سمندر پر گزرے پانچ دنوں نے زندگی بدل دی

بین الاقوامی شہرت یافتہ باکسنگ ریفری، جج، علی اکبر شاہ کی کہانی

باکسنگ میں اب بہت سیاست آگئی ہے، اسپورٹس کے فروغ کے لیے وزارتِ کھیل کو وزارتِ تعلیم میں ضم کر دینا چاہیے، علی اکبر شاہ فوٹو : فائل

KARACHI:
یہ کچھ کر گزرنے کی سُلگتی ہوئی خواہش ہی تو تھی، جو کم سنی میں ماہی گیری جیسے جوکھم بھرے پیشے کی جانب لے گئی۔

مگر ماہی گیری ہی کیوں؟ پہلا سبب تو بڑا بھائی تھا، جو یافت کی کُھوج میں پانیوں تک جاتا تھا، اور دوسری وجہ تھی سمندری زندگی کے پُراسرار تجربے سے گزرنے کی للک۔ اُن کی صحت اِس پُرخطر کام کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ بھائی نے خاصا سمجھایا، باز رکھنے کی کوشش کی، لیکن اُنھوں نے ایک نہ سنی۔ یہ غالباً 67-68 کی بات ہے، جب اُنھوں نے پانچ دن سمندر کے سینے پر تیرتی ایک لانچ پر گزارے، اور اُن پانچ دنوں نے زندگی بدل دی۔ ''وہ ایک حیران کُن تجربہ تھا۔ اُس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ بڑا بھائی ہمارا پیٹ بھرنے کے لیے ہر بار موت کے منہ میں جاتا ہے۔'' بعد میں بھی تین چار مرتبہ سمندر کا رخ کیا، اور ہر سفر کے ساتھ محنت کی عظمت کا خیال راسخ ہوتا گیا۔

یہ ایک ایسے محب وطن شخص کی کہانی ہے، جس کی خداداد صلاحیتوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔ علی اکبر شاہ انٹرنیشنل باکسنگ میں ریفری، جج کی حیثیت سے ایک معتبر نام ہیں۔ اِس وقت، اُن سمیت، پاکستان میں گنتی ہی کے انٹرنیشنل ریفری، جج ہیں۔ اولمپکس میں پاکستان کی نمایندگی کا اعزاز حاصل کرنے والے فقط تین ریفری، جج اِس وقت حیات ہیں، علی اکبر شاہ اُن میں سے ایک ہیں۔ اِس وقت وہ ''پاکستان باکسنگ فیڈریشن'' کے خزانچی ہیں۔ ساتھ ہی اِس ادارے کی ذیلی تنظیم ''ریفری، جج کمیشن'' کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خوددار آدمی ہیں۔ عزت نفس کو اپنی کم زوری بتاتے ہیں۔ یہ قطعی گوارا نہیں کہ کوئی اُن پر انگلی اٹھائے، سو ہمیشہ اپنا دامن پاک رکھا۔ اُن کے بہ قول،''پیسا کبھی میری کم زوری نہیں رہا۔ میں پوری دنیا گھوم چکا ہوں، منہگے ترین ہوٹلوں میں ٹھہرا، منہگی ترین گاڑیوں میں گھوما، لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھا کہ مجھے لوٹ کر اپنے وطن آنا ہے، یہ آسایشیں تو عارضی ہیں۔''

کیوں نہ علی اکبر شاہ کی کتابِ زندگی کے اوراق پلٹے جائیں: اُن کا تعلق قادری خاندان سے ہے، اِسی نسبت سے نام کے ساتھ قادری کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ اجداد پشتون تھے۔ اُن کے دادا، قاسم علی شاہ قادری کنٹر، افغانستان کے سرداروں میں سے تھے، جنھوں نے انگریز سرکار کے زمانے میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جیل سے رہائی کے بعد اُنھوں نے حیدرآباد، سندھ کو اپنا مسکن بنایا۔ اب سے لگ بھگ سو برس قبل اُن کا خاندان کراچی کے علاقے لیاری منتقل ہوگیا، جہاں اُنھوں نے 16 اکتوبر 1952 کو آنکھ کھولی۔ جب ذکر نکلا اُن کی جائے پیدایش کا، تو علی اکبر شاہ اپنے زمانے کے لیاری میں پہنچ گئے۔

بتانے لگے، اُن کی رہایش کھڈا مارکیٹ کے علاقے میں تھی، جس کی بڑی آبادی ماہی گیروں پر مشتمل تھی۔ ''ماڑی پور روڈ سے جو نالا گزرتا ہے، آج اُسے گندا نالا کہا جاتا ہے، مگر ہمارے زمانے میں یہ ایسا نہیں تھا۔ ہم اُس میں کھیلا کرتے تھے۔ جب سمندر کا پانی آتا تھا، تو وہ بھر جاتا۔ لوگ اس میں مچھلیاں پکڑتے، تیراکی کرتے۔ جب سمندر کا پانی اتر جاتا، تو نیچے صاف شفاف فرش ہوتا، جہاں لوگ بیٹھ کر باتیں کرتے۔''

اُن کے والد، حاجی غلام رسول شاہ قادری درویشی کی جانب مائل تھے۔ اُن کے کئی مرید تھے۔ کہتے ہیں، والد انتہائی سادہ مزاج آدمی تھے، طبیعت میں شفقت بھی تھی، اور سختی بھی۔ البتہ وہ سزا دینے کے قائل نہیں تھے۔ پھر اس کی ضرورت بھی نہیں تھی، شخصیت کا اتنا رعب تھا کہ کوئی اُن کے سامنے آنکھ اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا۔ گزربسر کا بڑا ذریعہ حیدرآباد میں واقع دو مکانات تھے، جن سے حاصل ہونے والا کرایہ معاشی مسائل کو گمبھیر نہیں ہونے دیتا۔ چار بہنوں، سات بھائیوں میں اُن کا نمبر نواں ہے۔ بچپن ہی سے دھیمے مزاج کے حامل ہیں۔

گھر کے ماحول پر مذہبی رنگ غالب تھا، باہر کھیلنے کی آزادی نہیں تھی، سو گھر میں، بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے کودنے، شرارتیں کرنے کا شوق پورا کرلیتے۔ شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوتا تھا۔ سندھ مدرسۃ الاسلام کے دنوں میں وہ سندھی ادبی سنگت کے سرگرم رکن رہے۔ ہر برس شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی برسی مناتے، جس میں صوفیانہ کلام پیش کیا کرتے۔ 71ء میں انھوں نے آرٹس سے میٹرک کیا۔ زمانۂ طالب علمی میں رجحان ترقی پسند فکر کی جانب تھا، میکسم گورکی کے ناول، لینن کی کتابیں مطالعے میں رہتیں، البتہ دین سے کبھی دُور نہیں ہوئے۔ 73ء میں انٹر کرنے کے بعد 75ء میں جامعہ کراچی سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔

پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز، بغیر کسی منصوبہ بندی کے، میٹرک سے قبل ہی کر دیا تھا۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ 70ء میں ایک سرکاری اہل کار کے اِس سوال پر، نوجوان ٹیچر بنو گے؟ اُنھوں نے اثبات میں جواب دے دیا۔ فوراً ہی اپائنٹمنٹ لیٹر جاری ہوگیا۔ یوں وہ 90 روپے ماہ وار پر کونکر کے گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول، نذر محمد گبول ولیج میں استاد ہوگئے۔ کونکر، گڈاپ سے کچھ پہلے پڑتا تھا۔ ہفتے میں فقط ایک بس وہاں جاتی، جو اُن کی سواری تھی۔ وہاں قیام ایک ایسی عمارت میں تھا، جو بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی سہولیات سے محروم تھی۔

پورا ہفتہ وہاں گزرتا۔ چھٹی والے روز گھر لوٹ آتے۔ ملازمت اختیار کرنے کے فیصلے پر اُن کے والد بہت ناراض ہوئے۔ دراصل حیدرآباد کے ایک مکان سے ماہانہ 134 روپے کرایہ آیا کرتا تھا، جو والد صاحب اُن کے حوالے کر دیتے کہ وہ تعلیمی اخراجات پورے کرسکیں۔ جب اُنھوں نے ملازمت کا سنا تو یہی کہا،''جب میں تمھیں 134 روپے دے رہا ہوں، تو 90 روپے کی ملازمت کی کیا ضرورت ہے؟'' لیکن علی اکبر شاہ کے سر میں تو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا سودا سمایا تھا۔ کونکر کے جس اسکول میں اُن کی تعیناتی ہوئی، وہ فقط ایک جھونپڑی پر مشتمل تھا، جسے اُن کی شب و روز کی محنت نے دو پختہ کمروں کی عمارت میں ڈھالا۔ وہیں کے ایک نوجوان کی تربیت کی، اُس کی ملازمت کا بندوبست کیا۔

ترقی ہوئی، تو گھر سے دوری مزید بڑھ گئی۔ اس بار تعیناتی کونکر سے بھی آگے، کمال خان جوکھیو لوئر سیکنڈری اسکول، کاٹھوڑ میں ہوئی۔ 73ء میں جب گھر میں اُن کی شادی کے انتظامات شروع ہوئے، مناسب سمجھا کہ اب تبادلہ کروالیا جائے۔ اس بار جعفر طیار سوسائٹی، ملیر کے ایک اسکول میں تدریسی ذمے داری سنبھالی۔ 74ء میں اپنے آبائی علاقے کے ایک اسکول کا حصہ بن گئے۔ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول نمبر دو، لیاری میں بیس برس ذمے داریاں نبھائیں۔ 95ء میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کی باکسنگ ٹیم کے اَن چارج ہوگئے۔ کوئی انگلی نہ اٹھائے کہ علی اکبر شاہ دو دو ملازمتیں کر رہے ہیں، یہ سوچ کر وہ تدریس سے الگ ہوگئے۔ آج بھی کراچی پورٹ ٹرسٹ میں اِسی حیثیت سے ذمے داری نبھارہے ہیں۔

اوائل عمری ہی سے وہ باکسنگ کے شایق ہیں۔ یہ شوق وراثت میں ملا۔ لیاری میں مسلم آزاد باکسنگ کلب ہوا کرتا تھا، جس کے کوچ، استاد علی محمد قمبرانی اُن کے والد کے دوست تھے۔ وہاں کی سرگرمیوں نے شوق مہمیز کیا۔ باقاعدہ باکسنگ کی بھی، لیکن پھر ایک واقعہ ''رنگ'' سے دُور لے گیا۔ بتاتے ہیں، مسلم آزاد باکسنگ کلب میں، مستقبل قریب میں اولمپکس میں پاکستان کی نمایندگی کرنے والے، جان محمد بلوچ سے اُن کا مقابلہ ہورہا تھا۔ اُس وقت عمر بارہ برس ہوگی۔ بڑے بھائی، غلام علی شاہ مقابلے میں ریفری تھے۔ علی اکبر نے حریف پر حملہ کیا۔ جان بلوچ سامنے سے ہٹ گئے، اور گھونسے کی لپیٹ میں آگئے اُن کے بڑے بھائی، جنھوں نے غصے میں پلٹ کر تھپڑ رسید کر دیا۔ بس، اس روز باکسنگ چھوڑ دی۔

79ء میں باکسنگ کے میدان میں واپسی ہوئی۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ اُس روز استاد نذر محمد بلوچ، استاد آدم، استاد علی محمد ٹائیگر اور صدیق جیولیئس اُن کے گھر آئے، اور اِس معلم کو پیش کش کی کہ وہ اُن کے ''پاک نیشنل باکسنگ کلب'' کے سیکریٹری کا عہدہ سنبھال لیں۔ اُنھوں نے پیش کش قبول کی، جس کے بعد ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔ باکسنگ کے بارے میں اُن کا وسیع علم جلد ہی اُن کی شناخت بن گیا۔ 80ء میں اُنھیں نیشنل گیمز میں سندھ باکسنگ ٹیم کا اسسٹنٹ مینیجر بنایا گیا۔ اب آگے بڑھنے کا ارادہ باندھا۔ 82ء میں ''پاکستان باکسنگ فیڈریشن'' کے تحت نیشنل ریفری، جج کا امتحان دیا۔


پھر ''کراچی باکسنگ ایسوسی ایشن'' کے جوائنٹ سیکریٹری ہوگئے، جس کے بعد ''سندھ باکسنگ ایسوسی ایشن'' کے جوائنٹ سیکریٹری کی ذمے داری سنبھال لی۔ 90-91 میں وہ ''پاکستان باکسنگ فیڈریشن'' کے جوائنٹ سیکریٹری مقرر ہوئے۔ یکم جنوری 2003 تک یہ ذمے داری خوش اسلوبی سے نبھائی۔ 88ء میں ''ایشین باکسنگ ایسوسی ایشن'' کے تحت ایشین ریفری، جج کا امتحان دے ڈالا، جس میں کھرے اترے۔ 96ء میں اُنھوں نے انٹرنیشنل ریفری، جج کا امتحان بھی کام یابی سے پاس کیا۔

پہلا غیرملکی دورہ 90ء میں کیا، جہاں ممبئی میں ہونے والی ''ورلڈ باکسنگ چیمپیئن شپ'' میں اُنھوں نے ٹیکنیکل آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 92ء میں ایران کا رخ کیا، جہاں ''انٹرنیشنل باکسنگ ٹورنامینٹ'' میں پہلی بار کمپیوٹر اسکورنگ سسٹم متعارف کروایا، جس کے خالق مرحوم پروفیسر انور چودھری تھے۔ اُسی برس تھائی لینڈ میں ہونے والے مقابلے میں منصف کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 94ء میں جاپان جانا ہوا۔ دو برس بعد فلپائن اور تھائی لینڈ میں ہونے والے ''اولمپکس کوالیفائنگ ٹورنامینٹ'' میں نیوٹرل ریفری، جج رہے۔ اُسی برس آزربائیجان میں ہونے والے ''چودھری کپ باکسنگ ٹورنامینٹ'' میں خدمات انجام دیں۔ 97ء میں ملایشیا جانا ہوا۔ 98ء میں تھائی لینڈ کا رخ کیا۔ اُسی برس امریکا میں ''سی این این'' کے تحت ہونے والے ''گڈوِل گیمز'' میں شرکت کی۔

چین کا دورہ بھی اسی سال کیا۔ 99ء میں جنوبی افریقا میں ہونے والے ''آل افریقا گیمز'' میں وہ ایشیا سے شرکت کرنے والے اکلوتے ریفری، جج تھے۔ 2000 میں ''سڈنی اولمپکس'' میں شرکت ایک خوش گوار لمحہ تھا، جہاں منصف بننے کے لیے باقاعدہ امتحانی مراحل سے گزرے۔ آنے والے برسوں میں تیونس، جاپان، تھائی لینڈ، ملایشیا اور کوریا میں ہونے والے مقابلوں میں خدمات انجام دیں۔ 2009 میں پاکستانی ٹیم نے اولمپکس کی تیاریوں کے لیے جنوبی کوریا اور ترکی کا رخ کیا، اس بار انھوں نے ''ٹیم لیڈر'' کے طور پر ذمے داریاں سنبھالیں۔

اُسی برس ''ورلڈ باکسنگ چیمپیئن شپ'' میں شرکت کی غرض سے اٹلی گئے۔ وہ دورہ کئی حوالوں سے یادگار رہا۔ تشکیل نو سے گزرتی ''پاکستان باکسنگ فیڈریشن'' کے عہدے داروں کی اُنھوں نے ''انٹرنیشنل باکسنگ فیڈریشن'' کے عہدے داروں سے ملاقات کا اہتمام کیا، جدید کمپیوٹر اسکورنگ سسٹم کی شدبُد حاصل کی۔ 2010 میں آزربائیجان میں ہونے والے مقابلوں میں وہ پاکستانی ٹیم کے مینیجر تھے۔ 2011 میں اُنھوں نے قازقستان کا سفر کیا۔ یہ آخری غیرملکی دورہ تھا۔

علی اکبر شاہ کو شکایت ہے کہ اب پاکستان باکسنگ میں بہت سیاست آگئی ہے۔ ''آج جو باکسنگ کی ابجد سے بھی واقف نہیں، وہ اخبارات میں بہ طور باکسنگ ایکسپرٹ بیانات دے رہے ہیں۔ بے شک ایک زمانے میں پاکستان، باکسنگ میں عروج پر تھا، مگر موجودہ حالات کو آپ زوال پر محمول نہیں کرسکتے۔ گذشتہ دو تین برس میں انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کی کارکردگی اتنی بری نہیں رہی۔ تنقید کرنے والے حقائق سے آگاہ نہیں۔ ہم نے 'کامن ویلتھ گیمز' میں دو کانسی کے تمغے جیتے۔ 'سائوتھ ایشین گیمز' میں بھی ہم نے میڈلز لیے۔

'ایشین اسپورٹس فیسٹول' میں ہمارے لڑکوں نے گولڈ میڈل جیتا۔'' راہ میں حائل رکاوٹوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق 2006 میں پروفیسر انور چودھری کی انٹرنیشنل باکسنگ ایسوسی ایشن کے انتخابات میں شکست سے پاکستان باکسنگ کو شدید دھچکا پہنچا، رہی سہی کسر سینئر باکسرز کی ریٹائرمینٹ نے پوری کر دی، یوں پاکستان انٹرنیشنل باکسنگ سے باہر ہوگیا۔ خیر، 2008 میں نئے لوگ میدان میں آئے، جس کے بعد پاکستان کی دوبارہ انٹرنیشنل باکسنگ میں واپسی ہوئی۔''

ایران کا پہلا دورہ ایک خوش گوار یاد کی صورت ذہن میں محفوظ ہے۔ پروفیسر انور چودھری کا انتقال زندگی کا سب سے دُکھ بھرا لمحہ تھا۔ ''وہ مجھے اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے، میرے بچوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ اُن کی وفات سے مجھے گہرا صدمہ پہنچا۔'' اسپورٹس کے فروغ کے لیے، ان کے بہ قول وزارتِ کھیل کو وزارتِ تعلیم میں ضم کر دینا چاہیے۔ کہنا ہے، درس گاہیں نوجوانوں کو کھیل کی جانب راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرے میں پھیلے انتشار میں واضح کمی کا امکان ہے، بس شرط یہ ہے کہ اعلیٰ سطح پر سنجیدہ اور مربوط اقدامات کیے جائیں۔

من پسند لباس کا موضوع زیر بحث آیا، تو علی اکبر شاہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ خاصے پتلے دبلے ہیں، اور اُن کے جُثے کے لحاظ سے ڈھیلا ڈھالا لباس، یعنی شلوار قمیص ہی مناسب ہے۔ سی فوڈ سے رغبت ہے۔ معتدل موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شاعری سے گہرا شغف ہے۔ اُن کے بڑے بھائی، ایم ایس قادری شاعر بھی تھے، مصنف بھی۔ اُن کے تحریر کردہ جاسوسی ناولوں کی تعداد تین سو کے قریب ہے۔ تو اُن کے دیکھا دیکھی ادب سے دوستی ہوئی۔ زمانۂ نوجوانی میں شاعری کی محافل میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے مداح ہیں۔ اپنے استاد، ساقی جاوید کے کلام نے بھی متاثر کیا۔

فکشن میں نسیم حجازی کو سراہتے ہیں۔ ''طلسم ہوش رُبا'' کو اپنی پسندیدہ کتاب بتاتے ہیں۔ بچپن میں متعدد بار یہ کتاب پڑھی۔ اب بھی وقت ملتا ہے، تو اس ضخیم کتاب کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں۔ فلمیں بھی کسی زمانے میں شوق سے دیکھیں۔ ''میرا نام محبت'' بہت اچھی لگی۔ اِس میدان میں مادھوری ڈکشٹ کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ گائیکی میں مہدی حسن کے مداح ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے کوئی منصوبہ نہیں۔ ''مستقبل اﷲ تعالیٰ بناتا ہے۔ اگر میں فکر بھی کروں، تب بھی وہ تبدیل نہیں ہوگا۔''

خدا نے اُنھیں چار بیٹوں، تین بیٹیوں سے نوازا۔ بتاتے ہیں، اُن کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود کبھی گھر والوں نے یہ شکایت نہیں کی کہ وہ اُنھیں وقت نہیں دے پاتے۔ کہتے ہیں،''دراصل میں نے باکسنگ کو اپنے گھر کا فرد بنا رکھا ہے!''

لیاری، باکسنگ کا گڑھ مگر۔۔۔
بے شک آج لیاری باکسنگ کا گڑھ ہے، لیکن بہ قول اُن کے، ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ یہ تو صدر کا علاقہ تھا، جسے اِس کھیل کی نرسری کہا جانا چاہیے کہ وہیں بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمایندگی کرنے والے بیش تر باکسرز پیدا ہوئے۔ صدر میں واقع کلبز اور اسکولز نے نوجوان باکسرز کے شوق کو مہمیز کیا۔ کے پی ٹی گرائونڈ، اُن کے نزدیک دوسرا بڑا مرکز تھا، جہاں اقبال قریشی کی سرپرستی میں باکسنگ کے مقابلے ہوتے۔ ''ہاں، تیسرا مرکز لیاری تھا، لیکن آج صورت حال مختلف ہے۔ اب باکسنگ کو فقط لیاری تک محدود کر دیا گیا ہے، اور یہ ایک منفی رویہ ہے۔ باکسنگ کے فروغ کے لیے ہمیں ہر شہر، ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے ہوگی۔''

''اشاروں کی زبان''
علی اکبر شاہ اشاروں کی زبان کو بین الاقوامی زبان قرار دیتے ہیں۔ کہنا ہے، انگریزی بلاشبہہ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، لیکن غیرملکی دوروں کے دوران اُنھیں متعدد بار بڑی شدت سے احساس ہوا کہ یہ ابلاغ کے لیے کافی نہیں۔ اور جب کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوئی، دنیا کی قدیم ترین زبان ہی برتی۔ اشاروں کے ذریعے اپنا مدعا بیان کیا۔ بتاتے ہیں، ایک بار یورپ کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے، ویٹر نے گوشت سے تیارکردہ ایک ڈش سامنے لا کر رکھی۔ خیال گزرا، کہیں یہ گوشت حرام نہ ہو۔ ویٹر انگریزی نہیں جانتا تھا، سو اشاروں میں پوچھا، کس جانور کا گوشت ہے۔ اُس نے بھی اشارے سے جواب دیا، بطخ کا!
مطمئن ہونے کے بعد پلیٹ کی جانب متوجہ ہوئے۔
Load Next Story