بچوں کا موازنہ غلط ہے

والدین کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے، کہ تمام بچے ایک جیسی صلاحیتوں کے حامل نہیں ہوتے۔

والدین کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے، کہ تمام بچے ایک جیسی صلاحیتوں کے حامل نہیں ہوتے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
بہن بھائی ایک جیسے بھی ہو سکتے ہیں اور مختلف بھی۔ جب کوئی بچہ اپنے دوسرے بہن بھائی کے مقابلے میں ذہنی یا جسمانی طور پر بہتر یا کم تر ہوتا ہے، تو بد قسمتی سے والدین اپنے ہی بچوں کے درمیان موازنہ شروع کر دیتے ہیں۔ جب وہ اس کا کھلے عام اظہار کرتے ہیں، تو اس کے نتائج کافی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس کا براہ راست اثر بچوں پر پڑتا ہے۔

والدین کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے، کہ تمام بچے ایک جیسی صلاحیتوں کے حامل نہیں ہوتے۔ ہر بچے کی ذہنی سطح مختلف ہوتی ہے۔ ایک بچہ بہت ذہین ہوگا، تو دوسراشاید اتنا نہ ہو یا بالکل بھی نہ ہو۔ ایسی صورت میں دوسرے بچے کو بھی پہلے بچے جیسی کارکردگی دکھانے اور اسے مسلسل دباؤ میں رکھنے کی کوشش مناسب نہیں۔ دوسرا بچہ پہلے بچے جیسی کارکردگی دکھانے یا اس کی مانند کچھ کر کے دکھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کسی بچے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانا اور اس کا ، اس کے بہن یا بھائی کے ساتھ موازنہ کرنا اس کی تحقیر اور بے قدری کا باعث ہوتا ہے اور اس کے نتائج مزید بدتر نکل سکتے ہیں۔

ذہانت کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں اور ہر بچہ ذہانت کے اعتبار سے منفرد ہوتا ہے اور اس کے اندر اپنی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم بچے کو مکمل طور پر دیکھیں، سمجھیں اور پرکھیں۔ یہ نہ کریں کہ صرف اس کی ذہانت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لے کر رہ جائیں، جو ہمارے خیال کے مطابق اہم ہیں۔ بچے کا بھرپور جائزہ لینے کے لیے صبر و استقامت اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔


بچوں میں بلوغت اور ان کی اٹھان کے ساتھ تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔ والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ ان سے غیر مشروط طریقے سے محبت کریں ان کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کریں، تو وہ اپنی مخفی صلاحیتوں کی تکمیل کے قابل بھی ہو سکتے ہیں اور اگر والدین کا رویہ اس کے برعکس ہوا، تو ان کی آزاد طبعی یا بالیدگی میں رکاوٹ پیدا ہو جائے گی اور نتیجتاً وہ ایک منتشر شخصیت کے حامل بن سکتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بہن بھائیوں کا آپس میں مسلسل موازنہ کرنے سے ان کے درمیان حسد کے جذبے کو فروغ ملتا ہے۔ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور ان میں حد سے زیادہ مقابلہ آرائی ہونے لگتی ہے۔ جب والدین اس قسم کے معاملات کو معمول کا حصہ بنالیں اور وقفے وقفے سے اپنے ذہنی یا جسمانی طور پر کمزور بچے کا موازنہ اس کے دوسرے صحت مند اور ذہین بھائی، بہنوں سے کرنا شروع کر دیں، تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے درمیان آپس میں ایک بھرپور چاہت اور محبت کے رشتے سے منکر ہو رہے ہیں، جوکہ آیندہ زندگی بھر ان کے لیے مددگار اور حوصلہ افزا ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ یہ تو طے ہے کہ زندگی میں بہن بھائیوں کو کبھی نہ کبھی ایک دوسرے کی عملی، زبانی، مالی اور اخلاقی مدد کی ضرورت پیش آہی جاتی ہے۔

بچے کو مکمل طور پر اس کی خوبیوں اور خامیوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا، تو اس کا مطلب یہ ہوگا، کہ ہم اس بچے کو اس کی بھرپور صلاحیتوں کا احساس دلانے میں مدد نہیں کر رہے۔ مثال کے طور پر اسکول کے بعض مسائل بھی شدت اختیار کر جاتے ہیں اور جو بچہ دوسرے بچوں سے مسلسل پیچھے رہتا ہے، اسے طبعی مسائل بھی پیش آسکتے ہیں۔ جیسے کہ اینمیا کے مریض ایک بچے میں توانائی کی کمی اور کلاس میں کم توجہ کی شکایت ہو سکتی ہے۔ اسی بنا پر وہ پڑھائی میں بھی پیچھے ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وہ بچے جنہیں اپنی کلاس کے ساتھ چلنے میں دشواری پیش آتی ہے، ان کا مکمل فزیکل چیک اپ ضرور ہونا چاہیے۔ اسی طرح والدین کو چاہیے، کہ وہ بچوں میں اچانک رونما ہونے والی تبدیلی کو ہرگز نظرانداز نہ کریں۔ اگر کسی بچے کا اسکول کے بارے میں رویہ منفی ہو جاتا ہے، وہ اپنے اساتذہ کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے، اپنے ہوم ورک کو نظرانداز کر دیتا ہے، اس کی کارکردگی بدتر ہونے لگتی ہے، تو پھر والدین کو سمجھ لینا چاہیے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے۔

بچے کے اساتذہ سے ملاقات اور بچے کے مسائل کے بارے میں گفتگو کرنے سے پہلے اپنے رویے پر نظر ڈالنی ہوگی۔ کبھی بھی ایسا محسوس نہ ہونے دیں کہ آپ کا پیار بچے کے لیے اسی صورت میں ہوگا جب وہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ ہر صورت میں مثبت رویہ اختیار کریں۔ چاہے بچے کی کارکردگی بہتر ہو یا ناقص۔ کبھی بھی مایوسی کا اظہار نہ کریں۔ اگر وہ تھوڑی سی محنت کر لے تو یقیناً آیندہ اسے کام یابی حاصل ہو سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین صرف تعلیم کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہیں اور ان کے ذہن میں بس یہی دھن سوار رہتی ہے کہ ان کے بچے ڈاکٹر، انجینئر یا کوئی بڑے افسر وغیرہ بن جائیں۔ اکثر والدین سوچتے ہیں کہ ان کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی ان کی سماجی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے، یہ مکمل طور پر خود پسندانہ اور اپنی ذات کی تسکین کی سوچ ہے، لہٰذا والدین کو اس طرح سوچنے سے گریز کرنا چاہیے۔

والدین اپنے ہر بچے کو اپنے لیے خوشی اور لطف کا سبب سمجھیں، اپنے ہر بچے سے محبت کریں، چاہے اس کی کارکردگی جیسی بھی ہو۔ ذہین ہو یا کند ذہن، باصلاحیت ہو یا ناکارہ، معذور ہو یا صحت مند۔ اپنے بچوں کے درمیان عدم مطابقت اور مختلف صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہونا سیکھیے۔ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ آج کی دنیا میں کام یابی کے کئی راستے ہیں اور آپ کا بچہ کوئی بھی مخصوص دل چسپی کا راستہ اختیار کر کے اس میں نمایاں کام یابی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر آپ اس کی حوصلہ افزائی کریں اور یہ دیکھیں کہ اس کی صلاحیت کو نمو مل رہی ہے یا نہیں۔ اسے یہ یقین دلائیں کہ وہ بڑا ہوکر ایک بااعتماد شخص ثابت ہوگا جو رسک لینے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرے گا، لہٰذا بچوں کے درمیان موازنہ کرنے سے گریز کریں اور انہیں ہر وقت ایک دوسرے سے مسابقت پر نہ اکسائیں۔ ہر بچے کی اپنی شخصیت اور صلاحیت ہوتی ہے، سارے بچے ایک جیسی صلاحیت کے حامل نہیں ہو سکتے۔ اور نہ ہی سارے بچے ایک جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، اس لیے والدین اپنے بچوں کے ساتھ موازنہ کرنے کی خطرناک غلطی نہ کریں۔
Load Next Story