معاشرتی قدریں اورخوش نصیب انسان
اسی طرح انتقال کے موقعے پر بھی تمام انتظامات کررہے تھے،
BAHAWALPUR:
معاشرتی اقدار کے حوالے سے راقم نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے ایک پروفیسر ڈاکٹر سید ارشد کریم کا ذکرکیا تھا جنھوں نے اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ امریکا میں گزارا تھا اور ایک عرصے بعد جب وہ پاکستان آئے تو انھوں نے جامعہ کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہمارا اپنی معاشرتی اقدار سے دور ہونا ہے اور اپنی معاشرتی اقدارکو دوبارہ سے اپناکر ہم پستی سے نکل سکتے ہیں۔
مذکورہ پروفیسر ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص ہیں ان کی کہی ہوئی بات راقم کے مشاہدے کے مطابق سو فیصد درست نظر آتی ہے بلکہ اپنے معاشرے میں ہر روزکوئی نہ کوئی ایسا واقعہ مشاہدے میں آتا ہے کہ جب احساس ہوتا ہے کہ واقعی ہم اپنی معاشرتی اقدار سے دور ہوچکے ہیں اورہمیں واپس لوٹنے کی اشد ضرورت بھی ہے۔اپنی معاشرتی اقدارکواہمیت دینے والوں کی ایک تعداد آج بھی موجود ہے گوکہ پہلے کی نسبت یہ تعداد بہت کم ہوچکی ہے۔
اس اقدار کا مظاہرہ گزشتہ دنوں ہمیں اپنے بھتیجے کے انتقال کے موقعے پر دیکھنے میں آیا۔ یہ ایک 23 سالہ نوجوان اور داؤد انجینئرنگ کالج میں سال آخر کا طالبعلم تھا۔ ایک ایکسیڈنٹ کے بعد کوئی 12 روز آئی سی یو میں رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس دوران ان کے محلے والے از خود محلے میں مختلف آیات کا وردکراتے رہتے اجتماعی دعا کراتے رہے اور مذکورہ خاندان کی ہر قسم کی مدد کرتے رہے لیکن ایک پائی بھی اس خاندان سے وصول نہ کی۔
اسی طرح انتقال کے موقعے پر بھی تمام انتظامات کررہے تھے، محلے کے بزرگوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے کبھی تمام محلے داروں کو اس طرح مل کر کبھی کوئی کام کرتے نہیں دیکھا یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ نماز جنازہ میں آدھی تعداد سے زائد نوجوان شامل تھے، وائس چانسلر اور فیکلٹی ممبر و طلبا کی جانب سے پھولوں کی خصوصی چادر مرحوم کی قبر پر چڑھائی گئی اور جامعہ کی جانب سے تعزیتی خط والدین کو لکھا گیا۔میں سوچ رہا تھا کہ اتنی اچھی معاشرتی اقدارکا مظاہرہ کیونکر ممکن ہوا؟ غورکرنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ نوجوان ''فاخرعدنان'' اخلاق کا بہت اچھا تھا،کبھی کسی سے لڑتا نہیں تھا، ہر ایک کے کام آتا تھا، بچوں تک سے اس کے اچھے مراسم تھے، اسی لیے جنازے کے وقت بڑوں اور بچوں کی آنکھیں نم تھیں۔
اخلاق سے پیش آنا اور دوسروں کے کام آنا ہماری معاشرتی اقدارکا ایک اہم خاصا ہے۔ ان خوبیوں میں بہت طاقت ہے جس کا مظاہرہ ہم نے اپنے بھتیجے کے انتقال کے موقعے پر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آج یہ معاشرتی خوبیاں معاشرے سے تیزی کے ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہیں بلکہ لوگ آج کل ایک دوسرے کو اخلاق سے عاری کردار اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں اور خود بھی ایسا کرتے ہیں۔
زندگی کے معاملات میں اختلاف کی صورت میں ہمارے دوست احباب مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے مخالف سے اخلاق کا مظاہرہ نہ کرو، اس کے کام نہ آؤ بلکہ اس کو مزا چکھاؤ۔چنانچہ یہ ہمارے روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب ہم گاڑی ڈرائیوکر رہے ہوتے ہیں وہاں بھی اخلاقیات کے بجائے خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو بھی گزرنے کا حق نہیں دیتے جس کا پہلے گزرنے کا قانونی حق ہے، اس عمل میں ہم خطرناک حادثے کا بھی رسک لیتے ہیں۔
گھر میں ساس بہو اور نند توکیا بھائی اور باپ جیسے رشتوں میں بھی ایک دوسرے کے لیے برداشت و اخلاقیات کا مظاہرہ کم ہی نظر آتا ہے، دفتر میں بھی کام کرتے ہوئے مخالفین کے لیے ہم حد درجہ بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے ایک کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ ایک ہمارے دوست اپنی موٹرسائیکل کے ساتھ ایک چھوٹی بوتل بھی رکھتے ہیں کہ اگر کہیں راستے میں کسی دوسرے موٹرسائیکل سوارکا پٹرول ختم ہوجائے اور اس کو مددکی ضرورت ہو تو وہ اپنے پاس سے یہ بوتل پٹرول بھرکر دے دیں۔
یقینا ایسے انسان اور بھی ہوں گے مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں دوسرے لوگوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہنے والے لوگوں کی تعداد کم نظر آتی ہے خاص کر اپنے مخالفین کو ہم معاف کرنا تو دور کی بات انھیں ہر وقت نقصان پہنچانے کے منتظر نظر آتے ہیں۔
ہماری اکثریت تو بحیثیت مسلمان ہے جن کا اس قرآن پر ایمان ہے کہ جس میں سورہ آل عمران میں (اور بھی کئی جگہ) ارشاد ہوتا ہے کہ (مفہوم) جو لوگ دوسروں کو معاف کردیتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اب ذرا غورکیجیے اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو دوست بنا رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا وعدہ (ہمارے ایمان کے مطابق) سچا ہوتا ہے لہٰذا اگر ہم ایک دوسرے کو معاف کردیں اور غصہ ختم کردیں تو یقینا اللہ تعالیٰ ہمارا دوست ہوگا اور جس کا دوست اللہ تعالیٰ ہو جائے اسے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی ہی کامیابی ہوتی ہے۔ افسوس ہم اپنی دینی تعلیمات اور احکامات کو بھی نظرانداز کرکے اپنی اپنی زندگی کو جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
غورکیجیے اللہ تعالیٰ جس خوبی پر دوستی کا اعلان کر رہا ہے وہ (دین سے ہٹ کر بھی) ہمارے معاشرے کی ایک اہم قدر تھی۔ یہ وہ معاشرہ تھا کہ جس کے بارے میں لارڈ میکالے نے تاج برطانیہ کو مطلع کیا تھا کہ ہندوستان کے لوگ پولیس سے ڈرکر نہیں بلکہ پڑوسیوں کے خوف سے چوری چکاری نہیں کرتے۔تھوڑی دیرکو غورکیجیے اگر ہم اپنی معاشرتی اقدارکی صرف یہ دوخوبیاں اپنا لیں یعنی اخلاقیات اور دوسروں کے کام آنا تو پھر یقینا ہمارے ہاں ٹریفک حادثات بھی کم ہو جائینگے اس کے نتیجے میں زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں بھی کمی ہوجائے گی کیونکہ ان حادثات کی ایک بڑی وجہ دوسروں کا حق مارکر آگے گاڑی نکالنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے کے کام آنے کی تڑپ بھی پیدا کرلیں تو پھر ہم ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوں گے نہ کہ کسی کی ٹانگ کھینچنے، نقصان پہنچانے اوردوسرے کی کامیابی پر جیلس ہو رہے ہوں گے۔
اس عمل سے ذہنی تناؤ اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں سے بھی بچ سکیں گے اور سب سے بڑھ کر جب اس دنیا سے رخصت ہوں گے تو ہمارے اردگرد تمام ہاتھ ہی نہیں دل بھی ہمارے لیے دعا گو ہوں گے اور ہر آنکھ نم ہوگی، اور شاید آج اس انسان سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہ ہو کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہو تو ہر آنکھ اس کی محبت میں نم ہو اور دل سے اس کے لیے دعائیں نکل رہی ہوں! آئیے دو منٹ غور کریں۔
معاشرتی اقدار کے حوالے سے راقم نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے ایک پروفیسر ڈاکٹر سید ارشد کریم کا ذکرکیا تھا جنھوں نے اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ امریکا میں گزارا تھا اور ایک عرصے بعد جب وہ پاکستان آئے تو انھوں نے جامعہ کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہمارا اپنی معاشرتی اقدار سے دور ہونا ہے اور اپنی معاشرتی اقدارکو دوبارہ سے اپناکر ہم پستی سے نکل سکتے ہیں۔
مذکورہ پروفیسر ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص ہیں ان کی کہی ہوئی بات راقم کے مشاہدے کے مطابق سو فیصد درست نظر آتی ہے بلکہ اپنے معاشرے میں ہر روزکوئی نہ کوئی ایسا واقعہ مشاہدے میں آتا ہے کہ جب احساس ہوتا ہے کہ واقعی ہم اپنی معاشرتی اقدار سے دور ہوچکے ہیں اورہمیں واپس لوٹنے کی اشد ضرورت بھی ہے۔اپنی معاشرتی اقدارکواہمیت دینے والوں کی ایک تعداد آج بھی موجود ہے گوکہ پہلے کی نسبت یہ تعداد بہت کم ہوچکی ہے۔
اس اقدار کا مظاہرہ گزشتہ دنوں ہمیں اپنے بھتیجے کے انتقال کے موقعے پر دیکھنے میں آیا۔ یہ ایک 23 سالہ نوجوان اور داؤد انجینئرنگ کالج میں سال آخر کا طالبعلم تھا۔ ایک ایکسیڈنٹ کے بعد کوئی 12 روز آئی سی یو میں رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس دوران ان کے محلے والے از خود محلے میں مختلف آیات کا وردکراتے رہتے اجتماعی دعا کراتے رہے اور مذکورہ خاندان کی ہر قسم کی مدد کرتے رہے لیکن ایک پائی بھی اس خاندان سے وصول نہ کی۔
اسی طرح انتقال کے موقعے پر بھی تمام انتظامات کررہے تھے، محلے کے بزرگوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے کبھی تمام محلے داروں کو اس طرح مل کر کبھی کوئی کام کرتے نہیں دیکھا یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ نماز جنازہ میں آدھی تعداد سے زائد نوجوان شامل تھے، وائس چانسلر اور فیکلٹی ممبر و طلبا کی جانب سے پھولوں کی خصوصی چادر مرحوم کی قبر پر چڑھائی گئی اور جامعہ کی جانب سے تعزیتی خط والدین کو لکھا گیا۔میں سوچ رہا تھا کہ اتنی اچھی معاشرتی اقدارکا مظاہرہ کیونکر ممکن ہوا؟ غورکرنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ نوجوان ''فاخرعدنان'' اخلاق کا بہت اچھا تھا،کبھی کسی سے لڑتا نہیں تھا، ہر ایک کے کام آتا تھا، بچوں تک سے اس کے اچھے مراسم تھے، اسی لیے جنازے کے وقت بڑوں اور بچوں کی آنکھیں نم تھیں۔
اخلاق سے پیش آنا اور دوسروں کے کام آنا ہماری معاشرتی اقدارکا ایک اہم خاصا ہے۔ ان خوبیوں میں بہت طاقت ہے جس کا مظاہرہ ہم نے اپنے بھتیجے کے انتقال کے موقعے پر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آج یہ معاشرتی خوبیاں معاشرے سے تیزی کے ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہیں بلکہ لوگ آج کل ایک دوسرے کو اخلاق سے عاری کردار اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں اور خود بھی ایسا کرتے ہیں۔
زندگی کے معاملات میں اختلاف کی صورت میں ہمارے دوست احباب مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے مخالف سے اخلاق کا مظاہرہ نہ کرو، اس کے کام نہ آؤ بلکہ اس کو مزا چکھاؤ۔چنانچہ یہ ہمارے روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب ہم گاڑی ڈرائیوکر رہے ہوتے ہیں وہاں بھی اخلاقیات کے بجائے خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو بھی گزرنے کا حق نہیں دیتے جس کا پہلے گزرنے کا قانونی حق ہے، اس عمل میں ہم خطرناک حادثے کا بھی رسک لیتے ہیں۔
گھر میں ساس بہو اور نند توکیا بھائی اور باپ جیسے رشتوں میں بھی ایک دوسرے کے لیے برداشت و اخلاقیات کا مظاہرہ کم ہی نظر آتا ہے، دفتر میں بھی کام کرتے ہوئے مخالفین کے لیے ہم حد درجہ بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے ایک کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ ایک ہمارے دوست اپنی موٹرسائیکل کے ساتھ ایک چھوٹی بوتل بھی رکھتے ہیں کہ اگر کہیں راستے میں کسی دوسرے موٹرسائیکل سوارکا پٹرول ختم ہوجائے اور اس کو مددکی ضرورت ہو تو وہ اپنے پاس سے یہ بوتل پٹرول بھرکر دے دیں۔
یقینا ایسے انسان اور بھی ہوں گے مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں دوسرے لوگوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہنے والے لوگوں کی تعداد کم نظر آتی ہے خاص کر اپنے مخالفین کو ہم معاف کرنا تو دور کی بات انھیں ہر وقت نقصان پہنچانے کے منتظر نظر آتے ہیں۔
ہماری اکثریت تو بحیثیت مسلمان ہے جن کا اس قرآن پر ایمان ہے کہ جس میں سورہ آل عمران میں (اور بھی کئی جگہ) ارشاد ہوتا ہے کہ (مفہوم) جو لوگ دوسروں کو معاف کردیتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اب ذرا غورکیجیے اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو دوست بنا رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا وعدہ (ہمارے ایمان کے مطابق) سچا ہوتا ہے لہٰذا اگر ہم ایک دوسرے کو معاف کردیں اور غصہ ختم کردیں تو یقینا اللہ تعالیٰ ہمارا دوست ہوگا اور جس کا دوست اللہ تعالیٰ ہو جائے اسے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی ہی کامیابی ہوتی ہے۔ افسوس ہم اپنی دینی تعلیمات اور احکامات کو بھی نظرانداز کرکے اپنی اپنی زندگی کو جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
غورکیجیے اللہ تعالیٰ جس خوبی پر دوستی کا اعلان کر رہا ہے وہ (دین سے ہٹ کر بھی) ہمارے معاشرے کی ایک اہم قدر تھی۔ یہ وہ معاشرہ تھا کہ جس کے بارے میں لارڈ میکالے نے تاج برطانیہ کو مطلع کیا تھا کہ ہندوستان کے لوگ پولیس سے ڈرکر نہیں بلکہ پڑوسیوں کے خوف سے چوری چکاری نہیں کرتے۔تھوڑی دیرکو غورکیجیے اگر ہم اپنی معاشرتی اقدارکی صرف یہ دوخوبیاں اپنا لیں یعنی اخلاقیات اور دوسروں کے کام آنا تو پھر یقینا ہمارے ہاں ٹریفک حادثات بھی کم ہو جائینگے اس کے نتیجے میں زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں بھی کمی ہوجائے گی کیونکہ ان حادثات کی ایک بڑی وجہ دوسروں کا حق مارکر آگے گاڑی نکالنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے کے کام آنے کی تڑپ بھی پیدا کرلیں تو پھر ہم ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوں گے نہ کہ کسی کی ٹانگ کھینچنے، نقصان پہنچانے اوردوسرے کی کامیابی پر جیلس ہو رہے ہوں گے۔
اس عمل سے ذہنی تناؤ اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں سے بھی بچ سکیں گے اور سب سے بڑھ کر جب اس دنیا سے رخصت ہوں گے تو ہمارے اردگرد تمام ہاتھ ہی نہیں دل بھی ہمارے لیے دعا گو ہوں گے اور ہر آنکھ نم ہوگی، اور شاید آج اس انسان سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہ ہو کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہو تو ہر آنکھ اس کی محبت میں نم ہو اور دل سے اس کے لیے دعائیں نکل رہی ہوں! آئیے دو منٹ غور کریں۔