انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
اردو میں مختصر افسانے کی روایت منشی پریم چند کے دم سے قائم ہوئی۔ کثیر تعداد میں افسانے لکھے
KARACHI:
اردو میں مختصر افسانے کی روایت منشی پریم چند کے دم سے قائم ہوئی۔ کثیر تعداد میں افسانے لکھے۔ ناولوں کی بھی ایک قطار ان سے منسوب ہے مگر ایک صنف اور ہے جس میں پریم چند نے طبع آزمائی کی۔ مگر اس طبع آزمائی کا ذکر ہماری تنقید میں کم کم آتا ہے۔ بہر حال انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے تھے ان میں سے ایک ڈرامہ اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ اس ڈرامے کا عنوان ہے 'کربلا'۔ یعنی واقعہ کربلا اس ڈرامے کا موضوع ہے۔ ابتدا ہی میں ایک سین ایسا آتا ہے جہاں کچھ ہندو کردار نظر آتے ہیں۔ وہ جو ایک روایت چلی آتی ہے اور جسے فروغ دیا حسینی برہمنوں نے اس روایت سے پریم چند رجوع کرتے نظر آتے ہیں اس سین میں یوں لگتا ہے کہ وہ یہاں ان کرداروں کا تعارف کرا رہے ہیں۔
آگے چل کر وہ ڈرامے میں بڑھ چڑھ کر اپنا رول ادا کرتے نظر آئیں گے۔ ایسا ہوتا تو شاید ڈرامے کی کوئی شکل نکلتی مگر پریم چند یہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ واقعہ کربلا کو اول تا آخر اس ڈرامے میں سمیٹ لیں۔ وہ تو کر نہیں پائے۔ مگر اس چکر میں یہ ہندی کردار جو اس عربی فضا میں ایک امتیازی شان سے نمودار ہوتے نظر آتے ہیں وہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ آگے چل کر ایک سین میں وہ کربلا کی طرف کوچ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد ایسے غائب ہوئے کہ آخر تک ان کی جھلک نظر نہیں آتی۔
انیسؔ اور دبیرؔ کے مرثئے پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں ڈرامائی عناصر بہت ہیں۔ مگر ان عناصر کو ان مرثیہ گویوں ہی نے دریافت کیا اور ان سے فائدہ بھی اٹھایا۔ سو مرثیوں میں بالخصوص انیسؔ کے یہاں جابجا ان کے مرثیہ میں ایک ڈرامائی شان نظر آتی ہے مگر وہ ڈرامہ تو نہیں لکھ رہے تھے مسدس کی شکل میں مرثیہ لکھ رہے تھے۔ اردو میں ڈرامے کی روایت ویسے ہی کمزور رہی ہے۔ سو کوئی ایسا ڈرامہ نگار سامنے نہیں آیا جو ڈرامے کی صنف کو اپنا کر اس واقعہ پر قلم اٹھاتا اور کربلائی ڈرامہ لکھ کر داد حاصل کرتا۔
نثر کی کسی اور صنف میں بھی اس مضمون پر طبع آزمائی نہیں کی گئی۔ ہاں ایک مثال ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ایک افسانہ لکھا۔ عنوان انھوں نے مرزا دبیرؔ کے مرثئے سے لیا۔
قید خانے میں طلاطم ہے کہ ہند آتی ہے۔ یہ افسانہ خود یہ غمازی کرتا نظر آتا ہے کہ یہ واقعہ ایک موثر ڈرامہ بننے کے لیے کسی تخلیق کار کا منتظر ہے۔ قرۃ العین حیدر نے افسانہ لکھا اور اس رنگ سے لکھا کہ شام کے زنداں کی حدیں عہد حاضر کے عقوبت خانوں سے ملتی نظر آتی ہیں مگر ان سے بس ایک مرثائی افسانہ منسوب چلا آتا ہے۔ اس قبیل کی کوئی دوسری تحریر ان کے یہاں نظر نہیں آتی۔
عصمت چغتائی نے البتہ اس واقعہ کو اپنے رنگ سے بیان کرنے کی کوشش کی۔ بیچ بیچ میں وہ اس واقعہ کو افسانے کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں مگر ان کی اس تحریر کو مشکل ہی سے کوئی کامیاب تجربہ کہا جا سکتا ہے۔
ہر پھر کے اس واقعہ نے شاعری ہی میں تخلیقی اظہار کا مرتبہ حاصل کیا ہے۔ اس کے واسطے سے ایک نئی ادبی صنف نے اردو میں نمود کی۔ اور کتنے مراحل سے گزرنے کے بعد اس کی نسبت سے ایک ایسا شاعر نمودار ہوا جو امامباڑے تک محدود نہیں رہا بلکہ اس دہلیز کو پھلانگ کر اردو شاعری کے مرکزی دھارے میں ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے شامل نظر آتا ہے۔ مولانا شبلی کا امتیاز یہ ہے کہ اولاً انھوں نے یہ تاڑا کہ شاعر کس مرتبے کا ہے کہ وہ تو اردو کے بڑے شاعروں کی صف میں جگہ پانے کا مستحق ہے۔
پھر اردو تنقید میں جلد ہی یہ بحث شروع ہو گئی کہ کیا اردو مرثئے کو ایپک یا رزمیہ کے ذیل میں شمار کیا جا سکتا ہے اور کیا انیسؔ کو ہومر' فردوسی اور تلسی داس کی صف میں جگہ مل سکتی ہے۔ کوئی لازم نہیں کہ دو اور دو چار کی صورت میں اس بحث کا نتیجہ برآمد ہو۔ ویسے بھی شاعری دو اور دو چار کی قسم کی شے نہیں ہے۔ بحث کے دروازے کھلے ہیں۔ کوئی بھلا نقاد کسی بھی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔
مسدس کی شکل میں مرثئے کی جو شکل ابھر کر سامنے آئی۔ اردو مرثئے کا مرکزی دھارا تو یہی ہے مگر ضمنی طور پر جو مختصر اصناف نمودار ہوئیں وہ بھی کم اہم نہیں ہیں۔ دو دوسری اصناف ہیں' نوحہ اور سلام ان دو اصناف نے بھی بہت فروغ پایا۔ اور اچھے شاعروں نے ان اصناف میں بھی اپنا تخلیقی جوہر خوب دکھایا۔ سلام نے لگتا ہے کہ غزل کی روایت سے بھی استفادہ کیا ہے اور ایسے ایسے اشعار نکالے ہیں کہ غزل کے بڑے شعروں سے ٹکر لیتے نظر آتے ہیں۔ ناصرؔ کاظمی انیسؔ کے اس شعر پر بہت سر دھنتا تھا ؎
لگایا حرملہ نے تیر جب اصغر کی گردن پر
بہت روئے جو تیر انداز کامل اپنے فن میں تھے
کہ کمبخت نے اپنے ہنر کو کہاں استعمال کیا ہے۔ ایک دوسرا شعر بھی سن لیجیے۔ یہ بھی ناصرؔ کا پسندیدہ شعر تھا ؎
محرم کا جو دیکھا چاند روئی فاطمہ صغرا
پکاری ان دنوں لوگو مرے بابا وطن میں تھے
اور یہ شعر تو آپ نے ضرور سنا ہو گا ؎
انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
اور یہ شعر بھی دیکھئے ؎
یہ بے سبب نہیں خالی گھروں کا سناٹا
مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو
ایسے ہی شعروں کو دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ اگر انیسؔ مرثیہ نگار نہ ہوتا تو اپنے وقت کا بڑا غزل گو ہوتا۔
اردو میں مختصر افسانے کی روایت منشی پریم چند کے دم سے قائم ہوئی۔ کثیر تعداد میں افسانے لکھے۔ ناولوں کی بھی ایک قطار ان سے منسوب ہے مگر ایک صنف اور ہے جس میں پریم چند نے طبع آزمائی کی۔ مگر اس طبع آزمائی کا ذکر ہماری تنقید میں کم کم آتا ہے۔ بہر حال انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے تھے ان میں سے ایک ڈرامہ اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ اس ڈرامے کا عنوان ہے 'کربلا'۔ یعنی واقعہ کربلا اس ڈرامے کا موضوع ہے۔ ابتدا ہی میں ایک سین ایسا آتا ہے جہاں کچھ ہندو کردار نظر آتے ہیں۔ وہ جو ایک روایت چلی آتی ہے اور جسے فروغ دیا حسینی برہمنوں نے اس روایت سے پریم چند رجوع کرتے نظر آتے ہیں اس سین میں یوں لگتا ہے کہ وہ یہاں ان کرداروں کا تعارف کرا رہے ہیں۔
آگے چل کر وہ ڈرامے میں بڑھ چڑھ کر اپنا رول ادا کرتے نظر آئیں گے۔ ایسا ہوتا تو شاید ڈرامے کی کوئی شکل نکلتی مگر پریم چند یہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ واقعہ کربلا کو اول تا آخر اس ڈرامے میں سمیٹ لیں۔ وہ تو کر نہیں پائے۔ مگر اس چکر میں یہ ہندی کردار جو اس عربی فضا میں ایک امتیازی شان سے نمودار ہوتے نظر آتے ہیں وہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ آگے چل کر ایک سین میں وہ کربلا کی طرف کوچ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد ایسے غائب ہوئے کہ آخر تک ان کی جھلک نظر نہیں آتی۔
انیسؔ اور دبیرؔ کے مرثئے پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں ڈرامائی عناصر بہت ہیں۔ مگر ان عناصر کو ان مرثیہ گویوں ہی نے دریافت کیا اور ان سے فائدہ بھی اٹھایا۔ سو مرثیوں میں بالخصوص انیسؔ کے یہاں جابجا ان کے مرثیہ میں ایک ڈرامائی شان نظر آتی ہے مگر وہ ڈرامہ تو نہیں لکھ رہے تھے مسدس کی شکل میں مرثیہ لکھ رہے تھے۔ اردو میں ڈرامے کی روایت ویسے ہی کمزور رہی ہے۔ سو کوئی ایسا ڈرامہ نگار سامنے نہیں آیا جو ڈرامے کی صنف کو اپنا کر اس واقعہ پر قلم اٹھاتا اور کربلائی ڈرامہ لکھ کر داد حاصل کرتا۔
نثر کی کسی اور صنف میں بھی اس مضمون پر طبع آزمائی نہیں کی گئی۔ ہاں ایک مثال ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ایک افسانہ لکھا۔ عنوان انھوں نے مرزا دبیرؔ کے مرثئے سے لیا۔
قید خانے میں طلاطم ہے کہ ہند آتی ہے۔ یہ افسانہ خود یہ غمازی کرتا نظر آتا ہے کہ یہ واقعہ ایک موثر ڈرامہ بننے کے لیے کسی تخلیق کار کا منتظر ہے۔ قرۃ العین حیدر نے افسانہ لکھا اور اس رنگ سے لکھا کہ شام کے زنداں کی حدیں عہد حاضر کے عقوبت خانوں سے ملتی نظر آتی ہیں مگر ان سے بس ایک مرثائی افسانہ منسوب چلا آتا ہے۔ اس قبیل کی کوئی دوسری تحریر ان کے یہاں نظر نہیں آتی۔
عصمت چغتائی نے البتہ اس واقعہ کو اپنے رنگ سے بیان کرنے کی کوشش کی۔ بیچ بیچ میں وہ اس واقعہ کو افسانے کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں مگر ان کی اس تحریر کو مشکل ہی سے کوئی کامیاب تجربہ کہا جا سکتا ہے۔
ہر پھر کے اس واقعہ نے شاعری ہی میں تخلیقی اظہار کا مرتبہ حاصل کیا ہے۔ اس کے واسطے سے ایک نئی ادبی صنف نے اردو میں نمود کی۔ اور کتنے مراحل سے گزرنے کے بعد اس کی نسبت سے ایک ایسا شاعر نمودار ہوا جو امامباڑے تک محدود نہیں رہا بلکہ اس دہلیز کو پھلانگ کر اردو شاعری کے مرکزی دھارے میں ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے شامل نظر آتا ہے۔ مولانا شبلی کا امتیاز یہ ہے کہ اولاً انھوں نے یہ تاڑا کہ شاعر کس مرتبے کا ہے کہ وہ تو اردو کے بڑے شاعروں کی صف میں جگہ پانے کا مستحق ہے۔
پھر اردو تنقید میں جلد ہی یہ بحث شروع ہو گئی کہ کیا اردو مرثئے کو ایپک یا رزمیہ کے ذیل میں شمار کیا جا سکتا ہے اور کیا انیسؔ کو ہومر' فردوسی اور تلسی داس کی صف میں جگہ مل سکتی ہے۔ کوئی لازم نہیں کہ دو اور دو چار کی صورت میں اس بحث کا نتیجہ برآمد ہو۔ ویسے بھی شاعری دو اور دو چار کی قسم کی شے نہیں ہے۔ بحث کے دروازے کھلے ہیں۔ کوئی بھلا نقاد کسی بھی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔
مسدس کی شکل میں مرثئے کی جو شکل ابھر کر سامنے آئی۔ اردو مرثئے کا مرکزی دھارا تو یہی ہے مگر ضمنی طور پر جو مختصر اصناف نمودار ہوئیں وہ بھی کم اہم نہیں ہیں۔ دو دوسری اصناف ہیں' نوحہ اور سلام ان دو اصناف نے بھی بہت فروغ پایا۔ اور اچھے شاعروں نے ان اصناف میں بھی اپنا تخلیقی جوہر خوب دکھایا۔ سلام نے لگتا ہے کہ غزل کی روایت سے بھی استفادہ کیا ہے اور ایسے ایسے اشعار نکالے ہیں کہ غزل کے بڑے شعروں سے ٹکر لیتے نظر آتے ہیں۔ ناصرؔ کاظمی انیسؔ کے اس شعر پر بہت سر دھنتا تھا ؎
لگایا حرملہ نے تیر جب اصغر کی گردن پر
بہت روئے جو تیر انداز کامل اپنے فن میں تھے
کہ کمبخت نے اپنے ہنر کو کہاں استعمال کیا ہے۔ ایک دوسرا شعر بھی سن لیجیے۔ یہ بھی ناصرؔ کا پسندیدہ شعر تھا ؎
محرم کا جو دیکھا چاند روئی فاطمہ صغرا
پکاری ان دنوں لوگو مرے بابا وطن میں تھے
اور یہ شعر تو آپ نے ضرور سنا ہو گا ؎
انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
اور یہ شعر بھی دیکھئے ؎
یہ بے سبب نہیں خالی گھروں کا سناٹا
مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو
ایسے ہی شعروں کو دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ اگر انیسؔ مرثیہ نگار نہ ہوتا تو اپنے وقت کا بڑا غزل گو ہوتا۔