی اور موت کے معرکے کے مترادف ہو گی کیونکہ ہمارا یہ دشمن مستقل ہمسایہ ہے اس جنگ میں فضائی اور بحری قوت کا کردار بھی اہم ہو گا تاہم ہار جیت کا فیصلہ زمین پر ہی ہو گا۔ واضح رہے کہ JCSC کا عہدہ 1975ء میں قائم کیا گیا جس کا سربراہ سروس کے سب سے سینئر افسر کو بنایا گیا جو مسلح افواج میں یک جہتی پیدا کر سکے۔


یہ سب سے زیادہ طاقتور بنیادی عہدہ تھا جس کا مقصد تمام دفاعی سروسز پر موثر طور پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ JCSC کو جی ایچ کیو میں دفتر دیا گیا۔ 1977ء کی فوجی بغاوت ہوئی (جس کا اعادہ مشرف نے 1999 میں کیا) لیکن اس صورت میں یہ مخمصہ آن پڑا کہ سینئر فوجی افسروں کی ترقیوں اور تعیناتی کا فیصلہ کون کرے گا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جو کہ طاقت کا مرکز ہے یا JCSC۔ اس سے ایک ابہام پیدا ہو گیا جس کو سلجھانے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر حمید حسین کہتے ہیں ''JCSC کی تعیناتی کا مقصد تینوں سروسز میں رابطہ استوار کرنا تھا تا کہ سویلین قیادت کو فوج کی یک جہتی کا نمونہ پیش کیا جا سکے۔

نئے عہدے کا بنیادی فوکس مشترکہ کارروائیوں کے سلسلے میں فورسز کے تینوں شعبوں میں رابطہ مستحکم کرنا تھا۔ اگرچہ امریکا میں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے لیکن پاکستان میں JCSC اور چیف آف آرمی اسٹاف کی پوزیشنوں میں ایک داخلی تضاد موجود ہے کیونکہ چیف آف آرمی اسٹاف JCSC کے اختیارات میں کسی اضافے کو اپنے علاقے میں تجاوز تصور کرتا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف ہمیشہ ''یونٹی آف کمانڈ'' کے اصول کے تحت ایسی کسی کوشش کو ناکام بنا دیتا ہے۔

مختلف مناصب کے مابین سخت حدود قائم کرنے سے زیادہ اہم ادارہ جاتی عمل کا بہ سہولت رواں دواں رہنا ہے اور یہ معاملہ ذاتیات سے بالاتر ہے۔ چیئرمین JCSC کے ذمے بعض بہت اہم کام ہوتے ہیں لیکن اس کے ہاتھ میں حقیقی طاقت نہیں ہوتی۔ آخر جنگ کی صورت میں چیئرمین JCSC کی سمت کیا ہو گی؟ ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ عہدہ چار ستاروں والے جرنیلوں کو بعض مزید مراعات دینے کے لیے تخلیق کیا گیا جس سے ان کی وفاداری اور تابعداری کا پتہ چل سکے''۔

میں نے اپنے ایک مضمون جس کا عنوان ''ایئر پاوران کوائن آپریشنز'' میں ایک مزاحیہ جملہ لکھا تھا ''چار ستاروں والے جنرل طارق مجید صاحب اپنی گزر بسر کے لیے کیا کرتے ہیں؟'' جس سے یہ غیر مستحق شخص غیض و غضب سے پھٹ پڑا جس کو ہم شیکسپیئر کے الفاظ میں یہی کہہ سکتے ہیں "Hell Fath no Fury" یعنی ایک ایسا جرنیل جس کو جنگ کا کوئی تجربہ نہ ہو وہ اپنی انگلیاں ہی چٹخاتا رہے گا جس کو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس سے بہت ناراضگی تھی۔ کچھ وقت کے لیے ایک ایسے شخص کے ساتھ بلاوجہ کی کشیدگی پیدا ہو گئی جس کو میں بہت پسند کرتا ہوں اور ایک بہت اعلیٰ پیشہ ور صلاحیتوں کے حامل ہونے کی وجہ سے اس کی تحسین کرتا ہوں۔

آج کی جنگ صرف سروسز علیحدہ علیحدہ طور پر نہیں لڑ سکتیں' یہ تمام سروسز کا مشترکہ معاملہ ہوتا ہے اور JCSC تینوں سروسز کا مرکزی ہیڈ کوارٹر ہوتا ہے جو کہ مجموعی جنگی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس کے نفاذ کی راہ ہموار کرتا ہے۔ تینوں سروسز کے لیے جو بنیادی چیزیں ہیں وہ تقریباً ایک جیسی ہیں مثال کے طور پر میڈیکل اور انجینئرنگ سروسز۔ علاوہ ازیں بنیادی تربیت کے ادارے اور ورک شاپس بھی یکساں ہوتی ہیں۔ کیا ان سب چیزوں کو ایک خاص معیار کے مطابق نہیں بنایا جا سکتا تا کہ اخراجات میں بھی کمی واقع ہو سکے؟ تعمیری اصلاحات میں -1 JCSC کو جسمانی طور پر GHQ میں بیٹھنا چاہیے اور تینوں سروسز کے لیے ہیڈ کوارٹر کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

-2 موجودہ وقت میں جی ایچ کیو صرف آرمی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ -3 JCSC چیئرمین کو تینوں سروسز میں ایک اسٹار سے دو اسٹار اور دو اسٹار سے تین اسٹار کی ترقی پانے والے جرنیلوں کے اجلاس کی صدارت کرنی چاہیے جس کے لیے جی ایچ کیو کی اجازت حاصل ہو۔ -4 ایک مشترکہ آپریشن چیف (JOC) جو کہ جی ایچ کیو میں ہو۔ -5 تمام فوجی تعیناتیاں ایک خاص معیار کے مطابق جی ایچ کیو کے زیراہتمام ہونی چاہئیں۔ -6 آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کو جی ایچ کیو میں رپورٹ کرنا چاہیے۔ تمام پیرا ملٹری فورسز کو ایک اتھارٹی کے تحت مرکزیت حاصل ہونی چاہیے۔ میری تجویز یہ بھی ہے کہ JCSC ایک پانچ ستاروں والا جنرل ہونا چاہیے (لیکن وہ فیلڈ مارشل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم رائل آرمی نہیں) جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف اور کمانڈر اسٹرٹیجک فورسز (جو کہ ڈپٹی چیئرمین JCSC) ہو یہ چار ستاروں والے جنرل ہونے چاہئیں۔جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ میں 15 مہینے سے پہلے ہی ان کی توسیع کی باتیں ہونے لگی ہیں جیسے کہ جنرل کیانی کو دی گئی تھی۔

جنرل راحیل شریف نے اپنے عہدے کے 21 ماہ کے دوران اس سے کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں جو ان کے کسی پیش رو نے اپنی پوری مدت بلکہ اضافی مدت کے ساتھ بھی نہیں کیں۔ جنرل ضیاء' جنرل پرویز مشرف اور جنرل کیانی تینوں کو توسیع دی گئی تھی۔ ان تینوں جنرلوں نے اپنی نارمل سروس بڑی کامیابی سے مکمل کی لیکن جب انھیں توسیع دی گئی تو مسائل پیدا ہو گئے۔
Load Next Story