ہاتھی کی چیونٹی
کہتے ہیں کہ ہاتھی کی عمر دو سو سال ہوتی ہے اور پچاس سال کی عمر میں پختگی کو پہنچ جاتا ہے
کہتے ہیں کہ ہاتھی کی عمر دو سو سال ہوتی ہے اور پچاس سال کی عمر میں پختگی کو پہنچ جاتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں اس کی کوئی قید نہیں ہے۔ کئی ہاتھی ایسے ہیں جو پچاس کی حد پار کر چکے ہیں لیکن اب تک ان میں پختگی نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اب تک خود کو بچہ اور اپنے پیچھے چلنے والوں کو نوجوان سمجھتے ہیں۔ اس لیے بار بار راستہ بھول جاتے ہیں اور اپنے ساتھ سارے ریوڑ کو یوٹرن لینے پر مجبور کردیتے ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ ہاتھی کم از کم سو سال تک اپنی توانائی کو مکمل طور پر بحال رکھتے ہیں۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہمیں ہر مہینے توانائی کا انجکشن چاہیے ہوتا ہے۔ کبھی وہ ملتان سے منگوایا جاتا ہے اور کبھی لندن سے۔ مگر ہمارے ہاتھ کو صرف وہ ہی انجکشن راس آتا ہے جس میں دولت کی توانائی ہو۔ باقی میلے کچیلے توانائی والے اس پر اثر نہیں کرتے ہیں۔
ہاتھی کا بڑھاپا بھی مشکوک ہے۔ وہ خضاب تو لگاتا نہیں ہے اور نہ ہی فٹ رہنے کے لیے کنٹینر پر دوڑتا ہے۔ اسی لیے تو بے چارہ ہاتھی پر بڑھاپا ڈیڑھ سو سال بعد آتا ہے۔ ہاتھیوں کو یہ مشورہ کیسے دیا جائے کہ وہ خود کو جوان رکھنے کے لیے اپنے سر پر بالوں کی کاشت کرلیں، اور تھوڑا رئیس ہاتھی ہے تو جوانی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے شادی کرلے۔ یہ الگ بات ہے کہ میڈیا اس کے پیچھے پڑجائے گا۔ لیکن وہ میڈیا سے ڈر گیا تو پھر ہاتھی تھوڑی کہلائے گا۔ ہاتھی کا تو مطلب یہ ہی ہے کہ اُسے جتنا ہلایا جائے وہ ڈھیٹ بن کر اپنی جگہ سے نہیں ہلے۔
اُس کے دماغ میں جو سوئی پھنس جائے تو بھلے دنیا بھر سے اُس کے اوپر تھو تھو کیا جائے لیکن اُس کی چمڑی گیلی نہ ہو۔ کیونکہ ہاتھیوں کا دماغ بڑا اور عقل کم ہوتی ہے، اس لیے اتنا بڑا دکھنے کے باوجود بھی وہ شیر نہیں بن سکتا۔ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ہاتھی جتنا بھی بڑا ہوجائے لیکن اگر انھیں سردی لگ جائے اور موسم بھی جاڑے کا ہو تو یہ بیس گھنٹے میں مرجاتے ہیں۔ میں نے بھی بڑے بڑے ہاتھیوں کو اُس وقت مرتے دیکھا ہے جب موسم اُن کے ساتھ نہ ہو۔ آج کل بھی کچھ دیوانے یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں جتنی سردی لگ جائے موسم اُن کے ساتھ ہے۔
ہاتھی بھی یہ ہی سوچتا رہتا ہے کہ وہ اب سائز میں اتنا بڑا ہوچکا ہے کہ سردی میں اُسے کوئی اثر نہیں ہوگا اور موسم کی سختی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر ایک دن میں ہی اُس کی کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ ہمارے یہاں کے ہاتھیوں کو معلوم ہے کہ ابھی جاڑے کا موسم ہے اس لیے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایسے میں اگر انھیں ہلکی بھی سردی لگ گئی تو معاملہ خراب ہوسکتا ہے۔ اب کچھ لوگ ہاتھیوں کے غائب ہوجانے کو اپنی جیت قرار دے رہے ہیں، لیکن لاہور، لاڑکانہ اور حیدرآباد میں ہاتھیوں نے ثابت کردیا کہ وہ ایسے غاروں کے اندر ہیں جہاں سے وہ کبھی بھی نکل کر زمین کو ہلا سکتے ہیں۔
ہاتھیوں میں انسانوں والی بھی کئی خاصیتیں ہیں۔ جب ہاتھی بیمار ہوجاتے ہیں تو درد سے کراہتے ہیں، لوگ انھیں پاگل سمجھ کر ڈرتے ہیں کہ ہاتھی سے دور رہا جائے۔ یہ انسانوں کی طرح زمین پر لیٹ جاتے ہیں اور کروٹیں بدلنے لگنے ہیں۔ ایسے ہی کروٹیں بدلنے سے کچھ عقلمند لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہاتھی کے دن پورے ہوچکے۔
مگر جب انھیں دوا دی جاتی ہے تو بغیر کسی مزاحمت کے اُسے پیتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ ہاتھی ہمارے یہاں بیمار ہیں۔ وہ پیار سے دوا پی لینا چاہتے ہیں مگر کیا کریں کہ پرانی دکان پر نیا طبیب آیا ہے جسے معلوم ہی نہیں ہے کہ ہاتھی فرش پر جو کروٹ لے رہا ہے وہ حملہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ اُسے دوا چاہیے۔ اور وہ بھی بغیر ایسپائری ڈیٹ کی۔ میرے جاسوس یہ کہتے ہیں کہ کچھ تجربوں کے بعد طبیب کو بھی سمجھ آنے لگا ہے اور وہ کراچی کے چڑیا گھر میں درد سے چلاتے ہاتھی کو دوا دینے والا ہے۔
آپ کو حیرت انگیز بات بتاتا ہوں کہ اگر جنگ کے دوران ہاتھی کے اوپر بیٹھا شخص زمین پر گرجائے تو وہ اُسے پیروں سے کچل کر مار دیتا ہے، یہ سوچے بغیر کے اسی شخص کے حکم پر تو وہ دوسروں کو مار رہا تھا۔ اصل میں ہاتھی یہ ہی سمجھتا ہے کہ اُس کے سامنے جس شخص کو بھی پھینکا جائے گا وہ دشمن ہی ہوگا۔ اب اس ہاتھیوں کے معاشرے کو دیکھیے کہ یہاں جو جو ہاتھی جنگ کے لیے تیار کیے گئے اُن کے سامنے جب کبھی بھی اُن کو چلانے والا گر گیا تو انھوں نے اسے پیروں تلے روند دیا۔ میں آپ کو مثالیں دینے والا کون ہوتا ہوں آپ خود ڈھونڈھ لیں۔ کئی سورما آج کل تڑپ رہے ہیں کہ اس ہاتھی کی پیٹھ پر تو ہمیں بیٹھنا تھا، اس نے تو پیروں تلے ہمیں ہی روند دیا۔ ان کی آہیں اور سسکیاں ایک گھر میں بند ہو کر رہ گئی ہیں۔
ہاتھیوں میں بھی حسد بہت ہوتا ہے۔ اگر دو ایسے ہاتھی آمنے سامنے آجائیں جو ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں تو پھر انھیں کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ یہ ایک دوسرے پر حملہ کردیتے ہیں اور اپنے اوپر بیٹھے ہوئے مہاوت کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ آج کل لگتا یوں ہے کہ ایک ہی فوج میں ہاتھی آمنے سامنے آچکے ہیں اور انھوں نے اپنے اوپر بیٹھے ہوئے مہاوت کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ لاہور کے ہاتھیوں نے اسی طرح لڑ لڑ کر اپنی ایک سیٹ گنوا دی اور اب فیصل آباد ہاتھ سے جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں ان ہاتھیوں کو کوئی نہیں ہرا سکتا جب تک یہ خود آپس میں نہ لڑیں۔ انھوں نے لڑنا شروع کردیا ہے۔
اب تجربہ کار مہاوت انھیں سنبھال پاتے ہیں یا نہیں، دوسری فوج ان پر ابھی حملہ نہیں کرسکتی کیونکہ ان کے ہاتھی بھی آپس میں لڑنے لگ گئے ہیں۔ کئی خواب چکنا چور ہوگئے ہیں اور اسی لیے ضمانتیں بھی ضبط ہونے لگی ہیں۔کسی نے مجھ سے پوچھا کہ بلدیاتی الیکشن پر کیا کہتے ہو؟ تو میں نے پھر اُسے ہاتھی کی مثال دی کہ جب کبھی بھی ہاتھی سوتا ہے تو وہ اپنی سونڈ کو سینے میں چھپا لیتا ہے۔ کیونکہ اُسے یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کوئی چیونٹی یا چوہا اندر نہ گھس جائے۔ اس لیے یہاں بھی یہ ہی دھچکا لگا رہتا ہے کوئی گھس نہ جائے۔
سیانے کہتے ہیں کہ ہاتھی کم از کم سو سال تک اپنی توانائی کو مکمل طور پر بحال رکھتے ہیں۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہمیں ہر مہینے توانائی کا انجکشن چاہیے ہوتا ہے۔ کبھی وہ ملتان سے منگوایا جاتا ہے اور کبھی لندن سے۔ مگر ہمارے ہاتھ کو صرف وہ ہی انجکشن راس آتا ہے جس میں دولت کی توانائی ہو۔ باقی میلے کچیلے توانائی والے اس پر اثر نہیں کرتے ہیں۔
ہاتھی کا بڑھاپا بھی مشکوک ہے۔ وہ خضاب تو لگاتا نہیں ہے اور نہ ہی فٹ رہنے کے لیے کنٹینر پر دوڑتا ہے۔ اسی لیے تو بے چارہ ہاتھی پر بڑھاپا ڈیڑھ سو سال بعد آتا ہے۔ ہاتھیوں کو یہ مشورہ کیسے دیا جائے کہ وہ خود کو جوان رکھنے کے لیے اپنے سر پر بالوں کی کاشت کرلیں، اور تھوڑا رئیس ہاتھی ہے تو جوانی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے شادی کرلے۔ یہ الگ بات ہے کہ میڈیا اس کے پیچھے پڑجائے گا۔ لیکن وہ میڈیا سے ڈر گیا تو پھر ہاتھی تھوڑی کہلائے گا۔ ہاتھی کا تو مطلب یہ ہی ہے کہ اُسے جتنا ہلایا جائے وہ ڈھیٹ بن کر اپنی جگہ سے نہیں ہلے۔
اُس کے دماغ میں جو سوئی پھنس جائے تو بھلے دنیا بھر سے اُس کے اوپر تھو تھو کیا جائے لیکن اُس کی چمڑی گیلی نہ ہو۔ کیونکہ ہاتھیوں کا دماغ بڑا اور عقل کم ہوتی ہے، اس لیے اتنا بڑا دکھنے کے باوجود بھی وہ شیر نہیں بن سکتا۔ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ہاتھی جتنا بھی بڑا ہوجائے لیکن اگر انھیں سردی لگ جائے اور موسم بھی جاڑے کا ہو تو یہ بیس گھنٹے میں مرجاتے ہیں۔ میں نے بھی بڑے بڑے ہاتھیوں کو اُس وقت مرتے دیکھا ہے جب موسم اُن کے ساتھ نہ ہو۔ آج کل بھی کچھ دیوانے یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں جتنی سردی لگ جائے موسم اُن کے ساتھ ہے۔
ہاتھی بھی یہ ہی سوچتا رہتا ہے کہ وہ اب سائز میں اتنا بڑا ہوچکا ہے کہ سردی میں اُسے کوئی اثر نہیں ہوگا اور موسم کی سختی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر ایک دن میں ہی اُس کی کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ ہمارے یہاں کے ہاتھیوں کو معلوم ہے کہ ابھی جاڑے کا موسم ہے اس لیے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایسے میں اگر انھیں ہلکی بھی سردی لگ گئی تو معاملہ خراب ہوسکتا ہے۔ اب کچھ لوگ ہاتھیوں کے غائب ہوجانے کو اپنی جیت قرار دے رہے ہیں، لیکن لاہور، لاڑکانہ اور حیدرآباد میں ہاتھیوں نے ثابت کردیا کہ وہ ایسے غاروں کے اندر ہیں جہاں سے وہ کبھی بھی نکل کر زمین کو ہلا سکتے ہیں۔
ہاتھیوں میں انسانوں والی بھی کئی خاصیتیں ہیں۔ جب ہاتھی بیمار ہوجاتے ہیں تو درد سے کراہتے ہیں، لوگ انھیں پاگل سمجھ کر ڈرتے ہیں کہ ہاتھی سے دور رہا جائے۔ یہ انسانوں کی طرح زمین پر لیٹ جاتے ہیں اور کروٹیں بدلنے لگنے ہیں۔ ایسے ہی کروٹیں بدلنے سے کچھ عقلمند لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہاتھی کے دن پورے ہوچکے۔
مگر جب انھیں دوا دی جاتی ہے تو بغیر کسی مزاحمت کے اُسے پیتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ ہاتھی ہمارے یہاں بیمار ہیں۔ وہ پیار سے دوا پی لینا چاہتے ہیں مگر کیا کریں کہ پرانی دکان پر نیا طبیب آیا ہے جسے معلوم ہی نہیں ہے کہ ہاتھی فرش پر جو کروٹ لے رہا ہے وہ حملہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ اُسے دوا چاہیے۔ اور وہ بھی بغیر ایسپائری ڈیٹ کی۔ میرے جاسوس یہ کہتے ہیں کہ کچھ تجربوں کے بعد طبیب کو بھی سمجھ آنے لگا ہے اور وہ کراچی کے چڑیا گھر میں درد سے چلاتے ہاتھی کو دوا دینے والا ہے۔
آپ کو حیرت انگیز بات بتاتا ہوں کہ اگر جنگ کے دوران ہاتھی کے اوپر بیٹھا شخص زمین پر گرجائے تو وہ اُسے پیروں سے کچل کر مار دیتا ہے، یہ سوچے بغیر کے اسی شخص کے حکم پر تو وہ دوسروں کو مار رہا تھا۔ اصل میں ہاتھی یہ ہی سمجھتا ہے کہ اُس کے سامنے جس شخص کو بھی پھینکا جائے گا وہ دشمن ہی ہوگا۔ اب اس ہاتھیوں کے معاشرے کو دیکھیے کہ یہاں جو جو ہاتھی جنگ کے لیے تیار کیے گئے اُن کے سامنے جب کبھی بھی اُن کو چلانے والا گر گیا تو انھوں نے اسے پیروں تلے روند دیا۔ میں آپ کو مثالیں دینے والا کون ہوتا ہوں آپ خود ڈھونڈھ لیں۔ کئی سورما آج کل تڑپ رہے ہیں کہ اس ہاتھی کی پیٹھ پر تو ہمیں بیٹھنا تھا، اس نے تو پیروں تلے ہمیں ہی روند دیا۔ ان کی آہیں اور سسکیاں ایک گھر میں بند ہو کر رہ گئی ہیں۔
ہاتھیوں میں بھی حسد بہت ہوتا ہے۔ اگر دو ایسے ہاتھی آمنے سامنے آجائیں جو ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں تو پھر انھیں کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ یہ ایک دوسرے پر حملہ کردیتے ہیں اور اپنے اوپر بیٹھے ہوئے مہاوت کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ آج کل لگتا یوں ہے کہ ایک ہی فوج میں ہاتھی آمنے سامنے آچکے ہیں اور انھوں نے اپنے اوپر بیٹھے ہوئے مہاوت کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ لاہور کے ہاتھیوں نے اسی طرح لڑ لڑ کر اپنی ایک سیٹ گنوا دی اور اب فیصل آباد ہاتھ سے جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں ان ہاتھیوں کو کوئی نہیں ہرا سکتا جب تک یہ خود آپس میں نہ لڑیں۔ انھوں نے لڑنا شروع کردیا ہے۔
اب تجربہ کار مہاوت انھیں سنبھال پاتے ہیں یا نہیں، دوسری فوج ان پر ابھی حملہ نہیں کرسکتی کیونکہ ان کے ہاتھی بھی آپس میں لڑنے لگ گئے ہیں۔ کئی خواب چکنا چور ہوگئے ہیں اور اسی لیے ضمانتیں بھی ضبط ہونے لگی ہیں۔کسی نے مجھ سے پوچھا کہ بلدیاتی الیکشن پر کیا کہتے ہو؟ تو میں نے پھر اُسے ہاتھی کی مثال دی کہ جب کبھی بھی ہاتھی سوتا ہے تو وہ اپنی سونڈ کو سینے میں چھپا لیتا ہے۔ کیونکہ اُسے یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کوئی چیونٹی یا چوہا اندر نہ گھس جائے۔ اس لیے یہاں بھی یہ ہی دھچکا لگا رہتا ہے کوئی گھس نہ جائے۔