استقبال محرم الحرام
61 ہجری کے ماہ محرم میں اس خطہ زمین پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے انسانوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔
MUMBAI:
61 ہجری کے ماہ محرم میں اس خطہ زمین پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے انسانوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ یہ واقعہ کسی طور پر حادثاتی نہیں تھا، بلکہ سوچے سمجھے منصبوبے کے تحت المناک، غمناک اور ظلم کی انتہا کو چھونے والا واقعہ انسانی تاریخ کا ایسا باب بنا کہ مظلومیت اور حق کی سمجھ رکھنے والے انسانوں نے اسے یادگار بنالیا۔ یہ واقعہ حق و باطل کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ اس واقعے میں کائنات کی اس ہستی کا خاندان راہ خدا میں اس مظلومیت کے ساتھ شہید ہوا کہ آج بلاتخصیص مذہب ہر انسان جب اس واقعے پر غور کرتا ہے یا سنتا ہے تو بے اختیار آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ ایسی ہستی کا خاندان اس مظلومیت کے ساتھ مشکلات کا شکار کیا گیا جس کا کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور اس سے محبت کا دعویٰ بھی۔ وہ ہستی خالق کائنات، مالک ارض و سما کی اتنی محبوب ہستی تھی کہ اسے خود پروردگار کائنات جو رب العالمین ہے، رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا، جس نے اللہ کے پیغام کو امانت کے طور پر خدا کے بندوں تک من و عن پہنچایا۔
اس واقعہ کربلا میں نواسۂ رسول، حسین ابن علیؓ نے اس معرکہ کو اس انداز سے سر کیا کہ معجزہ بنادیا، یہی وجہ ہے کہ رہتی دنیا تک ہر روز، ہر ماہ، ہر سال، اس کی مظلومیت کے سوگواران، اس کے عزاداروں میں ناقابل یقین اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سال گزشتہ میں کربلا معلیٰ میں چہلم پر کروڑ عزادار تھے، وہاں کی نہ سڑکیں اتنی چوڑی، نہ بڑے بڑے میدان ہیں، مگر کربلا کی سر زمین کا یہ کمال ہے جتنے بھی عزادار اس زمین پر آجائیں یہ زمین تنگ نہیں پڑتی، نہ وہاں پانی کم پڑتا ہے، نہ غذا، ہر ایک شخص سب کا احترام کرتا ہے، اور خاص طور پر حسینؓ کا عزادار سمجھ کر۔ اگر ہم پاکستانیوں میں بھی ایسا ہی جذبہ پیدا ہوجائے تو تمام مذاہب کے مسلمانوں میں، ان کی رسومات میں، ان کے جلسے و جلوس میں کبھی سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ دنیا کا وہ کون سا مسلمان ہے جو نواسہ رسول ؐ حسین ابن علیؓ کی قربانی کا احترام نہ کرتا ہو۔ ہر مکتبہ فکر کے لوگ اپنے اپنے بزرگوں کی روایت کے مطابق ایام عاشورہ میں حسین ابن علیؓ کی یاد میں کچھ نہ کچھ ضرور کرتے ہیں۔
ہمارا فرض ہے کہ ان کی ہر ممکن مدد کریں، کم از کم ان کے جان و مال کو محفوظ بنائیں۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے پاکستان کو علیحدہ مملکت اس لیے بنایا تھا کہ یہاں مسلمان بلاخوف و خطر اپنے اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق آزادی سے مذہبی رسومات ادا کریں، جس کا سلسلہ آزادی کے 20 سال تک تو بہت بہتر رہا، مگر گزشتہ کئی برسوں سے اس میں اتنے اختلاف پیدا ہوئے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی۔ حالانکہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کے پیچھے پڑگئے اور ہم دنیا میں اس قابل نہ رہے کہ فخر سے کہتے دیکھو مملکت خداداد پاکستان میں تمام مسلمان اور غیر مسلم شیر و شکر ہیں۔ یہ تمام نفرتیں اور اختلافات، انتہاپسند ہندو اور انتہاپسند یہودیوں کی سازش کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہماری ریاست کی ذمے داری ہے کہ ان کی سرکوبی کرے اور ہم تمام پاکستانیوں کی ذمے داری ہے کہ ان کی کسی قسم کی معاونت نہ کی جائے، نہ ہی ہمت افزائی کی جائے، اور خاص طور پر تمام فرقوں کے علما، فضلا، شیخ صاحبان کا فرض ہے کہ وہ اپنی تقریر اور تحریر سے تمام لوگوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کریں۔ ہر ایک مذہب کا احترام کیا جائے۔ اگر بااثر لوگ اس معاملے میں یہ سمجھ کر حصہ لیں کہ ہمیں محرم الحرام میں ہر سوگواران حسین کا احترام کرنا ہے، اور ہر ایک کو اپنے اپنے انداز میں کربلا کی یاد منانے کا آزادانہ حق ہے، توکوئی وجہ نہیں کہ ہمیں مسجدوں، امام بارگاہوں میں نماز یا عزاداری کے وقت سیکیورٹی کے انتظامات کرنے پڑیں۔
حکومت وقت کی بڑی ذمے داری ہے کہ وہ ان ایام عزا میں ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔ خاص طور پر ان علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں بڑی مجالس اور جلوس کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان شاہراہوں کے اردگرد کی عمارتوں، دکانوں پر نظر رکھی جائے جہاں سے شرپسندوں کا خطرہ ہو۔ یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ سوگواران حسین اپنی مجالس اور جلوس کے لیے خود سیکیورٹی انتظامات کرتے ہیں اور حکومت کے سیکیورٹی پر بوجھ کم ہوجاتا ہے، مگر اولین ذمے داری ان کی ہے کہ ہر ممکن حفاظتی انتظامات ہوں۔
پاکستان میں فلاحی اداروں میں ایدھی، خدمت خلق فاؤنڈیشن، چھیپا، جے ڈی سی اور بہت سی فلاحی تنظیمیں ہر ممکن مدد کرتی ہیں، جس کو ملت بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ حال ہی میں ایک اور ادارہ متعارف ہوا جس کا نام شیعہ سیکیورٹی ہے، جو سیرت عباس کی نگرانی میں کام کرتا ہے، جس کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے اور ڈرون کیمرے تک سپلائی کیے، انھوں نے اپنا ایک کنٹرول روم جعفرطیار سوسائٹی میں بنایا اور بڑے موثر انداز میں ان کا شیعہ سیفٹی کا ادارہ کام کررہا ہے۔ اسی طرح حکومت کو بھی چاہیے کہ پورے شہر کے تمام اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرے اور ان کی چیکنگ کرے کہ وہ ہر وقت کام کریں۔ بہت سے الیکٹرانک میڈیا کے چینل کے پاس بھی کیمرے اور ڈرون کیمرے ہیں، ان کو بھی اس میں ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے، خاص طور پر مجلس اور جلوس میں مشکوک لوگوں پر نگاہ رکھی جائے، ہر جگہ سرچنگ کا انتظام ہو اور لوگوں کو چاہیے تلاشی کے وقت تعاون کریں۔ ہر آنے اور جانے والے راستوں پر واک تھرو گیٹ لگائے جائیں۔ قوم یہ امید رکھتی ہے کہ رینجرز کا ادارہ، پولیس کا محکمہ ہو یا خفیہ ادارے، سب میں اتنا تعاون ہو کہ شرپسند کوئی قدم نہ اٹھا سکیں، اگر اٹھائے تو اسے گرفتار کرنے میں کوئی ناکامی نہ ہو۔
61 ہجری کے ماہ محرم میں اس خطہ زمین پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے انسانوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ یہ واقعہ کسی طور پر حادثاتی نہیں تھا، بلکہ سوچے سمجھے منصبوبے کے تحت المناک، غمناک اور ظلم کی انتہا کو چھونے والا واقعہ انسانی تاریخ کا ایسا باب بنا کہ مظلومیت اور حق کی سمجھ رکھنے والے انسانوں نے اسے یادگار بنالیا۔ یہ واقعہ حق و باطل کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ اس واقعے میں کائنات کی اس ہستی کا خاندان راہ خدا میں اس مظلومیت کے ساتھ شہید ہوا کہ آج بلاتخصیص مذہب ہر انسان جب اس واقعے پر غور کرتا ہے یا سنتا ہے تو بے اختیار آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ ایسی ہستی کا خاندان اس مظلومیت کے ساتھ مشکلات کا شکار کیا گیا جس کا کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور اس سے محبت کا دعویٰ بھی۔ وہ ہستی خالق کائنات، مالک ارض و سما کی اتنی محبوب ہستی تھی کہ اسے خود پروردگار کائنات جو رب العالمین ہے، رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا، جس نے اللہ کے پیغام کو امانت کے طور پر خدا کے بندوں تک من و عن پہنچایا۔
اس واقعہ کربلا میں نواسۂ رسول، حسین ابن علیؓ نے اس معرکہ کو اس انداز سے سر کیا کہ معجزہ بنادیا، یہی وجہ ہے کہ رہتی دنیا تک ہر روز، ہر ماہ، ہر سال، اس کی مظلومیت کے سوگواران، اس کے عزاداروں میں ناقابل یقین اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سال گزشتہ میں کربلا معلیٰ میں چہلم پر کروڑ عزادار تھے، وہاں کی نہ سڑکیں اتنی چوڑی، نہ بڑے بڑے میدان ہیں، مگر کربلا کی سر زمین کا یہ کمال ہے جتنے بھی عزادار اس زمین پر آجائیں یہ زمین تنگ نہیں پڑتی، نہ وہاں پانی کم پڑتا ہے، نہ غذا، ہر ایک شخص سب کا احترام کرتا ہے، اور خاص طور پر حسینؓ کا عزادار سمجھ کر۔ اگر ہم پاکستانیوں میں بھی ایسا ہی جذبہ پیدا ہوجائے تو تمام مذاہب کے مسلمانوں میں، ان کی رسومات میں، ان کے جلسے و جلوس میں کبھی سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ دنیا کا وہ کون سا مسلمان ہے جو نواسہ رسول ؐ حسین ابن علیؓ کی قربانی کا احترام نہ کرتا ہو۔ ہر مکتبہ فکر کے لوگ اپنے اپنے بزرگوں کی روایت کے مطابق ایام عاشورہ میں حسین ابن علیؓ کی یاد میں کچھ نہ کچھ ضرور کرتے ہیں۔
ہمارا فرض ہے کہ ان کی ہر ممکن مدد کریں، کم از کم ان کے جان و مال کو محفوظ بنائیں۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے پاکستان کو علیحدہ مملکت اس لیے بنایا تھا کہ یہاں مسلمان بلاخوف و خطر اپنے اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق آزادی سے مذہبی رسومات ادا کریں، جس کا سلسلہ آزادی کے 20 سال تک تو بہت بہتر رہا، مگر گزشتہ کئی برسوں سے اس میں اتنے اختلاف پیدا ہوئے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی۔ حالانکہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کے پیچھے پڑگئے اور ہم دنیا میں اس قابل نہ رہے کہ فخر سے کہتے دیکھو مملکت خداداد پاکستان میں تمام مسلمان اور غیر مسلم شیر و شکر ہیں۔ یہ تمام نفرتیں اور اختلافات، انتہاپسند ہندو اور انتہاپسند یہودیوں کی سازش کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہماری ریاست کی ذمے داری ہے کہ ان کی سرکوبی کرے اور ہم تمام پاکستانیوں کی ذمے داری ہے کہ ان کی کسی قسم کی معاونت نہ کی جائے، نہ ہی ہمت افزائی کی جائے، اور خاص طور پر تمام فرقوں کے علما، فضلا، شیخ صاحبان کا فرض ہے کہ وہ اپنی تقریر اور تحریر سے تمام لوگوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کریں۔ ہر ایک مذہب کا احترام کیا جائے۔ اگر بااثر لوگ اس معاملے میں یہ سمجھ کر حصہ لیں کہ ہمیں محرم الحرام میں ہر سوگواران حسین کا احترام کرنا ہے، اور ہر ایک کو اپنے اپنے انداز میں کربلا کی یاد منانے کا آزادانہ حق ہے، توکوئی وجہ نہیں کہ ہمیں مسجدوں، امام بارگاہوں میں نماز یا عزاداری کے وقت سیکیورٹی کے انتظامات کرنے پڑیں۔
حکومت وقت کی بڑی ذمے داری ہے کہ وہ ان ایام عزا میں ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔ خاص طور پر ان علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں بڑی مجالس اور جلوس کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان شاہراہوں کے اردگرد کی عمارتوں، دکانوں پر نظر رکھی جائے جہاں سے شرپسندوں کا خطرہ ہو۔ یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ سوگواران حسین اپنی مجالس اور جلوس کے لیے خود سیکیورٹی انتظامات کرتے ہیں اور حکومت کے سیکیورٹی پر بوجھ کم ہوجاتا ہے، مگر اولین ذمے داری ان کی ہے کہ ہر ممکن حفاظتی انتظامات ہوں۔
پاکستان میں فلاحی اداروں میں ایدھی، خدمت خلق فاؤنڈیشن، چھیپا، جے ڈی سی اور بہت سی فلاحی تنظیمیں ہر ممکن مدد کرتی ہیں، جس کو ملت بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ حال ہی میں ایک اور ادارہ متعارف ہوا جس کا نام شیعہ سیکیورٹی ہے، جو سیرت عباس کی نگرانی میں کام کرتا ہے، جس کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے اور ڈرون کیمرے تک سپلائی کیے، انھوں نے اپنا ایک کنٹرول روم جعفرطیار سوسائٹی میں بنایا اور بڑے موثر انداز میں ان کا شیعہ سیفٹی کا ادارہ کام کررہا ہے۔ اسی طرح حکومت کو بھی چاہیے کہ پورے شہر کے تمام اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرے اور ان کی چیکنگ کرے کہ وہ ہر وقت کام کریں۔ بہت سے الیکٹرانک میڈیا کے چینل کے پاس بھی کیمرے اور ڈرون کیمرے ہیں، ان کو بھی اس میں ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے، خاص طور پر مجلس اور جلوس میں مشکوک لوگوں پر نگاہ رکھی جائے، ہر جگہ سرچنگ کا انتظام ہو اور لوگوں کو چاہیے تلاشی کے وقت تعاون کریں۔ ہر آنے اور جانے والے راستوں پر واک تھرو گیٹ لگائے جائیں۔ قوم یہ امید رکھتی ہے کہ رینجرز کا ادارہ، پولیس کا محکمہ ہو یا خفیہ ادارے، سب میں اتنا تعاون ہو کہ شرپسند کوئی قدم نہ اٹھا سکیں، اگر اٹھائے تو اسے گرفتار کرنے میں کوئی ناکامی نہ ہو۔