شناختی کارڈ…

اچانک میرے سامنے کھڑی ہوئی دیہاتی سی خواتین کھڑے کھڑے جیسے گر گئیں ، تعداد م


Shirin Hyder October 18, 2015
[email protected]

صاحب نے کہا بھی کہ وہ کسی سے رابطہ کر کے میرے لیے سہولت کروا دیں گے تا کہ طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر کوفت میں مبتلا نہ ہوں، اس کے لیے چند دن انتظارکرنا پڑتا مگر 'تریا ہٹ' بھی تو مشہور ہے، '' عوام کے مسائل تبھی سمجھ میں آ سکتے ہیں جب ہم خود ان کے ساتھ ان حالات کا سامنا کریں جن کا وہ ہر روز کرتے ہیں '' میں نے اپنے موقف کا جواز پیش کیا۔

اکتیس جولائی کو میرے شناختی کارڈ کی میعاد ختم ہوئی، یکم اور دو اگست کو ویک اینڈ تھا سو میں تین اگست کو روات میں 'نادرہ' کے ' سوئفٹ سینٹر ' پہنچی، باہر سے ہی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد نے صورت حال کی پہلی ' ٹچ' دی تھی، گاڑی پارک کی اور اندر پہنچنے سے پہلے ہی مجھے اپنے ''جنون'' کے سنگین نتائج کا اندازہ ہو گیا تھا۔

اندر اس لیے نہ جا سکتی تھی کہ قطار عین وہیں سے شروع ہو گئی تھی جہاں سے سڑک ختم ہو کر فٹ پاتھ شروع ہوا تھا، ایک نہیں چار چار قطاریں... فٹ پاتھ سے شروع ہو کر نادرہ کے دفتر کے صحن، پھر برآمدے تک جاتی ہوئیں اور اس کے اختتام پرسامنے دور نظرآتی ہوئی چارکھڑکیاں، میں واحد زنانہ قطار کے سرے پر کھڑی ہو گئی جس کے انتہائی اگلے سرے پر کھڑی ہوئی خوش قسمت خاتون کے سر پر آتشی گلابی دوپٹہ تھا، کڑی دھوپ کیا ہوتی ہے، اس کا بھی کم کم ہی ہمیں اندازہ ہوتا ہے اسی لیے تو آدھی آبادی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے۔

اس روز مجھے بخوبی اندازہ ہوا۔ کندھے پر لٹکے ہوئے وزنی بیگ میں سے کتاب نکالی جو عموماً میں ساتھ رکھتی ہوں کہ انتظار کرنا پڑے تو وقت گزارنا مشکل نہ ہو، کتاب کھول کر اسے سر کے اوپر رکھا تا کہ دماغ گرم نہ ہو، ارد گرد کی دکانوں کے سائن بورڈ پڑھ کر کچھ وقت گزارا ، پھر ان گاڑیوں کے نمبر پڑھنے لگی جو نظر کی دسترس میں تھیں، پھر کھڑے ہوئے لوگوں کے چہرے...

اچانک میرے سامنے کھڑی ہوئی دیہاتی سی خواتین کھڑے کھڑے جیسے گر گئیں ، تعداد میں وہ سات آٹھ ہوں گی، ان ہی میں سے ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک لڑکا ابھی ایک لفافہ پکڑا کر گیا تھا، انھوں نے اسی لفافے کو اپنے درمیان رکھ کر کھولا اور اس گرم فضا میں نان اور پکوڑوں کی اشتہا انگیز خوشبو پھیل گئی '' ارے بھئی آپ لوگ اس طرح بیٹھ گئی ہیں تو قطار کیسے چلے گی آگے؟ '' میں نے کتاب سر پر ہونے کے با وصف اپنے دماغ کو گرم ہوتے ہوئے محسوس کیا۔

'' دو گھنٹے سے تو ہم اسی جگہ پر کھڑے ہیں، گھر سے آئے ہوئے تین گھنٹے ہو چکے ہیں، یہ لائن یہیں کی یہیں ہے، آپ کھاؤ گی نان پکوڑے؟'' اس نے مجھے صورت حال بھی بتائی اور دعوت بھی دی۔ کاش میں بھی ان ہی کی طرح ہوتی تو ان ہی کے ساتھ بیٹھ جاتی اور بے فکری سے اس دھوپ میں، ننگے پتھریلے فرش پر بیٹھ کر نان پکوڑے کھاتی، ان کے ساتھ خوش گپیاں کرتی، کہنا بڑا آسان ہے کہ عام آدمی کے ساتھ انسان ان کے مسائل محسوس کر سکتا ہے مگر ہم ان جیسی بے فکری اپنے اندر نہیں لا سکتے، انھیں معلوم ہے کہ ان کا اختیار صرف قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے تک ہے، اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتے، چاہے وہ بے شناخت ہی رہ جائیں۔

گیارہ بج چکے تھے، مجھے اس ایک جگہ پر کھڑے ہوئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا، جانے ان کی رفتار اس قدر سست کیوں ہے ؟ یہ حال نادرہ کے سوئفٹ سینٹر کا ہے... اور جو یہ گروپ عین بیچ قطار کے بیٹھ کر کھانا نہ شروع کر دیتا تو چند قدم تو چل ہی لیتے ہم لوگ۔ ایک بات اچھی ضرور لگی کہ کوئی قطار توڑ نہ رہا تھا، نظم ، ضبط اور برداشت کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ میں نے عینک لگا کر عقابی نظروں سے دیکھا کہ اب قطار کی طوالت کیا تھی، اب بھی قطار کے انتہائی سرے پر آتشی گلابی دوپٹے والی ہی کوئی عورت تھی، میں نے پھر گھڑیاں گننا شروع کر دیں، پسینے کی اتنی مقدار عمر کی ساری گرمیوں میں شاید جسم سے نہ بہی ہو گی جتنی اس روز ایک گھنٹے میں بہہ گئی تھی۔

مزید پندرہ منٹ بیزاری سے گزار کر میں نے پھر عینک جمائی، قطار کے اس سرے پر آتشی گلابی دوپٹہ نظر آیا، میں نے خواتین سے معذرت کی کہ میں چیک کرنے جا رہی ہوں کہ مسئلہ کیا ہے '' آپ کتنی دیر سے یہاں کھڑی ہیں؟ '' میں نے اس آتشی گلابی دوپٹے والی سے سوال کیا۔

'' جی دو گھنٹے تو ہو گئے ہوں گے '' اس نے سادگی سے جواب دیا، کھڑکی کے اس پار کوئی نہ تھا، ' ' ادھر والا بندہ ہی نہیں آیا ابھی تک کھڑکی پر!! ''

میں دھوپ سے چھاؤںمیں تو آ گئی تھی مگر دماغ گرم ہونا شروع ہو گیا تھا، میں نے جائزہ لیا، چار میں سے فقط ایک کھڑکی پر ایک صاحب بیٹھے اپنا کام کر رہے تھے، ان کی رفتار سے کوئی گلہ نہ تھا مگر وہ مردوں کی ایک قطار کو اٹینڈ کر رہے تھے جو اتنی ہی طویل تھی۔ '' باقی کاؤنٹرز کے لوگ کہاں ہیں بھائی صاحب؟ '' میں نے ان سے سوال کیا۔

'' ٹی بریک ہے جی ابھی!! '' اس نے ادائے بے نیازی سے کہا۔ '' ڈیڑھ گھنٹے سے تو میں دیکھ رہی ہوں کہ باقی کاؤنٹرز پر کوئی بندہ نہیں ہے '' میں نے غصے سے کہا، '' کیا وقت اور طوالت ہوتی ہے آپ کی ٹی بریک کی اور اس کڑاکے کی گرمی میں اگر آپ ٹی بریک نہ کریں ، کوئی شربت پی لیں اور باہر کھڑے ہوئے لوگوں کو بھی گرمی میں جھلسنے سے بچا لیں!! ''

'' چائے کا وقفہ ہمیں سرکار کی طرف سے ملتا ہے اور ہم زیادہ وقت ضایع نہیں کرتے، دو لڑکے چائے کے وقفے پر ہیں اور ایک آج چھٹی پر ہے '' اس نے وضاحت کی، '' آپ اپنی باری کا انتظار کریں، اس طرح وقت ضایع ہوتا ہے '' اس نے مناسب طریقے سے کہا تھا کہ بی بی میرا سر نہ کھاؤ اور نہ ہی میرا وقت ضایع کرو، یہاں کام اسی طریقے سے ہو گا جیسا کہ ہم چاہتے ہیں!!

'' انچارج کون ہے یہاں پر؟؟ '' میں نے غصے پر قابو پایا۔'' نیچے بیٹھے ہیں!! '' اس نے کہا اور میں نے کھڑکی سے ہٹ کر نیچے دیکھا مگر... '' نیچے تہہ خانے میں ان کا دفتر ہے بی بی!! ''

'' اور تہہ خانے کا راستہ؟؟ '' میں نے شرمندگی سے پوچھا، اس نے بتایا کہ باہر نکل کر فٹ پاتھ سے بائیں ہاتھ پر ایک کچا راستہ اندر عمارت کی طرف جاتا ہے ، وہ راستہ ڈھلان میں تھا اور اس کے اختتام پر ایک دروازہ۔ '' آپ اندر نہیں جا سکتیں جی!! '' باوردی گارڈ نے مجھے اطلاع کی۔'' مجھے... صاحب نے بھیجا ہے!! '' مجھے کاؤنٹر والے کا نام یاد تھا، '' انچارج صاحب سے ملنا ہے!! ''

'' شناختی کارڈ بنوانا ہے آپ نے تو وہ اوپر سے ہی بنے گا، صاحب مصروف ہیں!! '' اس نے حتمی انداز میں اپنا فیصلہ دیا۔'' شناختی کارڈ میرا بنا ہوا ہے بیٹا!! '' میں نے اس کی داڑھی کو نظر انداز کیا جس میں سیاہی سے زیادہ سفیدی تھی، ہاتھ میں پکڑا ہوا زائد المدت کارڈ اسے لہرا کر دکھایا، '' مجھے انچارج صاحب سے کوئی اور کام ہے!! '' اتنا چھوٹا سا جھوٹ بول لینا اس کا کوئی نقصان نہ کر سکتا تھا نہ ہی میرا مقصد انچارج صاحب کو کہہ کر اپنا شناختی کارڈ جلد بنوانا تھا۔

اس کے لیے میرے لیے سب سے آسان کام یہ ہوتا کہ میں گھر لوٹ جاتی ، صاحب سے کہتی کہ کوئی واقفیت نکالیں اور میں نادرہ کے دفتر میں کسی کی ہمراہی میں شان سے داخل ہوتی، لمبی قطاروں کے ایک طرف سے یوں گزرتی جیسے ائیر پورٹ کے '' گرین چینل'' سے گزرتے ہیں اور انچارج صاحب کے ائیرکنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھ کر تمام کاغذی کارروائی ہوتی، تصویر بنتی اور میں گھر بیٹھے ایک ہفتے میں شناختی کارڈ موصول کرلیتی... مگر بھلا ہو اس فطرت کا کہ جسے دوسروں کے درد اور مسائل کو جاننے، سننے اور ان کے حل کے لیے کسی نہ کسی طرح کوشش کرنے کا جنون ہے اور اس کے لیے اپنا آرام تج دینا پڑتا ہے۔ '' سر باہر ایک زنانہ ہے، آپ سے ملنا چاہتا ہے!! '' گارڈ کی آواز باہر تک آئی تھی۔

'' کیا بتایا ہے تم نے ان کو؟ '' اندر والے نے سوال کیا۔'' میں نے بتایا ہے کہ آپ مصروف ہیں!! '' گارڈ نے جواب دیا، '' اب کیا بتاؤں صاحب؟ ''

'' یہ برتن اٹھاؤ '' اندر والے نے کہا، '' اس کے بعد انھیں بھجواؤ!!''

میں نے گارڈ کے برتن اٹھانے کا انتظار نہ کیا اور معذرت کرتی ہوئی اندر داخل ہو گئی... '' معذرت چاہتی ہوں یوں مخل ہونے کی مگر پہلے ہی میں کافی دیر سے انتظار کر چکی ہوں ، مجھے اپنی تو نہیں مگر ان سب خواتین کی بھی فکر ہے جو صبح سے یہاں انتظار کر رہی ہیں، ان کے گھروں اور بچوں کے کئی مسائل ہوں گے، آپ کے چار کاؤنٹرز میں سے تین ڈیڑھ گھنٹے سے میں خالی دیکھ رہی ہوں ... یہ سوئفٹ سینٹر ہے کیا؟ آپ اور آپ کے ماتحت یہاں چائے پی رہے ہیں۔

چائے پینا آپ کا حق سہی مگر آپ نے کبھی اپنے دفتر سے نکل کر باہر دیکھا ہے کہ آپ کے ماتحت عملہ کام کیسے کر رہا ہے؟'' جانتی تھی کہ اس ملک میں کسی کو '' متاثر'' کرنے کے لیے پیسہ، وردی، اختیار یا انگریزی زبان کام کرتی ہے۔ میں نے آخری ہتھیار کا استعمال کیا تھا اور یہ کام کر گیا تھا، وہ خود اور ان کے ساتھ بیٹھا ہوا ان کا ماتحت فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اوراندرونی سیڑھیوں سے اوپر کی طرف لپکے '' آپ آئیں میڈم، اندر سے ہی آ جائیں ، میں ابھی چیک کرتا ہوں، ابھی آپ کا کام ہو جاتا ہے ''

'' آ پ جائیں میڈم صاحب کے ساتھ!! '' چند منٹ پہلے مجھے زنانہ کہنے والے گارڈ کو علم تھا کہ انگریزی بولنے والی عورت کو میڈم کہتے ہیں۔

'' آپ چلیں ، میں باہر سے ہی آؤں گی!! '' میں نے ان کی تقلید نہیں کی، '' میں نے آپ سے کہا ہے کہ یہ میرا نہیں بلکہ باہر بیٹھی ہوئی ہر عورت کا مسئلہ ہے، میں اندر سے اس لیے نہیں آنا چاہتی کہ باہر سے شیشوں کے پار دیکھنے والی عورتوں نے مجھے چند منٹ پہلے باہر دیکھا تھا اور وہ سوچ سکتی ہیں کہ میں نے کوئی رشوت دی ہے یا سفارش کروا کر اپنی باری کے بغیر اندر پہنچ گئی ہوں!! ''

( جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں