کربلا

زندگی اور موت یہ وہ دوچیزیں ہیں جو ہر جاندار کے ساتھ پیش آتی ہ

زندگی اور موت یہ وہ دوچیزیں ہیں جو ہر جاندار کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ اسے تخلیق کیا جاتا ہے اور اس کے مقررہ وقت اور اہداف کو پورا ہونے کے بعد اس جاندار کے جسم سے ''روح'' رخصت ہوجاتی ہے اور اس پر موت طاری ہوجاتی ہے۔ یعنی فنا کی منزل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جب تک اس جاندار میں زندگی ہے تو وہ دراصل اس جسم میں روح کی موجودگی ہے اور روح دراصل ایک طاقت ہے جو خداوند کریم نے جاندار کوعطا کی ہے اور اسے ایک جسم دیا ہے جو روح کا لباس ہے۔

کائنات میں مخلوقات بے شمار اور ان کے فرائض بھی لاتعداد اور ہر فرض کسی ایسے عمل سے تعلق ہے جو کائنات میں بہتری کا کام انجام دیتا ہے۔ یہ ساری کائنات توازن کے ساتھ مربوط ہے۔ ہر چیز خالق کائنات کی شاہد ہے اور وہ ''مشہود'' ہے۔ شاہد گواہی دینے والا، اقرار کرنے والا۔ مشہود جس کے بارے میں گواہی دی جا رہی ہے کہ کوئی ہے جس نے یہ سب کچھ بتایا ہے اس کا کوئی آرکیٹکٹ ہے عام زبان میں اگر ہم بات کریں۔

احسنِ ِتقویم یعنی سب سے اچھا پراجیکٹ اللہ کا ''انسان''۔ وجہ تخلیق؟ کیا صرف سجدے اور اقرار کہ وہ ہمارا رب ہے؟ کیا اس سے کام چل جائے گا ''گاڑی چل جائے گی''۔ نہیں! اس کے لیے اور پرزے چاہیے ہیں۔

عمل اور عمل کے لیے بھی اچھی کوالٹی ضروری ہے یعنی ''عمل صالح''۔ عمل صالح وہ عمل جس سے ''خیر''کا پہلو برآمد ہو۔کار استعمال کی برے کام کے لیے۔ گناہ میں رجسٹرکیا گیا۔ کیونکہ گاڑی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کار استعمال کی نیک مقصد کے لیے کوئی بھلائی کی گئی اس سفر سے تو ''نیکی'' میں رجسٹرکیا گیا۔ نیکی کیا ہے۔ یہ ریکارڈ ہے کہ آپ بامقصد رہے اور گناہ کیا ہے کہ آپ کا ریکارڈ بتا رہا ہے کہ آپ نے جرائم کیے ہیں تو فیصلہ دنیا میں بھی ریکارڈ کے مطابق ہوتا ہے تو آخری فیصلہ بھی ریکارڈ کے مطابق ہوگا۔ موت کی کچھ اقسام ہیں۔ ایک موت یہ ہے کہ انسان اچانک کسی حادثے کا شکارہوگیا۔

دوسری موت یہ ہے کہ کسی کو مار ڈالا۔ تیسری موت یہ ہے کہ کسی نے خود کومار ڈالا یعنی خودکشی۔ اور ایک موت ظاہری یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ اس کام میں آخرکارموت ہے اور بچنے کے احکامات صفرکے برابر ہیں مگر آپ اسے انجام دیں تو یہ کیا ہے۔ پہلی موت آپ اچانک یا میں کہہ لیجیے اچانک کسی چیز سے ٹکرا کر،کہیں سے گر کر، کسی اندھی گولی سے، اچانک ڈوب کر یا کسی بھی وجہ سے مرگیا اس موت میں میرا کوئی دخل نہیں ہے، مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ میں مرجاؤں گا۔ یعنی اس میں میرے ارادے کوکوئی دخل نہیں ہے۔

لہٰذا یہ ایک موت ہے جس کا قصور وار میں نہیں ہوں۔ اللہ نے جو جسم مجھے دیا ہے اس کو میں نے نقصان نہیں پہنچایا بس یہ ایک حادثاتی موت ہے۔ دوسری موت کسی ظالم نے کسی کو قتل کردیا۔ کرنے والے نے ارادے سے کیا ہے قتل ہوجانے والے کو علم نہیں تھا کہ وہ قتل ہوجائے گا اب یہ دونوں کے ریکارڈ میں قاتل اور مقتول کے تحت درج کیا جائے گا۔ یہاں بھی مرنے والے کی محض موت ہوئی ہے اور اسے پورے طور پر علم نہیں تھا اور اس کا کوئی ایسا بھلا مقصد ہو یا نہ ہو کہ جس کے تحت موت ہوئی مگر وہ موت سے لاعلم ہے لہٰذا یہ بھی ایک موت ہے۔

تیسری موت ''خودکشی''۔ حالات کچھ بھی ہوں۔ خودکشی کرنے والے کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان خود لے رہا ہے۔ ہلاکت میں خود کو ڈال رہا ہے اور ہلاک ہوجائے گا اور خدا کا دیا ہوا، اللہ تعالیٰ کا اس پہ کرم کہ اس نے یہ جسم اس کو دیا، اس میں روح داخل کی وہ اس سسٹم میں مداخلت کر رہا ہے اور خدا کے قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے کہ جسم سے روح کو رخصت کر رہا ہے۔

جس کا اسے اختیار نہیں تو وہ جانتا ہے کہ مرے گا، اور یہ بھی شاید شاید جانتا ہی ہے کہ اس سے سخت باز پرس ہوگی کیونکہ جسم تو اللہ کی امانت ہے آپ کو دی گئی ہے کہ اسے اچھے مقاصد میں استعمال کرو اور جب میں چاہوں گا تم سے واپس لے لوں گا کہ قادرمطلق وہ ہے اس کے معاملات میں کوئی دوسرا نہیں ہے کہ فیصلے خود تبدیل کردے، رضائے الٰہی سے ہم کہتے ہیں نا کہ فلاں صاحب چلے گئے واپس، وفات پاگئے۔


رضائے الٰہی سے ہی ہم آتے بھی تو ہیں اور جاتے بھی اس کے مطابق ہیں تو یہ ایک Peaceful دورانیہ ہے، اور عمل ہے قدرت کے قانون، رضائے الٰہی کے مطابق، مگر خودکشی رخنہ اندازی ہے نظام میں، بغاوت ہے قوانین قدرت سے۔ کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ اس نے آپ کے لیے کیا لکھا ہے، کیا رکھا ہے۔ تو خودکشی کو ''حرام'' کہا گیا۔ یعنی عام اموات یا حادثاتی اموات یا کسی کا قتل ہوجانا ''حرام'' کے زمرے میں نہیں ہے صرف خودکشی کو ''حرام'' قرار دیا گیا۔

زندگی کے ختم ہوجانے کے ان معاملات میں تمام ترکو موت ہی سمجھا جاتا ہے کہا جاتا ہے ایک موت اور ہے جس کی تعریف کی گئی ہے۔ جس کو انسان دیکھ رہا ہوتا ہے اور جس کی وہ تمنا کرتا ہے۔ وہ ہے ''شہادت''۔ ملک کی سرحدوں پر کھڑے ہمارے جوان، قاتلوں سے جنگ کرنے والے وہ لوگ جو ان سے دوسرے انسانوں کو بچاتے ہیں اور معاشرے میں امن قائم کرتے ہیں۔ امانت کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے دیتے ہیں یہ ''شہید'' ہیں۔

جہاد کون سا درست ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ۔ اللہ کی راہ میں۔ اللہ کی راہ کیا ہے۔ جو کچھ انسانیت کے لیے بھلائی ہے وہ اللہ کی راہ ہے اور جو اس راہ میں بگاڑ پیدا کرے وہ اللہ کا، اس کے قانون کا دشمن ہے اور اللہ کے دشمن سے لڑتے ہوئے اگر جان چلی جائے جوکہ شہید جانتا بھی ہے کہ جاسکتی ہے۔

یہ ہے شہادت۔ شہادت گواہی ہے کس بات کی گواہی کہ میں جس مقصد کے تحت جدوجہد کر رہا ہوں یہ اللہ کے لیے ہے مجھ پر اللہ کا حق ہے کہ جب اس سے دشمنی کی جائے تو میں اللہ کے دشمن سے لڑوں اور اس راہ میں جان دے کر اللہ کا پسندیدہ بن جاؤں۔خوامخوا انسانوں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے مرجانا شہادت نہیں ہے بلکہ یہ جہنم کا سیدھا راستہ ہے۔ کربلا ایک ہے، تمثیلی صورت اور بھی ہے کہ آپ مماثل معاملات کو آپ یہ کہہ دیتے ہیں دراصل کربلا کہنے سے میرا آپ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ ''ظلم کی انتہا'' ہے۔

دین حنیف میں، پیغمبر کرامؐ کے فرمودات میں تبدیلی جرم ہے کیونکہ اللہ نے خود کہا کہ یہ پیغمبرؐ خود کچھ نہیں کہتا یہ وہی کہتا ہے جو اسے ہم کہتے ہیں۔ پیغمبر خدا احکام خدا کی ترسیل کے لیے خدا کا نمایندہ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری پیغمبرؐ اور دین کی تکمیل ہوگئی۔ بتا دیا گیا کہ صراط مستقیم کیا ہے۔

بھٹکنے کا انجام کیا ہے۔ کس طرح صالح زندگی گزارو کہ معاشرہ آپ کی ذات سے فائدہ مند رہے۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ لوگوں نے اس سے الگ راستہ کیا یعنی وہی خودکشی۔ یزیدکے اعمال اس کی خودکشی تھے اور اس کی خودکشی پر مہرتصدیق کربلا ہے۔ کسی کو برا کہنا ہو تو کہتے ہیں یزیدی رویہ ہے اس کا۔ یعنی یزید کا وہ رویہ تھا کہ ہر شخص پناہ مانگتا ہے ایسا ہونے سے اور دوسری طرف وہ مختصر قافلہ حسینی جس کے علم بردار رسولؐ کے نواسے تھے حضرت امام حسینؓ ان کے رفقا تھے، عزیز و اقارب تھے، ہر عمر کے بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین، خواتین کیوں؟ کیونکہ ظلم کے ضابطے خواتین سے بھی رعایت نہیں کرتے اور ظلم اس سے ثابت ہوجاتا ہے۔

اسلام میں بوڑھوں، بچوں، خواتین پر ظلم کو منع کیا گیا۔ درخت تک کو بلا ضرورت کاٹنا منع ہے مگر یزید اپنی حکومت کی تصدیق چاہتا تھا کہ امام حسینؓ اس کی تصدیق کردیں کہ وہ ایک سچا مسلمان ہے اور وارث نبیؐ ہے یا منبر نبیؐ ہے۔ تو حسینؓ نے فنا کی منزل کو دنیاوی بقا سے بہتر جانا اور ان کے خاندان نے دوستوں نے عزیزوں نے وہ بے مثال شہادتیں دیں کہ تاریخ اسلام کے اوراق جگمگا اٹھے اور آج تک جگمگا رہے ہیں۔

چند سرکشوں کے عمل سے اسلام کو کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ رسولؐ پیغمبر اسلام ہیں ان پر نبوت ختم ہوئی اور جب آپ کے بعد ایک بار پھر اسلام کو توانائی کی ضرورت رہی تو پاک روحیں حضرت امام حسین و ان کے رفقا اور اعزہ نے اپنی جانیں اللہ کی راہ میں دے دیں۔ دین اسلام کو فتنے سے بچا لیا۔ غلط کو غلط اور درست کو درست دکھادیا اپنے عمل سے اور یہ گواہی خاندان نبوت کی خواتین نے سر برہنہ اسلام کی خاطر سفرکرکے، صعوبتیں برداشت کرکے دی کہ ان کے سروں سے چادریں بھی اسلام دشمنوں نے چھین لی تھیں اول اسماعیل ؑ آخر حسینؓ یہ شہادت کے مدارج ہیں جانتے ہوئے اللہ کی راہ میں جان دینا شہادت ہے۔
Load Next Story