پوری گواہی
میری میز پرکتابوں کا ڈھیر ہے ان ہی کتابوں میں ایک کتاب ’’پوری گواہی‘‘ کا عنوان میری نظروں کے حصار میں ہے۔
میری میز پرکتابوں کا ڈھیر ہے ان ہی کتابوں میں ایک کتاب ''پوری گواہی'' کا عنوان میری نظروں کے حصار میں ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ و مؤلفہ تزئین انصاری ہیں اورکتاب کی اشاعت ''تحریک نفاذ اردو'' کی مرہون منت ہے ۔ نیز یہ کہ تحریک کی طرف سے یہ پہلی کتاب ہے جو اشاعت کے مرحلے سے گزری ہے اور آیندہ بھی امیدکی جاسکتی ہے۔
کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ ''پوری گواہی'' مردوں کی نہیں بلکہ خواتین کی ہے، جب کہ اسلام اس کے برعکس حکم دیتا ہے کہ عورت کی گواہی کو آدھی گواہی تسلیم کیا جائے اور اگر پوری گواہی درکار ہو، تب دو خواتین گواہی دیں گی، جسے ایک گواہی مانا جائے گا۔
لیکن متذکرہ مسئلہ قانون ومذہب سے ذرا ہٹ کر ہے، اور علم و ادب سے تعلق رکھنے والی خواتین نے سرشار صدیقی کی ادبی و شعری خدمات پر اپنے خیالات و افکارکو مضامین کی شکل میں پیش کیا ہے اور ان کی نصف صدی پر مبنی تخلیقی خدمات کو سراہا ہے۔
سرشارصدیقی کا نام قابل قدر اور قابل احترام ہے وہ ایک قادرالکلام شاعر تھے، ان کی شاعری کی گونج دوردور تک سنی جاتی تھی،کانپور میں 1962 میں پیدا ہونے والے سرشارصدیقی نے جہاں شاعری کے گلستان میں نت نئے پودوں کی آبیاری کی وہیں انھوں نے نثر بھی بے حد عمدہ، سلیس، بامعنی اورمختصر لکھی بقول نسیم درانی کے کہ ''سرشار صدیقی نثر لکھتے ہوئے بھی تمنا کے دوسرے قدم کی جستجو میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں'' ان ہی کاوشوں اور علمیت کے نتیجے میں حرف مکرر، شنیدہ (یہ 37 تاثراتی تحریروں کا مجموعہ ہے) خراج غائبانہ ، اجمال، رفتگاں، نثری تصانیف کے اعتبار سے 'پتھرکی لکیر، زخم گل، بے نام، خزاں کی آخری شام، اساس اور میثاق، آموختہ (مختصر نظمیں) نامی کتب اردو ادب میں اہمیت کی حامل ہیں۔
ذکرگزرے سالوں کا ہے کہ جب میں نے لکھنے کی ابتدا کی تھی تھوڑے ہی عرصے بعد ایک اشاعتی ادارے کے تحت میرے افسانوں کے مجموعے ''دھوپ چھاؤں'' کی اشاعت ہوئی، ان دنوں سرشار صدیقی ''حریت'' میں کالم لکھا کرتے تھے، جب میں نے ان کی خدمت میں اپنی تحریروں پر مشتمل کتاب پیش کی تو انھوں نے خوشی کا بھی اظہار کیا اور خاص طور پر اپنے کالم میں تبصرہ شامل کیا اور مذکورہ کالم کو سفید گتے نما کاغذ میں خود پینٹ کیا اور تقریب کے موقعے پر جب انھوں نے مجھے دیا، تو میری خوشی اور حیرت دیدنی تھی۔
میرا خیال ہے بڑے لوگ اپنے چھوٹوں کا اسی طرح حوصلہ بڑھاتے ہیں، آج تک ان کے دستخط سے مزین کتاب ''پتھر پر لکیر'' میرے بک شیلف کی زینت میں اضافے کا باعث بنی ہوئی ہے، ان کا کالم بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ 'پوری گواہی' کی تقریب تعارف کا سہرا بھی ''تحریک نفاذ اردو'' کے سر لگتا ہے، اسی حوالے سے ہم اگر یہ کہیں کہ یکم ستمبر 2015 کی شام بھی بڑی سہانی اور اداس تھی۔
سہانی اورخوشگوار اس وجہ سے کہ موسم دل فریب تھا اور 'پوری گواہی' کی تقریب تعارف تھی اور اداسی کی وجہ سرشار صدیقی کی پہلی برسی کو باقاعدہ منانے کا اہتمام کیا گیا تھا گوکہ اصل تاریخ وفات 7 ستمبر ہے لیکن گوناگوں مصروفیات اور چند ناگزیر مجبوریوں کے تحت یکم ستمبر کو ترجیح دی گئی پہلی برسی کو منانے کے لیے ''ہمارا ادارہ'' نے کانپور اکادمی، کانپور پبلک اسکول ، حرا فاؤنڈیشن اور بزمِ جہان حمد پاکستان کے تعاون و اشتراک سے سرشار صدیقی مرحوم کی ادبی خدمات کو شاندار خراج عقیدت پیش کرنے کا اہتمام کیا تھا جب کہ تحریک نفاذ اردو و صوبائی حسب معمول ایسی تقریبات کے انعقاد کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہتا ہے۔
ڈاکٹر مبین اختر ماہر نفسیات اور تحریک نفاذ اردو و صوبائی سرپرست اعلیٰ کے پرخلوص تعاون وخدمات کے بغیر نفاذ تحریک اردو وصوبائی زبان کا کوئی کام مکمل نہیں ہوسکتا ہے، اب انھوں نے اردوکی ترقی وترویج کے لیے اپنا دائرہ مزید وسیع کردیا ہے اورکتابوں کی اشاعت کی ابتدا ہوگئی ہے، یہ خوش آئند بات یا واقعہ ان لوگوں کے لیے یقینا خوشی کا پیغام ثابت ہوگا جوکتابوں کی اشاعت کا بھاری خرچ اپنے ناتواں کاندھوں پر نہیں اٹھاسکتے ہیں۔
تزئین انصاری نے سرشار صدیقی کے حوالے سے ایک مکمل کتاب تالیف کی ہے۔ پڑھتے ہوئے مجھے کسی بھی جگہ تشنگی کا احساس ہرگز نہیں ہوا ہے، انھوں نے مرحوم شاعر کی زندگی کے ہر گوشے پر روشنی ڈالی ہے، باقی دوسری خواتین قلم کاروں کے مضامین بھی شامل کیے ہیں۔
ان قلم کار خواتین نے مرحوم سرشارصدیقی کی ذاتی زندگی اور ان کے دکھوں، غموں، شاعرانہ عظمت اور وطن سے محبت کے گیت نثر کی شکل میں خوبصورت انداز میں لکھے ہیں۔ تزئین کو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے تحت وزارت حکومت پاکستان کی جانب سے 2008 میں اول انعام اور دوئم انعام وزارت مذہبی امور اسلام آباد سے 2009 میں ان کی تخلیق وتالیف پر ملا، یقیناً ان کی یہ خوش بختی ہے کہ انھیں اپنی محنت اور والدین کی دعاؤں کا ثمر، تعریف و تحسین اور انعامات کی شکل میں موصول ہوا۔
سرشار صدیقی کا یہ شعر جوفلیپ پر موجود ہے:
نہ زمیں ملی نہ زباں ملی
جو اماں ملی تو کہاں ملی
ہجرت کا کرب بھی انسان کو بے کل کیے رہتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ظالم حکمرانوں کے طرز عمل اور ناانصافی نے ''ہجرت'' کی خوشی اور اس سکون اور اطمینان کا خاتمہ کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے گھر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔اس المیے کو شاعر نے لفظوں کا پیکر اس طرح عطا کیا ہے:
بے گھر ہوں بے سایہ ہوں اب کسے بتاؤں
ایک چھتنار درخت مرے دروازے پہ تھا
ہر شخص کو ایک نہ ایک دن جانا ہی ہوتا ہے تخلیق کار اپنی تھکن اور آبلہ پائی کے سفر کو اپنی تحریروں میں سمو دیتا ہے۔ سرشار صدیقی نے جس خواہش کا اظہار کیا۔ وہ خواہش پوری ہوئی:
بہت لمبا سفر طے کرچکا ہوں
تھک گیا ہوں
بس اب جی چاہتا ہے
کہ تیری گود میں
سر رکھ کے
تیری خاک اوڑھوں
اورگہری نیند سوجاؤں