ISLAMABAD:
پاکستان کے ادارے ہمیشہ عوام کی تنقید کی زد میں رہتے ہیں اور عام تاثر یہی پیش کیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی ادارے ہمارے اداروں کے مقابلے میں اپنی مثال آپ ہیں، لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے اُن کے اداروں میں بھی خامیوں کی نشاندہی ہونا شروع ہوگئی ہے جن میں سے ایک تازہ ترین اسکینڈل جرمنی کی کار ساز کمپنی ''واکس ویگن AJ'' کا سامنے آیا ہے، جو کمپنی کی 78 سالہ تاریخ میں ایک بڑا اسکینڈل ثابت ہوچکا ہے اور اس کو ''چیٹ سافٹ وئیر اسکینڈل'' کا نام دیا گیا ہے۔ آئیے بلاگ میں واکس ویگن کمپنی اور اسکینڈل کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
کمپنی کی ساخت
واکس ویگن کمپنی 2012ء میں جنرل موٹرز کے بعد دنیا کی دوسری بڑی موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنی کہلائی۔ ٹویوٹا اسکے بعد تھی۔ 2013ء میں یہ کمپنی فارٹیون گلوبل 500 میں 9 ویں نمبر پر آئی اور 2014ء میں اسکی پیداوا 10.2 ملین تک پہنچ چکی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ20 سالوں میں اس کمپنی کا یورپ کے کاروبار میں اہم حصہ رہا ہے۔
ابتدائی خرابی
جنوری 2015ء میں ہی یہ خبر گرم تھی کہ واکس ویگن AJ نے 2009ء اور اسکے بعد کے اُن موٹر کار ماڈلز جن میں فیول انجکشن سسٹم میں فنی خرابی کی شکایت تھی کی 80 ہزار گاڑیاں واپس منگوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُس وقت تک اُن گاڑیوں کے ماڈلز کا تعلق اپریل 2011 تا اپریل 2012ء تک کا تھا۔ جن میں سے 35 ہزار چین اور بقایا دوسرے ممالک میں موجود تھیں۔
چیٹ سافٹ وئیر اسکینڈل
بہرحال اس چیٹ سافٹ وئیر اسکینڈل کا باقاعدہ آغاز 18 ستمبر 2015ء کو امریکہ سے اُس وقت ہوا جب کاروں کے ریگولیٹر کو یہ معلوم پڑا ''واکس ویگن کمپنی'' کی بعض ڈیزل گاڑیوں میں ایسا سافٹ ویئر نصب کیا گیا ہے جس سے مضرِ صحت دھواں نکلتا ہے جس پر پہلے ہی پابندی تھی۔ اسی لئے 9 اکتوبر 2015ء کو امریکی ایوانِ نمائندگان نے واکس ویگن کمپنی کے اس اسکینڈل کو کئی سال تک پکڑنے میں ناکامی پر فیڈرل انوائرمینٹل ریگولیٹرز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ امریکہ میں کمپنی کے نئے سربراہ مائیکل ہارن نے گاڑیوں میں کاربن کے کم اخراج کو ظاہر کرنے والی ڈیوائس کی تنصیب کی ذمہ داری کچھ ملازمین پرعائد کی ہے۔
چیف ایگزیکٹیو مارٹن ونٹرر کورن
اس عہدے پر 2007ء سے تھے اور اُنکے دور میں اس ادارے نے بہت ترقی کی تھی، لیکن 23 اکتوبر 2015ء کو واکس ویگن کے 68 سالہ چیف ایگزیکٹیو مارٹن ونٹرر کورن نے اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور ساتھ میں اس جرمن کارساز ادارے کی جانب سے باقاعدہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ادارے نے اپنی ''ڈیزل'' موٹرکاروں میں ایک ایسا سافٹ وئیر نصب کیا تھا جو گاڑی سے آلودگی کے اخراج کو اصل سطح سے کم بتاتا تھا، جبکہ ادارے کا اصل مقصد تھا گاڑی کی میلوں کی مسافت بڑھانا اور آلودگی کے کم کرنا۔
برطانیہ میں صورت ِحال
ادارے کی طرف سے ایک خبر یہ بھی آئی کہ دُنیا بھر میں 11 ملین کاریں اس اسکینڈل سے متاثر ہوئی ہیں، جبکہ دوسری طرف ستمبر 2015ء کو یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ اس کمپنی نے جو کاریں برطانیہ میں فروخت کی ہیں ان میں 12 لاکھ کاریں ایسی ہیں جن میں مضر ماحول دھواں والا سافٹ ویئر نصب کیا گیا ہے۔ اِن گاڑیوں کے نام و تعداد کچھ اسطرح ہے۔
- 5 لا کھ سے زائد واکس ویگن
- 9 لاکھ کے قریب اَڈی کی اے 3
- 77 ہزار کے قریب سیٹ
- 31 ہزار کے قریب اسکوڈا
- 80 ہزار کے قریب واکس ویگن کمرشل گاڑیاں۔
ڈیلروں سے رابطہ و سیل
واکس ویگن کمپنی کی انتظامیہ نے اُن ڈیلروں سے بھی رابطہ کیا ہے جن کے پاس اس وقت اُس ادارے کی گاڑیاں موجود ہیں تاکہ ریٹیلرز کی سطح پر اُن سے تعاون کرکے اُن کسٹمرز کا مسئلہ حل کیا جاسکے جو واکس ویگن کے ادارے کی اس چیٹنگ کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد کچھ ہفتے تو یہ خبر عام رہی کہ دُنیا بھر میں واکس ویگن گاڑیوں کی فروخت پر منفی اثرات پڑے ہیں اور ان کی فروخت کم ہوگئی ہے، لیکن10ِ اکتوبر 2015ء کو وضاحت کی گئی کہ یورپ میں اس ادارے کی استعمال شُدہ گاڑیوں کی قیمتِ فروخت پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا، لیکن یہ خبر ضرور اہم ہے کہ اب تمام ڈیزل موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو اپنے ماڈلز کی مکمل چیکنگ کروانا پڑے گی۔
ترقی پذیر ممالک اور کمپیوٹرائز کاریں
غور طلب بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی ''چیٹنگ'' پر اگر ایک باقاعدہ قانون کے تحت کاروائی کی جائے تو غلط کام کرنے والے ادارے معاملے کی نزاکت کے مطابق اُسکا بہترین حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ایسی سہولت یا قانون کہیں موجود بھی ہے تو شاید اُسکا اطلاق صارف کیلئے کم ہی نظر آتا ہے، کیونکہ آجکل جتنی نئی موٹر گاڑیاں فروخت ہو رہی ہیں وہ کمپیوٹرائزڈ ہیں اور اُنکو کوئی عام مکینک یا ٹیکنیشن ٹھیک نہیں کرسکتا۔
سروس دی ضرور جاتی ہے
وہ کاریں گارنٹی اور بعد از گارنٹی ادارے کے ہی کسی سروس اسٹیشن پر لیکر جانی پڑتی ہے، جہاں کمپیوٹرائز چیکنگ کے بعد اُن کی خرابی دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
7.3 بلین ڈالرز
واکس ویگن اسکینڈل میں انوائیرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی امریکہ کی طرف سے 18 بلین ڈالر تک جرمانہ ہوسکتا ہے اور اس صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے واکس ویگن کی انتظامیہ نے پہلے ہی کسٹمرز کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے 7.3 بلین ڈالرز ایک طرف کردیئے ہیں۔
یہ تو تھا اس کار اسکینڈل کا پس منظر اور منظر عام پر آنے والے کچھ حقائق کا سرسری جائزہ۔ لیکن، کیا آپ اس حق میں ہیں کہ پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک میں بھی موٹر گاڑیوں کے کسٹمرز کو اداروں کی طرف سے '' کمپیوٹرائزڈ گاڑیوں'' کی بہترین سہولت میسر آنی چاہیئے اور حکومتی اداروں کی اُن پر نظر ہونی چاہیئے؟
[poll id="731"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔