دیکھیے ہوتا ہے کیا
عرصہ دراز کے باوجود بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی گرفت کا معاملہ مسلسل کھٹائی میں پڑا ہوا ہے
لاہور:
آج جب کہ آیندہ عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں، ملک میں عملاً تین سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جنھیں ملک گیر Main stream political parties کہا جاسکتا ہے۔
یہ ہیں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابقہ ادوارِ حکومت ہمارے سامنے ہیں جن سے اس کی صلاحیت کار اور کارکردگی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی کامیابی یا ناکامی کی حالیہ کسوٹی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اس کی حکمرانی ہے جسے اب پانچ سال ہونے والے ہیں۔ اس عرصے میں اس نے عوام کے لیے کیا کیا، یہ عوام کے سامنے اظہر من الشمس ہے، جس کی بِنا پر یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ اگر وہ تیسری مرتبہ برسرِ اقتدار آئے گی تو ملک و قوم کی کیا خدمت انجام دے گی۔
رہی بات پاکستان پیپلز پارٹی کی تو کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ اب ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی پارٹی نہیں ہے۔ اس پر آصف علی زرداری کا کنٹرول ہے۔ کڑوا سچ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، ان کے بیٹوں مرتضیٰ بھٹو ، شاہنواز بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا، مگر قاتلوں کو کوئی پکڑ نہ سکا۔ اب تو پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر عرصہ دراز کے باوجود بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی گرفت کا معاملہ مسلسل کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ سو سوالوں پر بھاری سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جو لوگ اپنی پارٹی کی قائد کے قاتلوں تک کو نہیں پکڑسکے، ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ بہ زبانِ غالب:
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
موجودہ حکمراں پیپلز پارٹی کی حیثیت اس پروڈکٹ کی سی ہے جس پر برانڈ اور فارمولا تو وہی لکھا ہوا ہے لیکن اجزائے ترکیبی بالکل تبدیل ہوچکے ہیں۔ پرانے لوگ پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور نئے آگئے ہیں۔ اب وہ لوگ ہی نہیں رہے جو اس عوامی سیاسی قوت کی روحِ رواں ہوا کرتے تھے۔ گویا اب:
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
سچ پوچھیے تو پاکستان پیپلز پارٹی میں تبدیلیوں کا آغاز تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہی شروع ہوگیا تھا جب جے اے رحیم اور معراج محمد خان جیسے جواہر پاروں کو فارغ کردیا گیا تھا جو کہ اس عوامی قوت کی اساس اور قیمتی سرمایہ تھے۔ ایسے افراد کی فہرست خاصی طویل ہے جس میں ڈاکٹر مبشر حسن جیسے سینئر لوگ بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد بی بی کا دور آیا تو بہت سے اور بہت سے لوگ خیرباد کہہ گئے۔
موجودہ پیپلز پارٹی پر محض ایک سرسری نظر ڈالتے ہی آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کونسا گروپ اس پر حاوی ہوچکا ہے ۔ اب یہ عوام کے سوچنے اور سمجھنے کی بات ہوگی کہ پیپلز پارٹی کو آیندہ انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار لاتی یا نہیں۔
آپ کی یاد تازہ کرنے کے لیے عرض ہے کہ 1988 کے عام انتخابات میں جب پی پی پی بھاری اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی تو اس وقت میر مرتضیٰ بھٹو نے بے نظیر بھٹو کو حزب اختلاف میں بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پر اقتدار حاصل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ نہ تو منشور کی پابندی کی جاسکے گی اور نہ ہی رائے دہندگان سے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کی جاسکے گی۔ مگر ان کے اس مشورے کو نظرانداز کردیا گیا۔ یا پھر ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ انھوں نے یہ سوچا ہو کہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں ہی وہ اپنے حمایتیوں اور جیالوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرسکیں گی۔ شاید انھوں نے یہ بھی سوچا ہو کہ 1985 میں انتخابات کے بائیکاٹ کی غلطی کے نتیجے میں میدانِ سیاست کے دوسرے کھلاڑیوں بالخصوص میاں برادران کو ابھرنے کا موقع ہاتھ آگیا تھا۔
بہرحال یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ بی بی کے جیتے جی پیپلز پارٹی اپنے مخالفین کا مقابلہ اس طرح نہیں کرسکی جیسے آج کررہی ہے؟آصف علی زرداری مسندِ اقتدار پر براجمان ہیں اور سیاہ و سفید کے بلاشرکت غیرے مالک و مختار ہیں، خواہ ان کے مخالفین و حاسدین ان کے بارے میں کچھ بھی کہتے رہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی بساط پر کوئی اور سیاستدان ان کا ہم پلّہ نظر نہیں آتا۔ وہ ایسے ماہر ہیں کہ بہ قولِ اقبال:
بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
وہ پاکستان کی سیاسی بساط کے تمام مہروں کی اوقات اور رگ رگ سے خوب واقف اور حسبِ ضرورت انھیں استعمال کرنے پر بھی قادر ہیں۔ وطنِ عزیز کے سیاسی افق پر بعض دینی جماعتیں بھی موجود ہیں مگر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے کی روش کے باعث زیادہ موثر نہیں ہوسکیں۔ اس کے علاوہ ان میں دھڑے بندیوں کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ دوسری جانب کچھ دیگر سیاسی پارٹیاں بھی ہیں مگر ان کی نوعیت ملک گیر نہیں بلکہ علاقائی ہے۔
البتہ عمران خان کی تحریکِ انصاف ایک ایسی نئی قیادت ہے جسے تیسری ابھرتی ہوئی قوت کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اس کی طبعی عمر 15 سال ہوچکی ہے لیکن اس کی زورآوری جمعہ جمعہ آٹھ روز والا قصّہ ہے۔ عمران خان کل کیا تھے یہ پوری خلقت کو معلوم ہے، البتہ کرکٹ کے میدان میں ان کی کارکردگی کی پوری دنیا معترف ہے۔ کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے اپنی تمام توجہ شوکت خانم اسپتال پر مرکوز کردی اور بالآخر اس عظیم الشان منصوبے کو پایۂ تکمیل کو پہنچا کر ہی دم لیا۔ کرکٹ میں انھوں نے جو نام کمایا تھا وہ ان کے بہت کام آیا اور آرہا ہے۔
تعلیم کے فروغ میں بھی وہ نہایت سرگرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بے شک وہ دھن کے پکے اور قسمت کے دھنی ہیں مگر ان کے مزاج میں ایک اڑیل پن شامل ہے جس کی وجہ سے لوگ ان سے خائف بھی رہتے ہیں۔ انھوں نے تحریکِ انصاف کی شکل میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز ایک بالکل نئی ٹیم سے کیا تھا جو بے شک ناتجربہ کار تھی لیکن اس پر بدنامی کا کوئی داغ نہیں تھا۔ تحریکِ انصاف کا یہی طرۂ امتیاز تھا جس کی وجہ سے اس میں ایک مقناطیسی کشش پیدا ہوئی۔ مگر پھر عمران خان نے یک بیک پلٹا کھایا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے منحرفین اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کی بھرتی شروع کردی جو صاف ستھرے انڈوں کی ٹوکری میں گندے انڈوں کو شامل کرنے کے مترادف ہے۔
عمران خان کی اس روش سے تحریکِ انصاف کو شاید فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوا ہے اور اس کی عوامی مقبولیت کو دھچکا بھی لگا ہے۔ بعض لوگ اسے بھی اب بھان متی کا کنبہ کہہ رہے ہیں۔ تاہم ہوا کا رخ اب بھی بظاہر عمران خان کے حق میں ہے کیونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی ہر اعتبار سے مایوس کن ہے۔ ن، ف اور ق میں کسی لیگ کا بھی عملاً ایک عام پاکستانی سے کوئی تعلق نہیں اور ان سب کو محض اقتدار سے دلچسپی و سروکار ہے۔
حکمراں پیپلز پارٹی کا اپنا صوبہ سندھ عملاً طوائف الملوکی کا شکار ہے۔ ملک میں نااہلی اور کرپشن ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ کر اپنے عروج پر ہے اور ہر آن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے مظلوم اور ستم رسیدہ عوام کو کچومر نکال کر رکھ دیا ہے۔ ان مایوس کن حالات میں عوام کی نظریں اب بھی عمران خان کی طرف ہی لگی ہوئی ہیں کیونکہ اب صرف انھی کو آزمانا باقی رہ گیا ہے۔ حالات کا یہ جبر عمران خان کے حق میں سب سے بڑا فیکٹر ہے۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
آج جب کہ آیندہ عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں، ملک میں عملاً تین سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جنھیں ملک گیر Main stream political parties کہا جاسکتا ہے۔
یہ ہیں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابقہ ادوارِ حکومت ہمارے سامنے ہیں جن سے اس کی صلاحیت کار اور کارکردگی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی کامیابی یا ناکامی کی حالیہ کسوٹی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اس کی حکمرانی ہے جسے اب پانچ سال ہونے والے ہیں۔ اس عرصے میں اس نے عوام کے لیے کیا کیا، یہ عوام کے سامنے اظہر من الشمس ہے، جس کی بِنا پر یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ اگر وہ تیسری مرتبہ برسرِ اقتدار آئے گی تو ملک و قوم کی کیا خدمت انجام دے گی۔
رہی بات پاکستان پیپلز پارٹی کی تو کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ اب ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی پارٹی نہیں ہے۔ اس پر آصف علی زرداری کا کنٹرول ہے۔ کڑوا سچ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، ان کے بیٹوں مرتضیٰ بھٹو ، شاہنواز بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا، مگر قاتلوں کو کوئی پکڑ نہ سکا۔ اب تو پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر عرصہ دراز کے باوجود بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی گرفت کا معاملہ مسلسل کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ سو سوالوں پر بھاری سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جو لوگ اپنی پارٹی کی قائد کے قاتلوں تک کو نہیں پکڑسکے، ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ بہ زبانِ غالب:
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
موجودہ حکمراں پیپلز پارٹی کی حیثیت اس پروڈکٹ کی سی ہے جس پر برانڈ اور فارمولا تو وہی لکھا ہوا ہے لیکن اجزائے ترکیبی بالکل تبدیل ہوچکے ہیں۔ پرانے لوگ پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور نئے آگئے ہیں۔ اب وہ لوگ ہی نہیں رہے جو اس عوامی سیاسی قوت کی روحِ رواں ہوا کرتے تھے۔ گویا اب:
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
سچ پوچھیے تو پاکستان پیپلز پارٹی میں تبدیلیوں کا آغاز تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہی شروع ہوگیا تھا جب جے اے رحیم اور معراج محمد خان جیسے جواہر پاروں کو فارغ کردیا گیا تھا جو کہ اس عوامی قوت کی اساس اور قیمتی سرمایہ تھے۔ ایسے افراد کی فہرست خاصی طویل ہے جس میں ڈاکٹر مبشر حسن جیسے سینئر لوگ بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد بی بی کا دور آیا تو بہت سے اور بہت سے لوگ خیرباد کہہ گئے۔
موجودہ پیپلز پارٹی پر محض ایک سرسری نظر ڈالتے ہی آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کونسا گروپ اس پر حاوی ہوچکا ہے ۔ اب یہ عوام کے سوچنے اور سمجھنے کی بات ہوگی کہ پیپلز پارٹی کو آیندہ انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار لاتی یا نہیں۔
آپ کی یاد تازہ کرنے کے لیے عرض ہے کہ 1988 کے عام انتخابات میں جب پی پی پی بھاری اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی تو اس وقت میر مرتضیٰ بھٹو نے بے نظیر بھٹو کو حزب اختلاف میں بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پر اقتدار حاصل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ نہ تو منشور کی پابندی کی جاسکے گی اور نہ ہی رائے دہندگان سے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کی جاسکے گی۔ مگر ان کے اس مشورے کو نظرانداز کردیا گیا۔ یا پھر ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ انھوں نے یہ سوچا ہو کہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں ہی وہ اپنے حمایتیوں اور جیالوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرسکیں گی۔ شاید انھوں نے یہ بھی سوچا ہو کہ 1985 میں انتخابات کے بائیکاٹ کی غلطی کے نتیجے میں میدانِ سیاست کے دوسرے کھلاڑیوں بالخصوص میاں برادران کو ابھرنے کا موقع ہاتھ آگیا تھا۔
بہرحال یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ بی بی کے جیتے جی پیپلز پارٹی اپنے مخالفین کا مقابلہ اس طرح نہیں کرسکی جیسے آج کررہی ہے؟آصف علی زرداری مسندِ اقتدار پر براجمان ہیں اور سیاہ و سفید کے بلاشرکت غیرے مالک و مختار ہیں، خواہ ان کے مخالفین و حاسدین ان کے بارے میں کچھ بھی کہتے رہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی بساط پر کوئی اور سیاستدان ان کا ہم پلّہ نظر نہیں آتا۔ وہ ایسے ماہر ہیں کہ بہ قولِ اقبال:
بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
وہ پاکستان کی سیاسی بساط کے تمام مہروں کی اوقات اور رگ رگ سے خوب واقف اور حسبِ ضرورت انھیں استعمال کرنے پر بھی قادر ہیں۔ وطنِ عزیز کے سیاسی افق پر بعض دینی جماعتیں بھی موجود ہیں مگر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے کی روش کے باعث زیادہ موثر نہیں ہوسکیں۔ اس کے علاوہ ان میں دھڑے بندیوں کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ دوسری جانب کچھ دیگر سیاسی پارٹیاں بھی ہیں مگر ان کی نوعیت ملک گیر نہیں بلکہ علاقائی ہے۔
البتہ عمران خان کی تحریکِ انصاف ایک ایسی نئی قیادت ہے جسے تیسری ابھرتی ہوئی قوت کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اس کی طبعی عمر 15 سال ہوچکی ہے لیکن اس کی زورآوری جمعہ جمعہ آٹھ روز والا قصّہ ہے۔ عمران خان کل کیا تھے یہ پوری خلقت کو معلوم ہے، البتہ کرکٹ کے میدان میں ان کی کارکردگی کی پوری دنیا معترف ہے۔ کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے اپنی تمام توجہ شوکت خانم اسپتال پر مرکوز کردی اور بالآخر اس عظیم الشان منصوبے کو پایۂ تکمیل کو پہنچا کر ہی دم لیا۔ کرکٹ میں انھوں نے جو نام کمایا تھا وہ ان کے بہت کام آیا اور آرہا ہے۔
تعلیم کے فروغ میں بھی وہ نہایت سرگرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بے شک وہ دھن کے پکے اور قسمت کے دھنی ہیں مگر ان کے مزاج میں ایک اڑیل پن شامل ہے جس کی وجہ سے لوگ ان سے خائف بھی رہتے ہیں۔ انھوں نے تحریکِ انصاف کی شکل میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز ایک بالکل نئی ٹیم سے کیا تھا جو بے شک ناتجربہ کار تھی لیکن اس پر بدنامی کا کوئی داغ نہیں تھا۔ تحریکِ انصاف کا یہی طرۂ امتیاز تھا جس کی وجہ سے اس میں ایک مقناطیسی کشش پیدا ہوئی۔ مگر پھر عمران خان نے یک بیک پلٹا کھایا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے منحرفین اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کی بھرتی شروع کردی جو صاف ستھرے انڈوں کی ٹوکری میں گندے انڈوں کو شامل کرنے کے مترادف ہے۔
عمران خان کی اس روش سے تحریکِ انصاف کو شاید فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوا ہے اور اس کی عوامی مقبولیت کو دھچکا بھی لگا ہے۔ بعض لوگ اسے بھی اب بھان متی کا کنبہ کہہ رہے ہیں۔ تاہم ہوا کا رخ اب بھی بظاہر عمران خان کے حق میں ہے کیونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی ہر اعتبار سے مایوس کن ہے۔ ن، ف اور ق میں کسی لیگ کا بھی عملاً ایک عام پاکستانی سے کوئی تعلق نہیں اور ان سب کو محض اقتدار سے دلچسپی و سروکار ہے۔
حکمراں پیپلز پارٹی کا اپنا صوبہ سندھ عملاً طوائف الملوکی کا شکار ہے۔ ملک میں نااہلی اور کرپشن ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ کر اپنے عروج پر ہے اور ہر آن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے مظلوم اور ستم رسیدہ عوام کو کچومر نکال کر رکھ دیا ہے۔ ان مایوس کن حالات میں عوام کی نظریں اب بھی عمران خان کی طرف ہی لگی ہوئی ہیں کیونکہ اب صرف انھی کو آزمانا باقی رہ گیا ہے۔ حالات کا یہ جبر عمران خان کے حق میں سب سے بڑا فیکٹر ہے۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔