مذاکرات کا موضوع کیا ہوگا
کسی فاتح نے دنیا پر طاقت کے ذریعے اپنے نظریات مسلط کرنے کے لیے کوئی جنگ نہیں کی
قوموں کی زندگی میں بعض وقت ایسے مقام آجاتے ہیں کہ قوم و ملک کے اجتماعی مفادات کے تحفظ کی خاطر اس کے باشندوں کو اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے اجتماعی دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا پڑتا ہے۔
ویسے تو ہماری قوم پچھلے دس برسوں سے اپنے اس اجتماعی دشمن کی قتل و غارت کو بھگت رہی ہے لیکن ان دہشتگردوں کے مظالم کے خلاف اس ملک کے 18 کروڑ عوام کے ذہنوں میں جو لاوا پک رہا تھا، وہ لاوا سوات کی ایک 14 سالہ طالبہ ملالہ پر بزدلانہ حملے کے بعد پھوٹ پڑا ہے۔ کراچی سے خیبر تک کروڑوں عوام بلاتخصیص مذہب و ملت ملالہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ہیں۔
دنیا میں بہت بڑے بڑے فاتحین گزرے ہیں، جن کا کسی نہ کسی مذہب سے تعلق رہا ہے لیکن ان فاتحین کے ذہنوں میں ہوسِ ملک گیری کے علاوہ کوئی اور خیال موجود نہ رہا، سوائے بعض مختصر اور مخصوص ادوار کے کسی قوم نے، کسی فاتح نے دنیا پر طاقت کے ذریعے اپنے نظریات مسلط کرنے کے لیے کوئی جنگ نہیں کی۔ یہ اعزاز صرف ہمیں حاصل ہے کہ ہمارے ملک کے چند عقل و فہم سے عاری گروہ دہشت گردی کے ذریعے ساری دنیا پر اپنے خودساختہ نظریات مسلط کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہیں اور اس مقدس مشن کا آغاز انھوں نے خود اپنے ملک سے کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مقدس مہم کا آغاز انھوں نے خود اپنے نسلی اور دینی بے گناہ بھائیوں کے بہیمانہ قتلِ عام سے کیا ہے۔
ملالہ پر حملے کے بعد اب ان بہادروں نے میڈیا کے ان لوگوں کو قتل کرنے کا فرمان جاری کردیا ہے جو ان کی بربریت کی مخالفت کررہے ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں کسی بڑے سے بڑے مجرم کو بھی سزائے موت دینے کے لیے قانون اور انصاف کے مرحلوں سے گزرنے کا ایک نظام موجود رہا ہے لیکن آج یہ اختیار چند جہلاء نے ازخود اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور ہر اس شخص کے لیے موت کی سزا صادر کررہے ہیں جو ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے یہ بے سمت نظریات ہر روز درجنوں ایسے بے گناہوں کی جان لے رہے ہیں جو آنکھوں میں یہ حیرت لیے مرجاتے ہیں کہ انھیں کیوں مارا جارہا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ تاریخ کی اس بدترین حیوانیت کی بعض اہل سیاست اور مذہبی رہنما محض اس لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت کررہے ہیں کہ یہ دہشت گرد ملک اور دنیا میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ ڈرون حملوں کا ردعمل ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہماری نہیں امریکا کی جنگ ہے، جس سے ہمیں فوری الگ ہوجانا چاہیے، کوئی انتہائی ڈھٹائی سے یہ جواز پیش کررہا ہے کہ دہشت گردی میں اب تک بے شمار لڑکیاں ماری جاچکی ہیں، پھر ملالہ کو کیوں ہیرو بنایا جارہا ہے۔ عافیہ صدیقی کو کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ کوئی انتہائی بے شرمی سے یہ کہہ رہا ہے کہ خود امریکا نے ملالہ پر حملہ کرایا ہے اور اسے ہیرو بنا کر مسلمانوں کو بدنام کررہا ہے۔ کوئی صالح انتہائی دیدہ دلیری سے یہ منطق پیش کررہا ہے کہ ملالہ امریکی ایجنٹ ہے۔ غرض ان دہشت گردوں کو معصوم یا حق بجانب ٹھہرانے کے لیے ایسے جاہلانہ جواز اور فلسفے پیش کیے جارہے ہیں جو انسانی عقل و فہم سے بالاتر ہیں۔
ملالہ پر قاتلانہ حملے کے بعد ہر طرف سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اب بہت ہوچکا، اب دہشتگردوں کے مرکز شمالی وزیرستان میں ایک سخت آپریشن ہونا چاہیے تاکہ ملک کے 18 کروڑ دہشت زدہ عوام عدم تحفظ کے عذاب سے نکل کر سکون کی زندگی گزار سکیں اور بے گناہ پاکستانیوں کے قتلِ عام کا سلسلہ رک جائے۔ یہ بڑے حیرت کی بات ہے کہ بعض سیاسی اور مذہبی رہنما شمالی وزیرستان میں آپریشن کی سخت مخالفت کررہے ہیں اور اصرار کررہے ہیں کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ بلاشبہ آج کی دنیا میں ہر مسئلہ ہر تنازع کا حل مذاکرات ہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مذاکرات کا موضوع کیا ہوگا؟ متنازع مسئلہ کیا ہے؟ تنازعات دو ملکوں کے درمیان ہوں یا دو افراد کے درمیان اس پر مذاکرات اس وقت ہوسکتے ہیں جب دونوں فریق پہلے ایک دوسرے کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کریں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازع کا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان سرحدوں کا تنازع ہے۔ دنیا میں اس قسم کے بہت سارے تنازعات ہیں جن پر بات چیت اس لیے ہوتی ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ دہشتگرد پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کو تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں، وہ جمہوریت اور جمہوری نظام کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ پاکستان پر قبضہ کرکے یہاں اپنی مرضی کا اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر روز درجنوں بے گناہ انسانوں کو اس لیے قتل کررہے ہیں کہ اس طرح ملک میں ایسی انارکی پیدا کردیں کہ ساری ریاستی مشینری مفلوج ہوجائے اور وہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے انھوںنے پوری پوری تیاری کرلی ہے۔ ہمارے وہ مہربان جو ان حالات میں مذاکرات پر اصرار کررہے ہیں، کیا وہ بتائیں گے کہ مذاکرات کا موضوع کیا ہوگا؟
ہمارا خیال ہے کہ جہاں ریاست، سیاست، حکومت، اپوزیشن سب کو کفر کی علامتیں کہا جارہا ہو اور ریاست پر قبضے کو اپنا مقصد بتایا جارہا ہو، جہاں ہر مخالف کے لیے سزائے موت کا پروانہ جاری کیا جارہا ہو، وہاں مذاکرات پر اصرار کو ذہنی عدم توازن کے علاوہ کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے مذہبی اکابرین کو مصر، لیبیا، شام وغیرہ کے حالات سے سبق سیکھنا چاہیے جہاں کی مذہبی حکومتیں ان دہشت گردوں سے بری طرح خائف ہیں اور ان کو مضبوط ہونے سے روکنے کے لیے انھیں سزائے موت بھی دے رہی ہیں اور ان کے ٹھکانوں کو عوام کے ہجوم تہس نہس بھی کررہے ہیں۔
حکومت ان کے خلاف آپریشن پر آمادہ ہے۔عوام ان کے خلاف آپریشن کے سوا کوئی متبادل نہیں دیکھ رہے ہیں۔ متحدہ کی قیادت دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن کا مطالبہ کررہی ہے۔ ان زمینی حقائق کے پس منظر میں چند رہنمائوں کی طرف سے آپریشن کی مخالفت اور مذاکرات پر اصرار سوائے پاگل پن کے کچھ نہیں۔ ہاں اس مسئلے پر حکومت اور آپریشن مخالف جماعتوں کے درمیان بات چیت ہوسکتی ہے کہ اس آپریشن میں بے گناہوں کو جانی نقصان سے کس طرح بچایا جاسکتا ہے۔