امن کی خواہش
ہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
لاہور:
بھارت نے وزیر اعظم محمد نوازشریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جانے والا چار نکاتی امن فارمولا مسترد کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ بھارت خطے میں امن نہیں چاہتا۔ بھارت نے امن مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکرا کر الٹا پاکستان پر یہ الزام عائدکیا ہے کہ وہ پہلے دہشت گردی چھوڑ دے ۔ یہ کتنا مضحکہ خیز الزام ہے جو ملک خود دہشت گردی کا شکار ہو اور جس کی بہادر افواج دہشت گردوں سے جنگ میں عظیم الشان قربانیاں دے رہی ہو اور جس ملک کو دہشتگردی سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہو اس ملک پر دہشتگردی کا الزام عائد دیوانے کی بڑ ہی کہا جاسکتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
بلوچستان سے کراچی اور خاص طور پر قبائلی علاقہ جات میں بھارت کے ایجنٹ دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جس کے ثبوت بھی حکومت پاکستان نے کئی فورم پر فراہم کردیے ہیں۔ دوسری جانب بھارت پاکستان کی سرحدوں پر مسلسل بلا اشتعال فائرنگ کرتا رہا ہے جس میں کئی بے گناہ شہری بھی شہید ہوچکے ہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف جنگی ماحول بنانے کی پوری کوشش کرتا رہا ہے ایسے میں پاکستان کے منتخب وزیراعظم محمد نوازشریف کی جانب سے صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار نکاتی امن فارمولا پیش کرنا خطے میں قیام امن کے لیے بہترین موقع تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70 ویں سالانہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے جب چار نکاتی امن فارمولا پیش کیا اس کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا کیونکہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کے خطاب کو متانت، تدبر اور سچائی پر مبنی سوچ اور باوقارو متوازن انداز بیان کا مرقع کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کشمیر اور فلسطین سمیت کئی موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا لیکن خاص طور پر پاکستان کی طرف سے بار باردیے جانے والے پیغام امن کا پھر اعادہ کیا۔ان کے چار نکاتی امن فارمولے کے بنیادی نکات یہ تھے کہ لائن آف کنٹرول پر 2003 کے معاہدے کے تحت مکمل فائر بندی کی جائے، طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دی جائیں،کشمیر سے بھارتی فوج کو نکالا جائے، سیاچن کو خالی کیا جائے اور غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے۔ بھارت کی حکومت جو مسلسل محاذ آرائی کا ماحول پیدا کررہی ہے، اس کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ قیام امن کے لیے مذاکرات کا آغاز کرے۔ لیکن صد افسوس بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور یہ موقع ضایع کردیا، حالانکہ امن جتنا پاکستان کے لیے ضروری ہے، بھارت کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس لیے بھارت کو چار نکاتی فارمولے پر بھارت سمیت پورے خطے کے مفادات سامنے رکھ کر متانت وسنجیدگی کے ساتھ غورکرتا اور اسے رویہ عمل لانا چاہیے تھا۔
دراصل جنوبی ایشیا تیزی سے عالمی امن کے لیے تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے اس لیے دنیا بھر کے امن پسند حلقوں کو اس چار نکاتی فارمولے پر بھارت کی جانب سے مثبت ردعمل کی توقع تھی۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے اپنے خطاب میں واضح انداز سے کہا کہ ہم پر امن ہمسائیگی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تاہم پاکستان جب تخریب کاری کے پیچھے بھارت کے خفیہ ادارے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے متعدد بارکوششیں کیں۔ بھارت سے جامع مذاکرات کشمیر اور قیام امن کے لیے شروع کیے گئے لیکن ہمارا اولین ہمسایہ خطے اور پاکستان میں امن نہیں چاہتا۔ لائن آف کنٹرول پر جارحیت اورکشیدگی بڑھتی جارہی ہے، سرحد کی کشیدگی روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کو مزید مضبوط بنایا جانا چاہیے۔ کچھ ممالک نے عوام کے حق خودادایت کو کچل کر رکھا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا گیا، قراردادوں پر عمل نہ ہونا اور مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ کی ناکامی ہے۔ کشمیریوں کی تین نسلوں کو شکستہ وعدہوں اور جابرانہ اقدام کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وزیر اعظم نوازشریف نے افغانستان سے تعلقات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کررہا ہے
۔ ہم وہاں استحکام چاہتے ہیں، افغان حکومت اور طالبات کے مذاکرات تناؤ کا شکار ہوگئے۔ پاکستان معطل شدہ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر بھی کیا۔ لیکن جنرل اسمبلی سے خطاب میں ان کا سب سے اہم موضوع بھارت کا جنگی جنون ہی تھا۔ جو پاکستان سمیت کوئی پڑوسی ملکوں سے جنگی عزائم رکھتا ہے اور افغانستان میں ایک مخصوص لابی کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ بلاشبہ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں بھارت کے مکروہ چہرہ بڑے ہی احسن طریقے سے دنیا کو دکھایا ہے۔ بھارت مسلسل یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ کسی طرح سلامتی کونسل کا رکن بن جائے لیکن جس ملک نے آج تک سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل نہیں کیا اورکشمیریوں کی تیسری نسل آج بھی بھارتی دہشتگردی اور ریاستی ظلم کو سہہ رہی ہے اسے سلامتی کونسل کا رکن بننا زیب نہیں دیتا۔ دراصل یہ اقوام متحدہ کی ناکامی ہے ان قراردادوں کا تقاضا ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے کردیا جائے اورکشمیری خود اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔
لیکن بھارت مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر میں استصواب رائے کرانے سے راہ فرار اختیار کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب وہ کشمیروں کو مسلسل ظلم کا نشانہ بنانے کے بجائے کشمیر میں ہندوؤں کو آباد کرکے آبادی کا توازن بگاڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسے نہ تو مہذب دنیا کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان اور کشمیری صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کے جارحانہ اور مخالفانہ رویے کے باوجود پاکستانی وزیر اعظم نے جنگ نہ کرنے اور مذاکرات کا عمل بحال کرنے کے لیے ایک قابل عمل چار نکاتی امن فارمولا پیش کرکے اپنی امن کی خواہش کا بھرپور انداز سے اظہار کردیا۔ اس فارمولے پر عمل درآمد کرکے بھارت امن کی راہ ہموار کرسکتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چار نکاتی امن فارمولے کو مسترد کرنے کے بعد بیشتر تجزیہ نگار اس بات پر متوقع ہیں کہ اس بھارتی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال جوں کی توں چلتی رہے گی۔ بھارت اب بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرکے اور باہمی اختلافات کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے میں تاخیر سے کام نہ لے۔
بھارت نے وزیر اعظم محمد نوازشریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جانے والا چار نکاتی امن فارمولا مسترد کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ بھارت خطے میں امن نہیں چاہتا۔ بھارت نے امن مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکرا کر الٹا پاکستان پر یہ الزام عائدکیا ہے کہ وہ پہلے دہشت گردی چھوڑ دے ۔ یہ کتنا مضحکہ خیز الزام ہے جو ملک خود دہشت گردی کا شکار ہو اور جس کی بہادر افواج دہشت گردوں سے جنگ میں عظیم الشان قربانیاں دے رہی ہو اور جس ملک کو دہشتگردی سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہو اس ملک پر دہشتگردی کا الزام عائد دیوانے کی بڑ ہی کہا جاسکتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
بلوچستان سے کراچی اور خاص طور پر قبائلی علاقہ جات میں بھارت کے ایجنٹ دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جس کے ثبوت بھی حکومت پاکستان نے کئی فورم پر فراہم کردیے ہیں۔ دوسری جانب بھارت پاکستان کی سرحدوں پر مسلسل بلا اشتعال فائرنگ کرتا رہا ہے جس میں کئی بے گناہ شہری بھی شہید ہوچکے ہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف جنگی ماحول بنانے کی پوری کوشش کرتا رہا ہے ایسے میں پاکستان کے منتخب وزیراعظم محمد نوازشریف کی جانب سے صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار نکاتی امن فارمولا پیش کرنا خطے میں قیام امن کے لیے بہترین موقع تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70 ویں سالانہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے جب چار نکاتی امن فارمولا پیش کیا اس کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا کیونکہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کے خطاب کو متانت، تدبر اور سچائی پر مبنی سوچ اور باوقارو متوازن انداز بیان کا مرقع کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کشمیر اور فلسطین سمیت کئی موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا لیکن خاص طور پر پاکستان کی طرف سے بار باردیے جانے والے پیغام امن کا پھر اعادہ کیا۔ان کے چار نکاتی امن فارمولے کے بنیادی نکات یہ تھے کہ لائن آف کنٹرول پر 2003 کے معاہدے کے تحت مکمل فائر بندی کی جائے، طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دی جائیں،کشمیر سے بھارتی فوج کو نکالا جائے، سیاچن کو خالی کیا جائے اور غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے۔ بھارت کی حکومت جو مسلسل محاذ آرائی کا ماحول پیدا کررہی ہے، اس کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ قیام امن کے لیے مذاکرات کا آغاز کرے۔ لیکن صد افسوس بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور یہ موقع ضایع کردیا، حالانکہ امن جتنا پاکستان کے لیے ضروری ہے، بھارت کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس لیے بھارت کو چار نکاتی فارمولے پر بھارت سمیت پورے خطے کے مفادات سامنے رکھ کر متانت وسنجیدگی کے ساتھ غورکرتا اور اسے رویہ عمل لانا چاہیے تھا۔
دراصل جنوبی ایشیا تیزی سے عالمی امن کے لیے تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے اس لیے دنیا بھر کے امن پسند حلقوں کو اس چار نکاتی فارمولے پر بھارت کی جانب سے مثبت ردعمل کی توقع تھی۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے اپنے خطاب میں واضح انداز سے کہا کہ ہم پر امن ہمسائیگی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تاہم پاکستان جب تخریب کاری کے پیچھے بھارت کے خفیہ ادارے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے متعدد بارکوششیں کیں۔ بھارت سے جامع مذاکرات کشمیر اور قیام امن کے لیے شروع کیے گئے لیکن ہمارا اولین ہمسایہ خطے اور پاکستان میں امن نہیں چاہتا۔ لائن آف کنٹرول پر جارحیت اورکشیدگی بڑھتی جارہی ہے، سرحد کی کشیدگی روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کو مزید مضبوط بنایا جانا چاہیے۔ کچھ ممالک نے عوام کے حق خودادایت کو کچل کر رکھا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا گیا، قراردادوں پر عمل نہ ہونا اور مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ کی ناکامی ہے۔ کشمیریوں کی تین نسلوں کو شکستہ وعدہوں اور جابرانہ اقدام کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وزیر اعظم نوازشریف نے افغانستان سے تعلقات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کررہا ہے
۔ ہم وہاں استحکام چاہتے ہیں، افغان حکومت اور طالبات کے مذاکرات تناؤ کا شکار ہوگئے۔ پاکستان معطل شدہ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر بھی کیا۔ لیکن جنرل اسمبلی سے خطاب میں ان کا سب سے اہم موضوع بھارت کا جنگی جنون ہی تھا۔ جو پاکستان سمیت کوئی پڑوسی ملکوں سے جنگی عزائم رکھتا ہے اور افغانستان میں ایک مخصوص لابی کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ بلاشبہ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں بھارت کے مکروہ چہرہ بڑے ہی احسن طریقے سے دنیا کو دکھایا ہے۔ بھارت مسلسل یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ کسی طرح سلامتی کونسل کا رکن بن جائے لیکن جس ملک نے آج تک سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل نہیں کیا اورکشمیریوں کی تیسری نسل آج بھی بھارتی دہشتگردی اور ریاستی ظلم کو سہہ رہی ہے اسے سلامتی کونسل کا رکن بننا زیب نہیں دیتا۔ دراصل یہ اقوام متحدہ کی ناکامی ہے ان قراردادوں کا تقاضا ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے کردیا جائے اورکشمیری خود اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔
لیکن بھارت مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر میں استصواب رائے کرانے سے راہ فرار اختیار کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب وہ کشمیروں کو مسلسل ظلم کا نشانہ بنانے کے بجائے کشمیر میں ہندوؤں کو آباد کرکے آبادی کا توازن بگاڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسے نہ تو مہذب دنیا کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان اور کشمیری صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کے جارحانہ اور مخالفانہ رویے کے باوجود پاکستانی وزیر اعظم نے جنگ نہ کرنے اور مذاکرات کا عمل بحال کرنے کے لیے ایک قابل عمل چار نکاتی امن فارمولا پیش کرکے اپنی امن کی خواہش کا بھرپور انداز سے اظہار کردیا۔ اس فارمولے پر عمل درآمد کرکے بھارت امن کی راہ ہموار کرسکتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چار نکاتی امن فارمولے کو مسترد کرنے کے بعد بیشتر تجزیہ نگار اس بات پر متوقع ہیں کہ اس بھارتی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال جوں کی توں چلتی رہے گی۔ بھارت اب بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرکے اور باہمی اختلافات کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے میں تاخیر سے کام نہ لے۔