خطرے کی گھنٹی
عمران خان اور بے نظیر اب ایک مقام پر آگئے ہیں جو سبب بے نظیر کی بے پایاں مسرت کا تھا
بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے جلسے کے بعد اتنی خوش کیوں تھیں؟ 27 دسمبر کو ان کے چہرے پر کس قدر اطمینان اور مسرت و شادمانی تھی وہ اس سے قبل نہیں دیکھی گئی۔ دو ہزار سات کی سرد شام کو دارالخلافہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پیپلزپارٹی نے جس قدر شاندار جلسہ کیا وہ بے نظیر کا آخری جلسہ ثابت ہوا۔ وہ اس قدر مطمئن کیوں تھیں؟ وہ جیالوں کے لیے کیا کچھ حاصل کرچکی تھیں؟ دس سالہ جلاوطنی کے بعد دور مشرف میں واپسی پر کراچی میں دھماکا، بہادر خاتون نہ گھبرائی اور انتخابی مہم جاری رکھی، ایک طرف شریف برادران میدان میں تھے تو دوسری طرف بے نظیر بھٹو۔ پنڈی کے جلسے میں دھماکا ہوا اور بی بی ہم میں نہ رہیں۔ انتخابات ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیے گئے، وہی انتخابات جن کا عمران اور جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ پنڈی کے جلسے کے بعد بے نظیر اس قدر خوش کیوں تھیں؟
عمران خان اور بے نظیر اب ایک مقام پر آگئے ہیں جو سبب بے نظیر کی بے پایاں مسرت کا تھا وہ عمران نے حلقہ 122 کے انتخابات میں حاصل کرلیا ہے۔ قارئین سوچ رہے ہوںگے کہ کہاں کی بات کہاں لے آئے۔ کچھ باذوق پڑھنے والے کہیںگے ''مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ'' پنڈی کے بے نظیر کے جلسے اور ایک ضمنی انتخاب میں کیا مماثلت ہے، کچھ جیالے کہیںگے کہ بے نظیر کی خوشی کا سبب بتایا نہیں اور عمران خان کا ذکر اس انتخاب کے حوالے سے کردیا جس میں ان کے امیدوار کو شکست ہوگئی۔پنجاب زندہ دلوں کا علاقہ ہے اور وہ کوئی نہ کوئی سیاسی اور فلمی محبوب ضرور رکھتے ہیں۔ اگر آپ پنجاب کے لوگوں کے عشق کو سمجھ لیں تو آخری جلسے میں بے نظیر کی خوشی کا سبب بھی جان لیںگے اور عمران کو ایک ضمنی انتخاب سے کیا کچھ ملا وہ بھی سمجھ جائیںگے۔ پہلے پنجاب کے سیاسی محبوب، قائداعظم محمد علی جناح پنجاب کی سو سالہ انتخابی تاریخ کے پہلے قائد ہیں جن پر پانچ دریاؤں کی سرزمین کے باسیوں نے اعتماد کیا، پنجابیوں کو قائد کی تحریک لکھنو، ممبئی، سندھ اور بنگال کے بعد سمجھ میں آئی لیکن جب سمجھ میں آئی تو خوب سمجھ میں آئی۔ آج بھی لاہور سے نکلنے والا اخبار قائداعظم کو ''رحمۃ اﷲ علیہ'' لکھتا ہے۔ جب کہ اسی اخبار کے دوسرے شہر کا ایڈیشن بانی پاکستان کے لیے '' ؒ'' لکھ کر کام چلا لیتا ہے یہ تو ہوئی پنجاب کے پہلے سیاسی محبوب کی بات۔ بھٹو ان زندہ دل لوگوں کے دوسرے محبوب تھے۔
کشمیر پر اقوام متحدہ میں تقریر پر پنجابیوں نے بھٹو کو جو دل دے دیا وہ ان کی موت کے بعد اور بی بی کی شہادت تک قائم رہا۔ نواز شریف اہل پنجاب کے پہلے ہم زبان سیاست دان تھے جنھوں نے ان کی محبت حاصل کی۔ کیا یہ محبت ٹمٹاگئی جب حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میں کانٹے دار مقابلے میں نواز شریف کے امیدوار بمشکل کامیاب ہوئے؟ کیا پنجاب رائے ونڈ کو چھوڑ کر اب بنی گالہ کو اپنا سیاسی قبلہ بنانے جارہاہے؟بے نظیر بھٹو کی خوشی سے اٹھنے والا سوال عمران خان سے ہوتا ہوا نواز شریف تک آگیا ہے۔ جیالے، متوالے اور ٹائیگرز، ممکن ہے کالم میں محسوس ہوں کہ اب تک انھیں ان کے سوال کا جواب نہیں ملا۔ 75 فی صد سے زیادہ قارئین ان تین پارٹیوں کے چاہنے والے ہیں۔ جیالے بے نظیر کی خوشی کا سبب جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے آخری دن اس قدر خوش کیوں تھیں؟ ٹائیگرز باخبر ہونا چاہتے ہیں کہ عمران کو ایسی کون سی خوشی ملی ہے جو بے نظیر کو ملی تھی؟ متوالے متلاشی ہیں اس سوال کے جواب کے کہ اہل پنجاب کے دل میں نواز کے لیے جذبات سرد کیوں کر پڑ رہے ہیں؟راولپنڈی کا جلسہ بے نظیر کی زندگی کا آخری جلسہ تھا۔ وہ اس قدر خوش اس لیے تھیں کہ انھوں نے پنجابیوں کے رجحان کو سمجھ لیا تھا۔ وہ جان گئی تھیں کہ شریفوں کی مقبولیت کے باوجود زندہ دلوں کا دل ''جئے بھٹو'' کے نعرے پر دھڑکتا ہے۔
بے نظیر نے اندازہ لگایا تھا کہ اب پنجاب کے میدانوں میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ تقریباً برابر کی سیٹیں دونوں پارٹیوں کو بڑے صوبے میں ملیں گی۔ یوں سندھ میں برتری کے سبب پیپلزپارٹی وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بے نظیر کی خوشی کا سبب صحیح ثابت ہوا۔ 2008 کے انتخابات میں وفاق میں حکومت بنانے کے علاوہ پیپلزپارٹی اپنا اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ لانے میں کامیاب ہوگئی۔عمران کی خوشی کیوں کر بے نظیر کے مقابل قرار دی جاسکتی ہے؟ وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کی طاقت کے باوجود ایاز صادق بمشکل کامیاب ہوسکے۔ ماروی میمن ایک مہینے تک بے نظیر انکم سپورٹ سے ایاز صادق کو سپورٹ کرتی رہیں۔ ریلوے کالونی کے مکینوں کو پکی نوکری کی امید دلا کر ایاز صادق کی سیٹ پکی کرنے کی کوشش کی گئی۔
بے شمار ترقیاتی کاموں کے باوجود لاہور بمشکل میاں برادران کا ہوسکا، یوں اگر پنجاب کے میدانوں میں تحریک انصاف اگر نواز شریف کا برابری کی بنیاد پر مقابلہ کرلیتی ہے تو عمران خان اور بے نظیر میں ایک مماثلت قائم ہوجائے گی۔ پنجاب میں شریفوں کو برابری کی فائٹ دینا دونوں کے لیے ملتی جلتی بات ہوگی۔ یوں اگر پنجاب کے میدانوں میں بنی گالہ اور رائے ونڈ میں زوردار مقابلہ ہوتا ہے تو کے پی کے اور کراچی کی کچھ سیٹوں کی بدولت عمران برتری قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ نواز شریف کے لیے ایاز صادق کے حلقے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، کابینہ کے ممبران کے درمیان برسوں کے اختلاف اور خاندان میں دوسری نسل کی آپس میں چپقلش دیوار پہ لکھی نظر آرہی ہے کیا مسلم لیگ کی قیادت کو چراغ کا ٹمٹانا محسوس ہورہاہے؟کیا انھیں سنائی دے رہی ہے ''خطرے کی گھنٹی''؟
عمران خان اور بے نظیر اب ایک مقام پر آگئے ہیں جو سبب بے نظیر کی بے پایاں مسرت کا تھا وہ عمران نے حلقہ 122 کے انتخابات میں حاصل کرلیا ہے۔ قارئین سوچ رہے ہوںگے کہ کہاں کی بات کہاں لے آئے۔ کچھ باذوق پڑھنے والے کہیںگے ''مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ'' پنڈی کے بے نظیر کے جلسے اور ایک ضمنی انتخاب میں کیا مماثلت ہے، کچھ جیالے کہیںگے کہ بے نظیر کی خوشی کا سبب بتایا نہیں اور عمران خان کا ذکر اس انتخاب کے حوالے سے کردیا جس میں ان کے امیدوار کو شکست ہوگئی۔پنجاب زندہ دلوں کا علاقہ ہے اور وہ کوئی نہ کوئی سیاسی اور فلمی محبوب ضرور رکھتے ہیں۔ اگر آپ پنجاب کے لوگوں کے عشق کو سمجھ لیں تو آخری جلسے میں بے نظیر کی خوشی کا سبب بھی جان لیںگے اور عمران کو ایک ضمنی انتخاب سے کیا کچھ ملا وہ بھی سمجھ جائیںگے۔ پہلے پنجاب کے سیاسی محبوب، قائداعظم محمد علی جناح پنجاب کی سو سالہ انتخابی تاریخ کے پہلے قائد ہیں جن پر پانچ دریاؤں کی سرزمین کے باسیوں نے اعتماد کیا، پنجابیوں کو قائد کی تحریک لکھنو، ممبئی، سندھ اور بنگال کے بعد سمجھ میں آئی لیکن جب سمجھ میں آئی تو خوب سمجھ میں آئی۔ آج بھی لاہور سے نکلنے والا اخبار قائداعظم کو ''رحمۃ اﷲ علیہ'' لکھتا ہے۔ جب کہ اسی اخبار کے دوسرے شہر کا ایڈیشن بانی پاکستان کے لیے '' ؒ'' لکھ کر کام چلا لیتا ہے یہ تو ہوئی پنجاب کے پہلے سیاسی محبوب کی بات۔ بھٹو ان زندہ دل لوگوں کے دوسرے محبوب تھے۔
کشمیر پر اقوام متحدہ میں تقریر پر پنجابیوں نے بھٹو کو جو دل دے دیا وہ ان کی موت کے بعد اور بی بی کی شہادت تک قائم رہا۔ نواز شریف اہل پنجاب کے پہلے ہم زبان سیاست دان تھے جنھوں نے ان کی محبت حاصل کی۔ کیا یہ محبت ٹمٹاگئی جب حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میں کانٹے دار مقابلے میں نواز شریف کے امیدوار بمشکل کامیاب ہوئے؟ کیا پنجاب رائے ونڈ کو چھوڑ کر اب بنی گالہ کو اپنا سیاسی قبلہ بنانے جارہاہے؟بے نظیر بھٹو کی خوشی سے اٹھنے والا سوال عمران خان سے ہوتا ہوا نواز شریف تک آگیا ہے۔ جیالے، متوالے اور ٹائیگرز، ممکن ہے کالم میں محسوس ہوں کہ اب تک انھیں ان کے سوال کا جواب نہیں ملا۔ 75 فی صد سے زیادہ قارئین ان تین پارٹیوں کے چاہنے والے ہیں۔ جیالے بے نظیر کی خوشی کا سبب جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے آخری دن اس قدر خوش کیوں تھیں؟ ٹائیگرز باخبر ہونا چاہتے ہیں کہ عمران کو ایسی کون سی خوشی ملی ہے جو بے نظیر کو ملی تھی؟ متوالے متلاشی ہیں اس سوال کے جواب کے کہ اہل پنجاب کے دل میں نواز کے لیے جذبات سرد کیوں کر پڑ رہے ہیں؟راولپنڈی کا جلسہ بے نظیر کی زندگی کا آخری جلسہ تھا۔ وہ اس قدر خوش اس لیے تھیں کہ انھوں نے پنجابیوں کے رجحان کو سمجھ لیا تھا۔ وہ جان گئی تھیں کہ شریفوں کی مقبولیت کے باوجود زندہ دلوں کا دل ''جئے بھٹو'' کے نعرے پر دھڑکتا ہے۔
بے نظیر نے اندازہ لگایا تھا کہ اب پنجاب کے میدانوں میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ تقریباً برابر کی سیٹیں دونوں پارٹیوں کو بڑے صوبے میں ملیں گی۔ یوں سندھ میں برتری کے سبب پیپلزپارٹی وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بے نظیر کی خوشی کا سبب صحیح ثابت ہوا۔ 2008 کے انتخابات میں وفاق میں حکومت بنانے کے علاوہ پیپلزپارٹی اپنا اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ لانے میں کامیاب ہوگئی۔عمران کی خوشی کیوں کر بے نظیر کے مقابل قرار دی جاسکتی ہے؟ وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کی طاقت کے باوجود ایاز صادق بمشکل کامیاب ہوسکے۔ ماروی میمن ایک مہینے تک بے نظیر انکم سپورٹ سے ایاز صادق کو سپورٹ کرتی رہیں۔ ریلوے کالونی کے مکینوں کو پکی نوکری کی امید دلا کر ایاز صادق کی سیٹ پکی کرنے کی کوشش کی گئی۔
بے شمار ترقیاتی کاموں کے باوجود لاہور بمشکل میاں برادران کا ہوسکا، یوں اگر پنجاب کے میدانوں میں تحریک انصاف اگر نواز شریف کا برابری کی بنیاد پر مقابلہ کرلیتی ہے تو عمران خان اور بے نظیر میں ایک مماثلت قائم ہوجائے گی۔ پنجاب میں شریفوں کو برابری کی فائٹ دینا دونوں کے لیے ملتی جلتی بات ہوگی۔ یوں اگر پنجاب کے میدانوں میں بنی گالہ اور رائے ونڈ میں زوردار مقابلہ ہوتا ہے تو کے پی کے اور کراچی کی کچھ سیٹوں کی بدولت عمران برتری قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ نواز شریف کے لیے ایاز صادق کے حلقے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، کابینہ کے ممبران کے درمیان برسوں کے اختلاف اور خاندان میں دوسری نسل کی آپس میں چپقلش دیوار پہ لکھی نظر آرہی ہے کیا مسلم لیگ کی قیادت کو چراغ کا ٹمٹانا محسوس ہورہاہے؟کیا انھیں سنائی دے رہی ہے ''خطرے کی گھنٹی''؟