نشان پاکستان بیگم نصرت بھٹو

آج کسی مہران اسکینڈل کی باز گشت سننے میں آ رہی ہے مگر پاکستان قومی اتحاد کس نے بنوایا


Asadullah Ghalib October 22, 2012
[email protected]

ایک سال قبل بیگم نصرت بھٹو دوبئی کے ایرانی اسپتال میںخالق حقیقی سے جا ملیں تو اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے مرحومہ کے لیے نشان پاکستان کا اعلان کیا۔

دس دن کے لیے سرکاری سوگ بھی منایا گیا۔ان کی میت گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ان کے شہید شوہر، بیٹے اور بیٹی کے پہلو میں دفن کر دی گئی، انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ شایداس خاتون کے لیے یہ بہت کم خراج تحسین تھا جس نے سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آنکھ کھولی مگر ساری عمردکھوں کے خلاف نبرد آزما رہیں۔ ان کے خاوند ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے، انھوں نے ایک شکست خوردہ، ٹوٹے پھوٹے پاکستان کی تعمیر نو کی، اسے ایٹمی پروگرام کے حصول کے راستے پر گامزن کیا، اسلامی کانفرنس کے انعقاد سے مسلم امہ میں پاکستان کا بول بالا کیا مگر ایک فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

دائیں بازو کی ساری قوتیں اس کے خلاف اکٹھی کر دی گئیں، آج کسی مہران اسکینڈل کی باز گشت سننے میں آ رہی ہے مگر پاکستان قومی اتحاد کس نے بنوایا ، ایئر مارشل اصغر خاں نے کس برتے پر لاہور کے گول باغ میں دھمکی دی کہ سامنے والے درخت پر بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا، اس سازش کے پیچھے کونسی طاقتیں کارفرما تھیں ، شاید ہی دنیا کی کوئی عدالت اس راز سے پردہ اٹھا سکے مگر ایک عدالت یوم حشر کو لگے گی جہاں سب کا کردار عیاں ہو کر رہے گا اور کسی کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی، ان ہی قوتوں نے بھٹو کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا اور مصائب کا مقابلہ کرنے کے لیے بیگم نصرت بھٹو تن تنہا تھیں ۔

وہ نازو نعم میں پلی بڑھی تھیں ، انھوں نے اقتدار کی چمک دمک دیکھی تھی، وہ ایران کے اس تاریخی کرد خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جس نے صلاح الدین ایوبی کو جنم دیا، نامساعد حالات کے سامنے ڈٹ جانے کی روایت بیگم بھٹو کے خون میںشامل تھی ۔ اور آنے والے دنوں میں بیگم بھٹو نے ایسی جنگ لڑی جس میں انھوں نے وقت کے بدترین آمروں کے چھکے چھڑا دیے، ان کی جدو جہد نے ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے جلاوطنی سے واپسی کی راہ ہموارکی جو دو مرتبہ اس ملک کی تقدیر کی مالک بنیں، نصرت بھٹو کو ایک ایسی ماں ہونے کا اعزاز میسر آیا جن کی بیٹی مسلم دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم تھیں ، اس سے پہلے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم بننے کا اعزاز ان کے شوہر بھٹو شہید کو حاصل ہو اتھا۔بیگم نصرت بھٹو حقیقی معنوں میں ایک فائٹر تھیں۔

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پنجاب پولیس نے ان پر لاٹھیاں برسائیں ، خون کا ایک فوارہ ان کی پیشانی سے پھوٹ نکلا اور اس کی لالی نے ز مین اور آسمان کو لہو رنگ کر دیا۔بیگم بھٹو نے آئینی،عدالتی اور قانونی جنگ بھی لڑی اور اس دور کی عدلیہ نے اپنے آپ کو ایک فوجی آمر کے ساتھ کھڑا کرکے تاریخ کے صفحات میںاپنے لیے بدنامی لکھوائی۔بیگم صاحبہ کے لیے آنے والے تین عشرے کانٹوں کی سیج ثابت ہوئے، ہر چند اس عرصے میں ان کی بیٹی دو مرتبہ وزیر اعظم بنیں لیکن اس عرصے میں پہلے توا ن کے جوان بیٹے شاہ نواز بھٹو کو پیرس کے ایک فلیٹ میں پر اسرار طور پر زہر دے کر شہید کر دیا گیا اور اس سے بڑا سانحہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان کے دوسرے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کو کراچی کی سڑکوں پر اس وقت گولیوں سے بھون دیا گیا۔

جب محترمہ بے نظیر بھٹو اس ملک کی وزیر اعظم تھیں۔ایک بیوی اور ایک ماں کے لیے پے در پے صدمے ناقابل برداشت تھے،ان کی روح گھائل ہو گئی، ان کا انگ انگ زخمی تھا، ان کی سوچ پر کاری وار کیا گیا اور وہ ان صدموں کی تاب نہ لا سکیں، آخر تو وہ گوشت پوشت کی ایک انسان تھیں، ایک سوچنے سمجھنے والی شخصیت تھیں ، وہ کئی برس بے ہوشی کی کیفیت میں رہنے کے بعد ٹھیک ایک برس قبل اپنے اﷲ سے جا ملیں، وہاں سب کو جانا ہے لیکن بیگم صاحبہ اور ان کے خاندان کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی موت کے بعد بھی ان کی قبروں کا ٹرائل جاری ہے اور ان کی کردار کشی بھی کی جا رہی ہے۔

کوئی بریگیڈئر حامد سعید نام کے شخص ایک زمانے میں کراچی میں ایم آئی اے کے افسر تھے ، وہ گرادن کر رہے ہیں کہ محترمہ بے نظر بھٹو کے خلاف اس لیے پیسے بانٹے گئے کہ وہ پاکستان کی وفادار نہ تھیں، وہ ملک کے لیے سیکیورٹی رسک تھیں، وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دشمن تھیں، جس خاتون کے باپ کوایٹمی پروگرام کے خالق ہونے کی وجہ کسنجر نے نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی اور پھر اسے پھانسی دلوا کر اس دھمکی پر عمل بھی کر دکھایا، اس کو کس منہ سے ایٹمی پروگرام کا دشمن قرار دیا گیا۔حیف صد افسوس!! یوں لگتا ہے کہ اس پاکستان کا صرف ایک وفا دار تھا اور اس کانام تھا جنرل نیازی، بنگال کا ٹائیگر جو و ہاں ڈھیر ہو گیا۔

بیگم نصرت بھٹوکا تعلق اس سرزمین سے ہے جہاں شاہنامے تخلیق کیے گئے، یہ سورمائوں اور جری انسانوں کے شاہنامے تھے، کوئی مورخ آئے گا جو بیگم نصرت بھٹو کا بھی شاہنامہ لکھے گا، ہم نے اسے نشان پاکستان کے پرچم میں دفنا دیا اور اس کے عزیزوں کو ہر سال ان کی قبروں پر فاتحہ خوانی پرنوحہ خوانی کے لیے چھوڑ دیا مگرکوئی دن آئے گا جب ان قبروں سے وہ روشنی پھوٹے گی جو کراں تا بکراں پھیل جائے گی، وہ لشکر جو ایران سے نکلے اور آس پاس کے خطے پر حاوی گئے، ان لشکروں کی روایات زندہ ہوں گی، ققنس کی راکھ سے زندگی کی رمق بیدار ہو گی اور نصرت بھٹو کے دکھوں کا صلہ اس دھرتی کو سدا کے لیے سکھ کی شکل میں ملے گا، بیگم صاحبہ نے جمہوریت کی بقا، اس کے احیا اور اس کے استحکام کے لیے لاٹھیاں کھائیں جلا وطنی کاٹی، ہوش و حواس کھوئے۔

ان کی یہ جدوجہد رنگ لائے گی،وہ مہر تاباں طلوع ہو گا جس کی ٹھنڈی، حیات افروز کرنوں میں آنے والی نسلوں کے راستے جگمگائیں گے۔ اور وقت کے سارے فرعونوں کو جمہوری عمل کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا۔یہ وطن ایک جمہوری جدو جہد کا حسین شگوفہ ہے، اس کی خوشبو چہار سو ایک بار پھر پھیلے گی اور پھر پھیلی ہی رہے گی۔رنگ و نور کا سیلاب اس وطن کے چہرے کو درخشاں کرے گا۔قوم کی تقدیر بدلے گی، اس ملک کے عوام ہی اپنی تقدیر کے مالک ہوں گے۔بیگم نصرت بھٹو کی روح کو اسی طور قرار آئے گا۔وہ نشان پاکستان بن کر زندہ تابندہ رہیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں