ایک نوحہ جماعت اسلامی کے لیے
آمدہ بلدیاتی انتخاب میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی نوزائیدہ نسل بلے اور شیر کے نشان پر میدان میں اترے گی
جماعت اسلامی کا نام ونشان مٹایاجارہا ہے لیکن اس کا نوحہ لکھنے والا کوئی نہیں، پیپلزپارٹی کی رسوائی اورپسپائی پرتو جناب اسلم گورداسپوری اور حسن نثار سمیت کئی نامور اورمعتبر احباب نوحہ کناں دکھائی دیتے ہیں، دو متحارب نام نہاد نظریاتی جماعتوں کی پنجاب سے عبرت ناک رخصتی پرکوئی آنکھ پُرنم نہیں، پیپلزپارٹی نے تو پنجاب میں مقبولیت کی معراج کو چھوا لیکن جماعت اسلامی کامعاملہ تو کچھ یوں رہا۔
حسرت تو اُن غنچوں پر ہے جوبِن کھلے مرجھاگئے
آمدہ بلدیاتی انتخاب میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی نوزائیدہ نسل بلے اور شیر کے نشان پر میدان میں اترے گی۔ ہر یونین کونسل میں ان کا طاغوت مختلف ہوگا۔ کہیں بلا حق اور سچ کا نشان ہوگا تو ملحقہ یونین کونسل میں شیر حق اور سچ کی علامت قرار پائے گااوروہ موروثی سیاست، جس کے خلاف سید ابوالاعلی مودودی ؒمیدان میں آئے تھے اب لاہور کی حدتک صاحبزادگان کی سیاست میں ڈھل چکی ہے۔ اب پنجاب خصوصا جماعت اسلامی کے نام اورترازو کے نشان پر ایک نمایاں شخص یا اُس کی اولاد بلدیاتی انتخاب میں حصہ لینے کا نہیں سوچ سکتی کہ گلی محلے کی سیاست میں جہاں شخصی کردار اوررویے فتح اور شکست میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، عالم گیر اسلامی انقلاب کے یہ علمبرداراپنے گلی محلوںمیں اجنبی بن چکے ہیں۔
اس کالم نگار کی جوانی لاہور کے گلی کوچوں کی نذرہوئی ، اس لیے جماعت اسلامی کی مقامی سیاست اور شخصیات سے دیرینہ تعلق خاطر رہا ہے جس کی بنا پر حد درجہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اب جماعت اسلامی کی مقامی بلدیاتی سیاست ادنیٰ شخصی مفادات کاکھیل بن گئی ہے۔
جس نے لاہور شہر کی حقیقی اور فطری قیادت کوپنپنے نہ دیا۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید، ارشاد حسین سیٹھی سے لے کرحافظ سلمان بٹ تک اس کہکشاں کے چمکتے ہوئے ستارے تھے ، صرف حافظ صاحب بوجوہ اپنا دامن نہ چھڑاسکے ورنہ پنجاب کے دُور اُفتادہ مقامات اور گم نام خاندانوں کے چشم وچراغ جماعت اسلامی کی سیاست پر ایسے چھائے کہ مقامی قائدین کے لیے کوئی جگہ نہ رہی۔ اب صرف خوش نما اصطلاحات کے ذریعے تسکین قلب کرکے اپنے آپ کو دھوکا دیا جا رہا ہے اس لیے سب احساس سودوزیاں سے بالا تر ہوچکے ہیں، اسی لیے جماعت اسلامی کے زوال پر کوئی نوحہ گری نہیں ہورہی۔
ویسے اگر جماعت اسلامی کے میدان سیاست میں میزانیہ مرتب کیاجائے تو ہر لحاظ سے دامن خالی دکھائی دیتا ہے۔ جماعت اسلامی نے حکمت عملی کی آڑ میں اتحادوں کی سیاست کی ہے جس میں وقت آخر نقصان ہی اس کے حصے میں آیا۔
مادر ملت فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب میں سید مودودیؒ نے جنرل ایوب خاں کا مقابلہ کیا۔ 71ء کے پہلے عام انتخابات میںجو کچھ ہوا اب وہ تاریخ کاحصہ ہے۔ مرحوم مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کامقابلہ صرف جماعت اسلامی نے کیا تھا جہاں دوسرے نمبر پر آنے والے تمام امیدوار جماعت سے ہی تعلق رکھتے تھے جب کہ مغربی پاکستان میں کراچی کی دو تین نشستوں اور پنجاب سے ڈاکٹر نذیرشہید کے بعدخاطر خواہ کامیابی صوبہ سرحدسے ملی تھی ۔خیبر پی کے (صوبہ سرحد) کی حد تک 71ء کے یہ نتائج جماعت اسلامی کے لیے حرف آخر بن گئے۔ 77کے متنازعہ انتخابات تو پارلیمانی جمہوری نظام کو لے ڈوبے ۔کراچی میں ایم کیو ایم کے ظہورکے بعد پسپائی گہری کھائی کا سفر بن گیا۔
1985کے غیرجماعتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں نے مختلف نشانوں پر جیت کر فاتحانہ چمک دکھائی جو فوراًہی حقائق کی تاریکیوں میں معدوم ہوگئی، اس کے بعد اتحادوں کی سیاست کااحیاء ہوا۔ پیپلزپارٹی سے نفرت کی بنیاد پر پاگل پن کی سیاست کو بامِ عروج پر لے جایا گیاجس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کا فکری اثاثہ ایسا تتربتر ہو کہ داستان کو فی و شامی بن گیا۔مایوسی کے اس ماحول میں قاضی حسین احمد عوامی انداز لیے نمودار ہوئے۔ وہ چی گویرا بن کر نمودار ہوئے ،لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے جاگیردار غلام مصطفی جتوئی کی سربراہی میں بننے والے نوستاروں والے اتحاد کا حصہ بننے پر مجبور ہوئے مصلحت اورمصالحت کی سیاست نے پھر وہ دن دکھائے کہ
جوناخوب تھا بتدریج خوب ہوا
غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کا ضمیر
اسی اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی) کی تشکیل میں سرکاری پیسے کے استعمال اور آئی ایس آئی کے افسروں کے سپریم کورٹ میں بیانات نے اب مدتوں بعد پارلیمانی نظام کو ایک بارپھر داؤ پر لگایا ہوا ہے۔
1988-1998 میں نواز شریف پنجاب کے مسلمہ رہنما بن کر اُبھرے۔ انھوں نے پارلیمان کی بالادستی کے نام پر غلام اسحق خاں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور جو بھی ان کی راہ میں آیاوہ بلڈوز کرتے گئے۔ اوربلاآخر جنرل مشرف سے جا ٹکرائے اورجدہ جلاوطن ہوئے۔
آویزش اورکشمکش کے اس دور میں جماعت اسلامی کا محبت اور نفرت کا سلسلہ نواز شریف خاندان سے جاری رہا۔ انفرادی سطح پر لاہوری گروپ کی فائلیںشرف باریابی پاتی رہیں ۔ مورثی سیاست کا جماعت اسلامی میں نفوذ ہوا ، درمیان میں اپنے بل بوتے پر اسلامی فرنٹ کاناکام تجربہ درپیش ہوا اور پھر ایک الیکشن کابائیکاٹ کیا گیا۔ حددرجہ متحرک قاضی حسین احمد راہی عدم ہوئے تو سید منور حسن جلوہ افروز ہوئے، درویش صفت اور ایسے اکھل کھرے کہ بندہ ضایع کردیں جملہ ترک نہ کریں۔
انھیں جماعت اسلامی کی اجتماعی دانش نے قبول نہ کیا تو اب عملیت پسند سراج الحق اقتدار کے کھیل کا حصہ ہیں، سراج الحق ایسے شاندار حکمت کار ہیں کہ فضل الرحمن کے نامزد وزیراعلی اکرم درانی کے سینئر وزیر رہے اور اپنے دامن پہ دھبہ نہ لگنے دیا ۔آج وہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں شامل ہیں لیکن کراچی کے ضمنی انتخاب میں خواہش کے باوجود ضمانت ضبط کرانے والے راشد نسیم تحریک انصاف کے اُمیدوار کے حق میں دستبردار نہ کراسکے۔
جعلی ڈگری کے مقدمے میں نااہل قرار پانے والے رکن جماعت اسلامی ملک بہرام خاں کے صاحبزادے ملک اعظم کو بڑے دھڑلے سے ٹکٹ دیا کہ زمینی حقائق کاتقاضایہی تھا۔ ملک بہرام کے خلاف کارروائی کے حوالے سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کومصلحت آمیزی کاشاہکار قرار دیاجاسکتا ہے۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی کہانی بڑی دردناک ہے۔ اپنی ادنیٰ سیاسی خواہشات پر چند صالحین کاگروہ اربوں روپے ضایع کرکے آج تک صرف ایک بار ایک نشست حاصل کرسکا ہے۔ ایک نیم خواندہ شخص 12ماہ میں 24غیرملکی دورے کرتااورکشمیر، جہاد کشمیر کا مقدمہ لڑتاہے، لفافے اور کفافے کے لیے برادران یوسف ایک دوسرے کے بچے بیچ کھاتے ہیں لیکن ذراغم نہیں کھاتے، ڈکار نہیں لیتے اور اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے بڑی دیدہ دلیری سے قومی سلامتی کے اداروں پر الزامات لگاکرفارغ ہوجاتے ہیں۔
حرف آخر ، جماعت کی توجہ کے لیے۔ اسلام آباد کے وسط میں ایک جائیداد کو صرف 85ہزار روپے ماہانہ کرائے پر دس سال کے لیے ایک نجی تعلیمی ادارے کے سپردکردیا گیا ہے۔ اس سے ملحقہ سیکٹر میں ایک کنال کے گھر کا کرایہ دو لاکھ روپے سے کم نہیں ہے، اس جائیداد کو ماہانہ 30سے 50لاکھ روپے اپنی طے شدہ شرائط پر آسانی سے کرائے پر دیاجاسکتا ہے ۔سراج الحق سمیت کون ہے جو اس کاراستہ روکے گا شائد کوئی بھی نہیں۔
ہم ایسے بدنصیب ہیں جو صرف نوحہ گری کے لیے رہ گئے ہیں ۔کہاں گئی، وہ پاکیزگی، وہ تقوی، وہ طہارت جوکبھی جماعت اسلامی کا طرئہ امتیاز تھی انتخابی سیاست نے سب کچھ نگل لیا، اب رہ گئی مصلحت اور مصالحت پر مبنی حیلہ جوئی ، حیلہ سازی اورکچھ نوح گر جو نوحہ کناں ہیں۔
حسرت تو اُن غنچوں پر ہے جوبِن کھلے مرجھاگئے
آمدہ بلدیاتی انتخاب میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی نوزائیدہ نسل بلے اور شیر کے نشان پر میدان میں اترے گی۔ ہر یونین کونسل میں ان کا طاغوت مختلف ہوگا۔ کہیں بلا حق اور سچ کا نشان ہوگا تو ملحقہ یونین کونسل میں شیر حق اور سچ کی علامت قرار پائے گااوروہ موروثی سیاست، جس کے خلاف سید ابوالاعلی مودودی ؒمیدان میں آئے تھے اب لاہور کی حدتک صاحبزادگان کی سیاست میں ڈھل چکی ہے۔ اب پنجاب خصوصا جماعت اسلامی کے نام اورترازو کے نشان پر ایک نمایاں شخص یا اُس کی اولاد بلدیاتی انتخاب میں حصہ لینے کا نہیں سوچ سکتی کہ گلی محلے کی سیاست میں جہاں شخصی کردار اوررویے فتح اور شکست میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، عالم گیر اسلامی انقلاب کے یہ علمبرداراپنے گلی محلوںمیں اجنبی بن چکے ہیں۔
اس کالم نگار کی جوانی لاہور کے گلی کوچوں کی نذرہوئی ، اس لیے جماعت اسلامی کی مقامی سیاست اور شخصیات سے دیرینہ تعلق خاطر رہا ہے جس کی بنا پر حد درجہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اب جماعت اسلامی کی مقامی بلدیاتی سیاست ادنیٰ شخصی مفادات کاکھیل بن گئی ہے۔
جس نے لاہور شہر کی حقیقی اور فطری قیادت کوپنپنے نہ دیا۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید، ارشاد حسین سیٹھی سے لے کرحافظ سلمان بٹ تک اس کہکشاں کے چمکتے ہوئے ستارے تھے ، صرف حافظ صاحب بوجوہ اپنا دامن نہ چھڑاسکے ورنہ پنجاب کے دُور اُفتادہ مقامات اور گم نام خاندانوں کے چشم وچراغ جماعت اسلامی کی سیاست پر ایسے چھائے کہ مقامی قائدین کے لیے کوئی جگہ نہ رہی۔ اب صرف خوش نما اصطلاحات کے ذریعے تسکین قلب کرکے اپنے آپ کو دھوکا دیا جا رہا ہے اس لیے سب احساس سودوزیاں سے بالا تر ہوچکے ہیں، اسی لیے جماعت اسلامی کے زوال پر کوئی نوحہ گری نہیں ہورہی۔
ویسے اگر جماعت اسلامی کے میدان سیاست میں میزانیہ مرتب کیاجائے تو ہر لحاظ سے دامن خالی دکھائی دیتا ہے۔ جماعت اسلامی نے حکمت عملی کی آڑ میں اتحادوں کی سیاست کی ہے جس میں وقت آخر نقصان ہی اس کے حصے میں آیا۔
مادر ملت فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب میں سید مودودیؒ نے جنرل ایوب خاں کا مقابلہ کیا۔ 71ء کے پہلے عام انتخابات میںجو کچھ ہوا اب وہ تاریخ کاحصہ ہے۔ مرحوم مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کامقابلہ صرف جماعت اسلامی نے کیا تھا جہاں دوسرے نمبر پر آنے والے تمام امیدوار جماعت سے ہی تعلق رکھتے تھے جب کہ مغربی پاکستان میں کراچی کی دو تین نشستوں اور پنجاب سے ڈاکٹر نذیرشہید کے بعدخاطر خواہ کامیابی صوبہ سرحدسے ملی تھی ۔خیبر پی کے (صوبہ سرحد) کی حد تک 71ء کے یہ نتائج جماعت اسلامی کے لیے حرف آخر بن گئے۔ 77کے متنازعہ انتخابات تو پارلیمانی جمہوری نظام کو لے ڈوبے ۔کراچی میں ایم کیو ایم کے ظہورکے بعد پسپائی گہری کھائی کا سفر بن گیا۔
1985کے غیرجماعتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں نے مختلف نشانوں پر جیت کر فاتحانہ چمک دکھائی جو فوراًہی حقائق کی تاریکیوں میں معدوم ہوگئی، اس کے بعد اتحادوں کی سیاست کااحیاء ہوا۔ پیپلزپارٹی سے نفرت کی بنیاد پر پاگل پن کی سیاست کو بامِ عروج پر لے جایا گیاجس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کا فکری اثاثہ ایسا تتربتر ہو کہ داستان کو فی و شامی بن گیا۔مایوسی کے اس ماحول میں قاضی حسین احمد عوامی انداز لیے نمودار ہوئے۔ وہ چی گویرا بن کر نمودار ہوئے ،لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے جاگیردار غلام مصطفی جتوئی کی سربراہی میں بننے والے نوستاروں والے اتحاد کا حصہ بننے پر مجبور ہوئے مصلحت اورمصالحت کی سیاست نے پھر وہ دن دکھائے کہ
جوناخوب تھا بتدریج خوب ہوا
غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کا ضمیر
اسی اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی) کی تشکیل میں سرکاری پیسے کے استعمال اور آئی ایس آئی کے افسروں کے سپریم کورٹ میں بیانات نے اب مدتوں بعد پارلیمانی نظام کو ایک بارپھر داؤ پر لگایا ہوا ہے۔
1988-1998 میں نواز شریف پنجاب کے مسلمہ رہنما بن کر اُبھرے۔ انھوں نے پارلیمان کی بالادستی کے نام پر غلام اسحق خاں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور جو بھی ان کی راہ میں آیاوہ بلڈوز کرتے گئے۔ اوربلاآخر جنرل مشرف سے جا ٹکرائے اورجدہ جلاوطن ہوئے۔
آویزش اورکشمکش کے اس دور میں جماعت اسلامی کا محبت اور نفرت کا سلسلہ نواز شریف خاندان سے جاری رہا۔ انفرادی سطح پر لاہوری گروپ کی فائلیںشرف باریابی پاتی رہیں ۔ مورثی سیاست کا جماعت اسلامی میں نفوذ ہوا ، درمیان میں اپنے بل بوتے پر اسلامی فرنٹ کاناکام تجربہ درپیش ہوا اور پھر ایک الیکشن کابائیکاٹ کیا گیا۔ حددرجہ متحرک قاضی حسین احمد راہی عدم ہوئے تو سید منور حسن جلوہ افروز ہوئے، درویش صفت اور ایسے اکھل کھرے کہ بندہ ضایع کردیں جملہ ترک نہ کریں۔
انھیں جماعت اسلامی کی اجتماعی دانش نے قبول نہ کیا تو اب عملیت پسند سراج الحق اقتدار کے کھیل کا حصہ ہیں، سراج الحق ایسے شاندار حکمت کار ہیں کہ فضل الرحمن کے نامزد وزیراعلی اکرم درانی کے سینئر وزیر رہے اور اپنے دامن پہ دھبہ نہ لگنے دیا ۔آج وہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں شامل ہیں لیکن کراچی کے ضمنی انتخاب میں خواہش کے باوجود ضمانت ضبط کرانے والے راشد نسیم تحریک انصاف کے اُمیدوار کے حق میں دستبردار نہ کراسکے۔
جعلی ڈگری کے مقدمے میں نااہل قرار پانے والے رکن جماعت اسلامی ملک بہرام خاں کے صاحبزادے ملک اعظم کو بڑے دھڑلے سے ٹکٹ دیا کہ زمینی حقائق کاتقاضایہی تھا۔ ملک بہرام کے خلاف کارروائی کے حوالے سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کومصلحت آمیزی کاشاہکار قرار دیاجاسکتا ہے۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی کہانی بڑی دردناک ہے۔ اپنی ادنیٰ سیاسی خواہشات پر چند صالحین کاگروہ اربوں روپے ضایع کرکے آج تک صرف ایک بار ایک نشست حاصل کرسکا ہے۔ ایک نیم خواندہ شخص 12ماہ میں 24غیرملکی دورے کرتااورکشمیر، جہاد کشمیر کا مقدمہ لڑتاہے، لفافے اور کفافے کے لیے برادران یوسف ایک دوسرے کے بچے بیچ کھاتے ہیں لیکن ذراغم نہیں کھاتے، ڈکار نہیں لیتے اور اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے بڑی دیدہ دلیری سے قومی سلامتی کے اداروں پر الزامات لگاکرفارغ ہوجاتے ہیں۔
حرف آخر ، جماعت کی توجہ کے لیے۔ اسلام آباد کے وسط میں ایک جائیداد کو صرف 85ہزار روپے ماہانہ کرائے پر دس سال کے لیے ایک نجی تعلیمی ادارے کے سپردکردیا گیا ہے۔ اس سے ملحقہ سیکٹر میں ایک کنال کے گھر کا کرایہ دو لاکھ روپے سے کم نہیں ہے، اس جائیداد کو ماہانہ 30سے 50لاکھ روپے اپنی طے شدہ شرائط پر آسانی سے کرائے پر دیاجاسکتا ہے ۔سراج الحق سمیت کون ہے جو اس کاراستہ روکے گا شائد کوئی بھی نہیں۔
ہم ایسے بدنصیب ہیں جو صرف نوحہ گری کے لیے رہ گئے ہیں ۔کہاں گئی، وہ پاکیزگی، وہ تقوی، وہ طہارت جوکبھی جماعت اسلامی کا طرئہ امتیاز تھی انتخابی سیاست نے سب کچھ نگل لیا، اب رہ گئی مصلحت اور مصالحت پر مبنی حیلہ جوئی ، حیلہ سازی اورکچھ نوح گر جو نوحہ کناں ہیں۔