کیا یہ درست ہے
لڑکی کی رضا کو بھی اولیت دی جائے
KARACHI:
زندگی کے سفر میں ہماری ملاقات اَن گنت لوگوں سے ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ہماری زندگی کو گُل زار بنا دیتے ہیں، تو کچھ کتاب زیست کے صفحوں پر غم کی وہ طویل داستان رقم کر دیتے ہیں کہ جس کو پڑھتے پڑھتے ہماری زندگی بیت جاتی ہے۔
کچھ لوگوں کو ہم بھول جاتے ہیں، تو کچھ لوگ ہمیں یاد نہیں رکھتے اور پھر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہی لوگوں کے جھرمٹ میں کوئی ایسا چہرہ ہمارے سامنے آجاتا ہے، جو اجنبی ہوتے ہوئے بھی ہمیں اپنا لگنے لگتا ہے اور جس سے بار بار ملنے کا دل چاہتا ہے۔ وہ چہرہ ہمارے سامنے ہوتا ہے، تو ہمیں اپنا وجود مکمل لگتا ہے اور جب وہ چہرہ ایک پل کے لیے بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے، تو ہمیں اپنی کائنات ادھوری سی لگنے لگتی ہے اور پھر ہم اس چہرے کو حاصل کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں، لیکن کیا یہ صحیح ہے کہ ایک محبت کی خاطر بقیہ تمام محبتوں کو پس پشت ڈال دیا جائے؟ ایک نیا رشتہ استوار کرنے کے لیے پہلے کے ان تمام رشتوںکی قربانی دے دی جائے؟ وہ رشتے، جن کی تمام خوشیاں ہم سے ہی وابستہ ہوتی ہیں۔ جو روز اول سے ہمارا خیال رکھتے ہیں۔ ہمیں اچھا مستقبل دینے کے لیے دن رات جستجو کرتے ہیں۔ جن کے لب ہر پل ہماری خوشی اور کام یابی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ جب ہم ہنستے ہیں، تو ان کے لبوں پر بھی مسکان آتی ہے اور کبھی ہماری آنکھیں پُر نم ہوتی ہیں، تو ان کے دل بھی روتے ہیں۔ ایسے اَن مول رشتوں کو ایک رشتے پر قربان کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔
شادی کے لیے کسی کو پسند کرنے یا کسی سے محبت کرنے میں کوئی برائی نہیں، لیکن محبت میں تمام حدوں کو عبور کر لینا سراسر غلط رویہ ہے۔ ہمارے سماج میں لڑکوں کو تو کسی قدر اپنی پسندیدگی کے اظہار کی اجازت ہے، لیکن اگر بھولے سے کوئی لڑکی ایسا کرے، تو قیامت سی آجاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو لڑکی کا رشتہ کرتے وقت بھی اس کی رضا مندی لینے کا رواج کم ہے۔ والدین، بالخصوص ماؤں کو اس ضمن میں اپنی بیٹیوں کی اچھی سہیلی بننا چاہیے۔ بیٹیوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے والدین کو اس رشتے کے لیے رضامند کریں، کیوں کہ جو رشتہ والدین کی رضامندی کے بغیر قائم کیا جائے، وہ کبھی کام یاب نہیں ہوتا۔ کسی بھی بات کو جواز بنا کر زندگی خراب نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کوئی انتہائی قدم اٹھانا چاہیے۔ زندگی خدا کا اَن مول تحفہ ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی خوشی کا خیال رکھیں، ان کی پسند کو دل سے تسلیم کریں، نہ کہ اپنی ضد اور انا کی تسکین کے لیے اپنی اولاد کی خوشیوں کو ملیا میٹ کر دیں، کیوں کہ بہرحال زندگی لڑکے اور لڑکی کو گزارنی ہوتی ہے اور جب تک وہ راضی نہیں ہوں گے، تو کیسے ایک خوش گوار زندگی گزار سکیں گے۔ شادی کا مقصد ہی باہمی رضا مندی سے قائم ہونے والے رشتے کے ہیں، نہ کہ یک طرفہ رضا مندی کے ذریعے۔
زندگی کے سفر میں ہماری ملاقات اَن گنت لوگوں سے ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ہماری زندگی کو گُل زار بنا دیتے ہیں، تو کچھ کتاب زیست کے صفحوں پر غم کی وہ طویل داستان رقم کر دیتے ہیں کہ جس کو پڑھتے پڑھتے ہماری زندگی بیت جاتی ہے۔
کچھ لوگوں کو ہم بھول جاتے ہیں، تو کچھ لوگ ہمیں یاد نہیں رکھتے اور پھر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہی لوگوں کے جھرمٹ میں کوئی ایسا چہرہ ہمارے سامنے آجاتا ہے، جو اجنبی ہوتے ہوئے بھی ہمیں اپنا لگنے لگتا ہے اور جس سے بار بار ملنے کا دل چاہتا ہے۔ وہ چہرہ ہمارے سامنے ہوتا ہے، تو ہمیں اپنا وجود مکمل لگتا ہے اور جب وہ چہرہ ایک پل کے لیے بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے، تو ہمیں اپنی کائنات ادھوری سی لگنے لگتی ہے اور پھر ہم اس چہرے کو حاصل کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں، لیکن کیا یہ صحیح ہے کہ ایک محبت کی خاطر بقیہ تمام محبتوں کو پس پشت ڈال دیا جائے؟ ایک نیا رشتہ استوار کرنے کے لیے پہلے کے ان تمام رشتوںکی قربانی دے دی جائے؟ وہ رشتے، جن کی تمام خوشیاں ہم سے ہی وابستہ ہوتی ہیں۔ جو روز اول سے ہمارا خیال رکھتے ہیں۔ ہمیں اچھا مستقبل دینے کے لیے دن رات جستجو کرتے ہیں۔ جن کے لب ہر پل ہماری خوشی اور کام یابی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ جب ہم ہنستے ہیں، تو ان کے لبوں پر بھی مسکان آتی ہے اور کبھی ہماری آنکھیں پُر نم ہوتی ہیں، تو ان کے دل بھی روتے ہیں۔ ایسے اَن مول رشتوں کو ایک رشتے پر قربان کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔
شادی کے لیے کسی کو پسند کرنے یا کسی سے محبت کرنے میں کوئی برائی نہیں، لیکن محبت میں تمام حدوں کو عبور کر لینا سراسر غلط رویہ ہے۔ ہمارے سماج میں لڑکوں کو تو کسی قدر اپنی پسندیدگی کے اظہار کی اجازت ہے، لیکن اگر بھولے سے کوئی لڑکی ایسا کرے، تو قیامت سی آجاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو لڑکی کا رشتہ کرتے وقت بھی اس کی رضا مندی لینے کا رواج کم ہے۔ والدین، بالخصوص ماؤں کو اس ضمن میں اپنی بیٹیوں کی اچھی سہیلی بننا چاہیے۔ بیٹیوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے والدین کو اس رشتے کے لیے رضامند کریں، کیوں کہ جو رشتہ والدین کی رضامندی کے بغیر قائم کیا جائے، وہ کبھی کام یاب نہیں ہوتا۔ کسی بھی بات کو جواز بنا کر زندگی خراب نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کوئی انتہائی قدم اٹھانا چاہیے۔ زندگی خدا کا اَن مول تحفہ ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی خوشی کا خیال رکھیں، ان کی پسند کو دل سے تسلیم کریں، نہ کہ اپنی ضد اور انا کی تسکین کے لیے اپنی اولاد کی خوشیوں کو ملیا میٹ کر دیں، کیوں کہ بہرحال زندگی لڑکے اور لڑکی کو گزارنی ہوتی ہے اور جب تک وہ راضی نہیں ہوں گے، تو کیسے ایک خوش گوار زندگی گزار سکیں گے۔ شادی کا مقصد ہی باہمی رضا مندی سے قائم ہونے والے رشتے کے ہیں، نہ کہ یک طرفہ رضا مندی کے ذریعے۔