امریکی حکام سے ملاقاتوں میں پہلی ترجیح قومی مفاد اور سیکیورٹی ہوگی سرتاج عزیز
امریکا کو چاہیئے کہ وہ ایسے اقدامات نہ کرے جو جنوبی ایشیا میں پہلے سے موجود عدم توازن میں اضافے کی وجہ بنے، مشیر خارجہ
وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بنیادی ترجیح قومی مفاد اور سیکیورٹی ہے جس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور امریکی حکام سے ملاقات میں اس چیز کو مدنظررکھا جائے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکا کے دوران حکام سے جن بنیادی امور پر بات ہوگی ان میں بھارت سے تعلقات، تجارت اور سرمایہ کاری کے کے مواقعوں کے علاوہ افغانستان میں امن کی بحالی شامل ہے اورامریکا کو چاہیئے کہ وہ ایسے اقدامات نہ کرے جو جنوبی ایشیا میں پہلے سے موجود عدم توازن میں اضافے کی وجہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا بھارت کے ساتھ چاہے جیسے تعلقات قائم کرے اس سے کوئی سروکار نہیں لیکن ایسے وقت میں کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے تو امریکا کو چاہیئے کہ علاقے میں روایتی اور اسٹریٹیجک عدم توازن کو اتنا نہ بڑھائے کہ خطے کی سالمیت کے لئے خطرہ بن جائے۔
وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ امریکا ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کریں لیکن بنیادی چیز یہی ہے کہ خطے میں عدم توازن نہ بڑھے تاہم امید ہے کہ بھارت اور پاکستان کو ایک ساتھ ہی نیوکلئیر سپلائر گروپ کا رکن بنایا جائے گا۔ امریکی حکام کی جانب سے پاکستان سے فوری جوہری معاہدے کے امکانات مسترد کیے جانے اور وزیراعظم نواز شریف کے دورے کے دوران جوہری ہتھیاروں کی سکیورٹی پر بات کرنے کے بیان پرسرتاج عزیز نے کہا کہ اس معاملے پر بات چیت کافی عرصے سے جاری ہے اورعالمی برداری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افغانستان میں حالات کی بہتری اور استحکام کے لئے جو بھی اقدامات کئے جائیں گے پاکستان اس کا خیرمقدم کرے گا جب کہ امریکی صدر بارک اوباما نے اس بات کے اشارے دیئے ہیں کہ وہ افغانستان میں امن کے لئے بات چیت کے لئے تیار ہیں لیکن اس میں اصل فیصلہ افغان حکومت کا ہے اور اگر افغان حکومت چاہے تو پاکستان امن بحالی کے معاملے میں رابطہ کاری اور تعاون کے لئے تیار ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے امید ظاہر کی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ امریکا سے دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کے ایجنڈے میں تجارت، معیشت، سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبے شامل ہوں گے جب کہ پاکستان دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ امریکی منڈیوں تک رسائی کا بھی خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت میں مثبت رجحانات کے ساتھ پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے مثالی ملک ہے، خطے میں امن و استحکام کے قیام کیلئے پاکستان کے اہم کردار کا اعتراف کیا جارہا ہے اور وزیراعظم کی رہنمائی میں پاکستان ایک متوازن خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکا کے دوران حکام سے جن بنیادی امور پر بات ہوگی ان میں بھارت سے تعلقات، تجارت اور سرمایہ کاری کے کے مواقعوں کے علاوہ افغانستان میں امن کی بحالی شامل ہے اورامریکا کو چاہیئے کہ وہ ایسے اقدامات نہ کرے جو جنوبی ایشیا میں پہلے سے موجود عدم توازن میں اضافے کی وجہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا بھارت کے ساتھ چاہے جیسے تعلقات قائم کرے اس سے کوئی سروکار نہیں لیکن ایسے وقت میں کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے تو امریکا کو چاہیئے کہ علاقے میں روایتی اور اسٹریٹیجک عدم توازن کو اتنا نہ بڑھائے کہ خطے کی سالمیت کے لئے خطرہ بن جائے۔
وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ امریکا ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کریں لیکن بنیادی چیز یہی ہے کہ خطے میں عدم توازن نہ بڑھے تاہم امید ہے کہ بھارت اور پاکستان کو ایک ساتھ ہی نیوکلئیر سپلائر گروپ کا رکن بنایا جائے گا۔ امریکی حکام کی جانب سے پاکستان سے فوری جوہری معاہدے کے امکانات مسترد کیے جانے اور وزیراعظم نواز شریف کے دورے کے دوران جوہری ہتھیاروں کی سکیورٹی پر بات کرنے کے بیان پرسرتاج عزیز نے کہا کہ اس معاملے پر بات چیت کافی عرصے سے جاری ہے اورعالمی برداری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افغانستان میں حالات کی بہتری اور استحکام کے لئے جو بھی اقدامات کئے جائیں گے پاکستان اس کا خیرمقدم کرے گا جب کہ امریکی صدر بارک اوباما نے اس بات کے اشارے دیئے ہیں کہ وہ افغانستان میں امن کے لئے بات چیت کے لئے تیار ہیں لیکن اس میں اصل فیصلہ افغان حکومت کا ہے اور اگر افغان حکومت چاہے تو پاکستان امن بحالی کے معاملے میں رابطہ کاری اور تعاون کے لئے تیار ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے امید ظاہر کی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ امریکا سے دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کے ایجنڈے میں تجارت، معیشت، سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبے شامل ہوں گے جب کہ پاکستان دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ امریکی منڈیوں تک رسائی کا بھی خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت میں مثبت رجحانات کے ساتھ پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے مثالی ملک ہے، خطے میں امن و استحکام کے قیام کیلئے پاکستان کے اہم کردار کا اعتراف کیا جارہا ہے اور وزیراعظم کی رہنمائی میں پاکستان ایک متوازن خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔