چیخنے چلانے سے سر گوشیوں تک

قرارداد مقاصدکی منظوری کے روز ہی پتا لگ گیا تھا کہ آگے چل کے خسارے ہی خسارے ہونگے

ABBOTABAD:
قرارداد مقاصدکی منظوری کے روز ہی پتا لگ گیا تھا کہ آگے چل کے خسارے ہی خسارے ہونگے لیکن یہ یقین نہ تھا کہ سارے کے سارے ہمار ے ہی ہونگے پھر خسارے بڑھتے ہی چلے گئے ہم ہر خسارے پر چلاتے رہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا چلانا بڑھتا ہی چلاگیا، اتنے چلائے کہ پھرآواز ہی گم ہوگئی اور پھر ہر طرف سناٹے ہی سناٹے ہوگئے اور بات چلانے سے سرگوشیوں تک جا پہنچی۔ آج جس سے بات کرلو وہ سرگوشی کرتا ہوا ہی ملے گا، روتا ہوا ہی ملے گا ،کبھی بدعنوان حکمرانوں کا رونا رو رہا ہوگا کبھی کرپشن اور لوٹ مارکی دہائیاں دے رہا ہوگا کبھی انتہا پسندی اور دہشتگردی کی سرگو شی کر رہا ہوگا کبھی لوڈشیڈنگ کبھی پانی اورگیس کی قلت کبھی بدنظمی اور بدامنی کا رونا رو رہا ہوگا، غرض ہر اس چیز پرجو اس کی زندگی کے لیے عذاب بن چکی ہے رو رہا ہوتا ہے اورہر بات کے آخر میں یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے۔

یہ سب کچھ کب ختم ہوگا آخر زیادتیوں اور ناانصافیو ں کی ایک حد ہوتی ہے اور اس حد کے اس پار پھر خوشحالی، چین ،امن،ترقی اور سکون ہی ہوتا ہے لیکن 68 سال گذرنے کے باوجود ہم ان حدوں کے اس پارکیوں نہیںپہنچ پا رہے ہیں کیوں نہیں ہمارا سفر ختم ہو رہا ہے ۔

یاد رکھیں ہم کبھی بھی اپنے اسی رویے اور سوچ کے ساتھ اس پار نہیں پہنچ پائینگے کیونکہ ہماری اسی سو چ اور رئیے نے ہمارے پاؤں میں بیٹریاں ڈال رکھیں ہیں اور ہم اپنی ان بیڑیوں کی وجہ سے ایک قدم بھی چل نہیں پا رہے ہیں ،اصل میں ہم ساری زندگی اس کیوں کے پیچھے پڑے رہے ہیں اور وہ بھی ہاتھ پاؤں دھوکر ۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ آخر یہ سب کچھ ہو کیوں رہا ہے یہ سب آخرختم کیوں نہیں ہو جاتا ہے۔

یاد رکھیں اصل مسئلہ کیوں میں نہیں بلکہ آخرکیوں میں ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی ساری زندگی علامات کوکوستے کوستے ختم کردی ہے۔ ہم نے کبھی اس کیوں کو جاننے،سمجھنے اور اس کے پیچھے دیکھنے کی ہی کوشش نہیں کی۔ ہماری دلچسپی ہمیشہ ہی سے بیماری کے خاتمے میں نہیں بلکہ علامات کے خاتمے میں رہی جس طرح اگر کسی شخص کے جسم میں کہیں درد اٹھے یا اسے بخار ہوجائے اور وہ Panadol کھاتا رہے اور وقتی طورپر سکون حاصل کرتا ہے تو ایسے شخص کو آپ کیا کہیں گے ۔


ظاہر ہے کہ درد یا بخار تو ایک علامت ہے بیماری نہیں اورکوئی صرف علامت کو وقتی طورپر ختم کردے اور اصل بیماری کی طرف توجہ نہ دے تو نتیجہ کیا ہوگا کہنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ہی حال ہمارا ہوا ہے ہم نے کبھی بھی اپنی اصل بیماری کی طرف توجہ ہی نہیں دی اور جس کا نتیجہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں ۔

اصل خرابی ہماری سو چ اوررویے میں ہے ہم جسمانی طور پر بیسوی صدی میں رہتے ہیں لیکن سو چ اور رویے کے لحاظ سے ہم آج بھی 14 ویں صدی میں زندہ ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ دنیا 14 ویں صدی سے آگے ہی نہیں بڑھی۔ زمانے کے ساتھ نہ چلنے اور بہت پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہم سب Autism (اپنی ذات میں مگن رہنے والی بیماری ) میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ہمارے تمام مسئلوں کی اصل جڑ اور بیماری ہماری اپنی ذات میں ہے۔

پوری دنیا بیسویں صدی میں موجود ہے اورہم دوسری طرف 14 ویں صدی میں کھڑے پوری دنیا کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں اور ہمیں اس بات پر 100 فیصدیقین ہے کہ ہم صحیح اور دنیا غلط ہے کیونکہ ہم اپنے آپ کو اپنی نگا ہ سے دیکھ رہے ہیں نہ کہ دوسروں کی نگاہ سے ۔اسی وجہ سے ساری دنیا ہم سے ڈرکر دور بھاگتی ہے ہم دنیا بھر میں تنہا رہ گئے ہیں جب بھی ہم دنیا بھرکے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے سماج کے بنیاد پرست رجعت وقدامت پرست ٹھیکیدارہمارے سامنے دیوار بن کرکھڑ ے ہوجاتے ہیں۔ آپ نے Autism میں مبتلا ٹیمپل گرینڈن کی کہانی تو سن رکھی ہوگی، گرینڈن 1990 کی دہائی میں دنیا بھر بہت نام کما چکی تھی اکثر اسے لیکچر دینے کے لیے بلایا جاتا جن میں زیادہ تر اس کا موضوع پیشہ ورانہ تجربات ، خود پسندی ، Autism کی بیماری پر قابو پانا اور حیوانی رویوں سے متعلق ہوتے تھے۔

اس کے لیکچرز زبردست جا رہے تھے وہ معلومات سے بھرپور ہوتے تھے مگر ایسے چند لیکچرزکے بعد اس کے سامعین نے اس کے لیکچرز پر اپنی جس رائے کااظہار کیا وہ اس کے لیے بڑی اذیتناک تھی، لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ براہ راست لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالتی اور مشینی انداز میں اپنے نوٹس پڑھتے ہی چلی جاتی ہے اور بدتمیزی کی حدتک سامعین کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے گریزکرتی ہے حیران کن طور پرگرنیڈن اس بات پر ذرا بھی پریشان نہ ہوئی الٹا لوگوں کی رائے نے اس کے اندر اورجوش و خروش پیدا کردیاکیونکہ لوگوں نے اسے جیسے دیکھا اس کی حقیقی تصویر انھوں نے اسے بھی دکھا دی، اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لیے اسے ایسی ہی رائے کی تو ضرورت تھی بڑی تعداد میں ملنے والے فیڈ بیک کی مدد سے اپنی خامیوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نے اپنے لیکچرکے اسٹائل میں تبدیلیاں کر ڈالیں ۔

ان میں واقعات اور لطائف شامل کیے اپنے لیکچرز کا دورانیہ کم کر دیا خود کو نوٹس کے بغیر بولنے کی مشق کروائی اور ہر لیکچر کے اختتام پر سامعین کی طرف سے آنے والے تمام سوالات کے تسلی بخش جواب دینے شروع کر دیے، اس کے ابتدائی لیکچرز سننے والے لوگ جب دوبارہ اس کے لیکچرزکے سامعین میں شامل ہوتے تو انھیں یقین نہ آتا کہ یہ وہی گرنیڈن ہے، اب و ہ لوگوں کو ہنساتی بھی تھی اور اپنے ساتھ لیکچرمیں شامل بھی رکھتی تھی اورایک لمحے کے لیے سامعین کی توجہ ادھر ادھر نہ ہونے دیتی لوگ حیران تھے کہ اس میں یہ معجزانہ تبدیلی کیسے آئی ۔اصل میں بالکل سیدھی سادی سی بات ہے پہلے گرنیڈن اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھتی تھی اس لیے اس کی ساری خامیا ں اور برائیاں اس سے چھپی ہوئی تھیں اور جیسے ہی اس نے اپنے آپ کو دوسروں کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیاتو اسے اپنے تمام نقائص نظر آگئے جو اس سے پہلے اس کی نظروں سے اوجھل تھے ۔

لوگ ہمارے رویے کو باہر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اسی لیے ہمارے بارے میں لوگوں کا تاثر ہمارے اپنے تاثر سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ اگر ہم سب Autism بیماری میں ہی مبتلا رہنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے لیکن اگر ہم اپنی بیماری اور اپنے عذابوں سے بیزار آچکے ہیں تو پھر آئیے اپنے آپ کو اپنی نگاہوں سے نہیں بلکہ دنیا بھر کی نگاہوں سے دیکھناشروع کردیجیے، جس وقت آپ اپنے آپ کو دنیا کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دینگے توآپ کی ساری خرابیاں اورنقائص آپ کے سامنے آکر مسکرا رہے ہونگے پھرآپ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں یہ آپ پر منحصر ہے ۔
Load Next Story