فقیر

میں جب بھٹائی کے فقیروں کے آستانوں پہ اترا تو یوں لگا کہ میں خود تنبورو لے کے بیٹھ ج


جاوید قاضی October 17, 2015
[email protected]

MIRPUR: نہ جانے کیوں میرے من میں آج کل ایک شاعر مہمان ہوا ہے کہ کچھ دنوں سے میرا صوفیوں سے ناتہ جڑ گیا میں شاہ کے رسالے کے اوراق کھول کے بیٹھ گیا۔ میں اس کے فقیروں کے رنگ میں رنگ گیا۔

مجھے لگا کہ وہ میں خود تھا جس کو شاہ نے سسی کے سر میں گایا ہے۔ میرے وجود میں ایک عورت سما گئی۔ کیسے کرتا ہوگا شاہ ان عورتوں کے کرداروں کو اپنے وجود میں سما کے ، کیسے پاتا ہوگا اپنے آپ کو۔ ایک Feminist شاعر کیسے ہوا یہ سب کچھ۔ اس نے دنیا کے ہر رنگ کو ایک عورت کی آنکھ سے دیکھا۔ اسے سچ کو پانے کے لیے دل بینا کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے ایک عورت کا من بہتر لگا۔

میں جب بھٹائی کے فقیروں کے آستانوں پہ اترا تو یوں لگا کہ میں خود تنبورو لے کے بیٹھ جاؤں اور اپنے آپ کو تیاگ دوں دنیا کے سارے بندھنوں سے، کتنے سارے فقیر ہیں اس سندھ میں کونا کونا چپہ چپہ ان سے بھرا ہوا ہے۔ کوئی کالے بھیس کرتے ہیں، کوئی گیڑو تو کوئی لال رنگ والے فقیر ہیں۔ فقیر وہ ہے جو دنیا تیاگ دے۔ انا اور آبرو کے سارے برتن توڑ دے، وہ نہ تو ''تم'' ہو نہ ''میں'' ہوں وہ ازل بھی ہے تو ابد بھی ہے۔ وہ زندہ بھی ہے تو مردہ بھی۔وہ گیان ہے، وہ پیراگی ہے، وہ نفی ہے، شاہ کہتا ہے:

جب سے میں نے امرت پی ہے
ساجن کی تب جاکے صحیح پہچان ہوئی ہے
وہ پہچان یہ ہے کہ
جینا کچھ بھی نہیں
بس ہے یہ صرف دو دنوں کا کھیل
کبیر کو سادھو فقیر کی خدمت میں یہ باتیں نظرآئیں۔
سادھو بھوکا بھانکا دھن کا بھوکا ناہیں
دھن کا بھوکا جو پھرے سو تو سادھو ناہیں

سادھو ایک فقیر کی قسم ہے مگر بھٹائی نے اپنی شاعری میں طرح طرح کی قسمیں فقیروں کی بیان کی ہیں۔ یوں کہیے کہ جب آپ زمین کی کشش ثقل سے، سارے بندھنوں سے، اس سے نکل جاتے ہیں تب جاکے دنیا کو سمجھنے کے راستے نکلتے ہیں۔ اب کوئی بالکل فقیر کے پیمانوں پہ پورا نہیں اترتا تو اسے فقیر منش انسان کہتے ہیں۔

ہمیں جانا ہوگا اپنے زمانوں و مکانوں میں جس کا ہم تسلسل ہیں۔ ہمیں ڈھونڈنا ہوگا اپنے آپ کو اپنی تاریخ کو اپنے اجداد کے کارناموں کو، سورماؤں کو، سسی، مارئی سوہنی کو۔

چلیں آج آپ کو شاہ کے صرف دو سُروں کے جو سسی کے حوالے سے وہ سناتے ہیں اور اگر آپ کا ساتھ رہا تو عین ممکن ہے کہ جہاں سبین محمود نے محفلیں سجائیں تھیں (وہ سندھ کی فقیر منش تھی، سندھ کی سسی تھی) کہ پھر ان فقیروں کو یہاں لے آئیں اور آپ کو سنائیں۔ شاہ کے ان بیتوں(کلام) کے اردو میں ترجمے جو میں نے کیے ہیں۔

''سُر اَبری'' یہ سسی کے اس سفر کے حوالے سے ہے جب پنہوں کو سسی کے دیور رات کو دودھ میں نشہ دے کر اسے نیند میں لے جاتے ہیں تو اس سُر میں وہ کیا کہتی ہے، شاہ لطیف اس کو اس طرح بیان کرتا ہے۔ یہ سسی کی اپنی سہیلیوں سے باتیں ہیں جو اس کے پاس آتی ہیں اس کا دکھ بانٹنے کے لیے۔

رکھتے ہیں سب چاہت کی خواہش مگر
کرتے ہیں کوئی کوئی اس کے لیے کشالے
ہے نہیں یہ روگ چھوٹے من والوں کا
ارے سہیلیو تم میں سے چلے گا وہ میرے ساتھ
جس کو جاں کی پرواہ نہ ہو

فقیروں نے کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ صدیوں سے، خود شاہ لطیف کے زمانوں سے کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ میں نے دیکھا ان میں ایک مرد کی آواز میں گاتا ہے تو ایک عورت کی آواز میں (ضرورت اب اس بات کی ہے کہ خود عورت کو گانا چاہیے اس انداز میں)

روایت ہے کہ شاہ کے زمانے میں ان کے فقیروں میں کچھ عورتیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ H.T.Sorely اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب شاہ کا انتقال ہوا تو اس سے پہلے بخار میں مبتلا رہے اور پھر آنگن میں آکے فقیروں کو کہا کہ راگ شروع کرو اور جب راگ شروع ہوا تو اسی دوران شاہ کی روح پرواز کرچکی تھی۔

میں نے آپ کو شاہ کی سُر اَبری کا پہلا بیت اوپر پیش کیا لیکن اس سُر کا دوسرا بیت علن فقیر گاتا تھا ۔ شاہ کہتا ہے کہ سسی اپنی سہیلیوں کو جانے سے پہلے الوداع کرکے کہتی ہے:

سکھوں میں رہنے کی خواہش رکھنے والے
کرنے نہ میرے ساتھ' ہمسفر ہونے کی بات

وہ جن کے دل درد سے دولخت ہوگئے ہیں ان وحشی پہاڑوں میں گلستان صرف وہی ہوسکتے ہیں میرے ساتھ''۔

فقیروں نے بلند آواز میں جب گایا تو میرا وجود کپکپانے لگا، یوں گماں ہونے لگا کہ جیسے میں تھا وہ سسی جو کیر تھر کے پہاڑوں سے کراچی کے بہت قریب سے کیچ مکران کی طرف نکل پڑی تھی۔

سُر اَبری میں آخر ی بیت وائی سے پہلے یہ ہے۔
پانی کے پاس ہیں ان کے مکاں
اور پھر بھی ہیں پیاسے
سانس سے بھی قریب ہے وہ ان کے ساتھ
مگر پھر بھی ڈھونڈ نہیں پائیں
لیکن شاہ کے سُر حسینی (سسی داستان) کے عجیب رنگ تھے جب فقیر گا رہے تھے تو اس کے اپنے ہی رنگ تھے۔
یہ میری ترجمہ کرنے کی ایک کوشش ہے، جو اس طرح سے ہے۔
کروں گی میں اپنے کپڑے کالے
(1)۔کروں گی پھر میں ماتم
اور ان وحشی پہاڑوں پر آکر شور کروں گی
کہتا ہے ''سید''
چوڑیاں میں دوں گی توڑ
کرکے پنہوں کے نام
(2)۔کروں گی اپنے کپڑے کالے
کروں گی پھر میں ماتم
میرے محبوب کے تیز تیر جو
میرے سینے میں پیوست ہو گئے ہیں
صبح جو میں اٹھی خالی بستر تھا
بس تو میں کیا کروں
جو میں نے زیور پہنے ہوئے تھے
کھڑے کھڑے وہیں سارے دیے اتار
(3)۔کروں گی میں اپنے کپڑے کالے
کروں گی پھر میں ماتم
کیسا وہ دن تھا
کتنے رنگیں تھے وہ زمانے
جب تھا میرے ساتھ میرا پنہوں
جب آیا تھا پنہوں میری زندگی میں
تب جاکے پہنا تھا میں نے گلے میں ہار
(4)۔اب تو اپنے ہاتھوں سے
کروں گی میں اپنے کپڑے کالے
جس سے تھیں میری روح کی باتیں
وہ کوہِ یار پہاڑ کا مالک
کیچ چلا گیا
(5)۔اب تو کروں گی اور بھی کالے
اپنے ہاتھوں سے یہ کپڑے
وہ دے جو گیا ہے
برداشت سے زیادہ درد
کہ وہ ہوت چلا گیا
(6)۔کروں گی میں اپنے کپڑے کالے
ہائے! میں کیا کروں
کہ اب میرے سر پہ آگئی ہے
ہائے! میں کہاں جاؤں
مر جاؤں گی
تو بھی چین نہ پاؤں گی
یہ صرف بے خود و مست فقیر ہی گاسکتے ہیں، وہ گاتے گاتے شعروں میں ''وہ ،وہ'' کی مخصوص آوازیں بھی اپنی دھن کا حصہ بناتے ہیںکہ پورا من رونے لگتا ہے اور اس طرح سسی میرے وجود میں اتر جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں