جہالت کو تعلیم سے مات دیں

کس قدر ناگوار احساس ہے کہ آپ کے ملک سے سالانہ 28لاکھ ٹن گائے کا گوشت برآمد کیا جاتا ہے


علی احمد ڈھلوں October 21, 2015

''دفعہ ہو جاؤ پاکستان، یہاں کیوں رہتے ہو؟'' یہ الفاظ ممبئی پولیس کے اہلکاروں کے ہیں جنہوں نے دو مسلمان لڑکوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے کہے،''گاؤ ماتا کا گوشت کیوں کھایا، مار دو اسے'' دادری میں ایک مسلمان شخص کو قتل کر دیا گیا۔

'' سدھندا کلکرنی تم غدار ہو'' خورشید قصوری کی انڈیا میں کتاب کی رونمائی کے موقعے پر وہاں کے منتظم سدھندا کلکرنی کے منہ پر سیاہی پھینک دی گئی۔ ''بیف پارٹی کیوں کی؟'' مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن انجینئر راشد کو پہلے اسمبلی کے اندر زدوکوب کیا گیا، بعد میں ان کے منہ پر سیاہی پھینک دی گئی۔ ''پورا خاندان سنگسار کردو'' معمولی لڑائی پر مسلم خاندان کے افراد کو ننگا کر کے بازاروں میں گھمایا گیا۔ '' بھارت آج کل اس طرح کے واقعات سے اٹا پڑا ہے۔

مودی صاحب! کس قدر ناگوار احساس ہے کہ آپ کے ملک سے سالانہ 28لاکھ ٹن گائے کا گوشت برآمد کیا جاتا ہے اور آپ دنیا بھر میں گائے کا گوشت برآمد کرنے والوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

پھر بھی آپ سرکار کے زیر سایہ ایک ایسے شخص کو مار دیا جاتا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا ہے اور ان لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے جو اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ آپ شراب پر پابندی کیوں نہیں لگا دیتے؟ اور سور کے گوشت پر پابندی کیوں نہیں لگا دیتے کیوں کہ یہ دونوں چیزیں مسلمانوں کے نزدیک حرام ہیں۔ مودی صاحب! آپ بطور انسان اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ آپ کے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ رات کو بھوکا سوتا ہے۔ آپ یہ بھی سوچیں کہ آپ کے ملک کے کروڑوں بچے رات کو سڑکوں پر سوتے ہیں اور تعلیم سے بہت دور ہیں۔

میں صرف انڈیا میں ہونے والی جہالت کی کارروائیوں کے خلاف نہیں بلکہ اس خطے میں تباہ کن جہالت کے خلاف ہوں۔ ہمارا ملک بھی ''جہالت'' میں پیچھے نہیں۔ نوجوان اور کم سن لڑکیوں کو ونی قرار دینا، بعض قبائلیوں کی روایت کے مطابق خواتین کو زندہ دفن کرنا، بچوں پر جنسی تشدد کی ویڈیوز منظر عام پر آنا، عیسائی جوڑے کو زندہ جلا دینا، ہجوم کے ہاتھ بے گناہوں کے قتل اور درباروں پر غلط رسومات کا عام ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان بھی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اور امکان غالب ہے کہ برسوں بعد بھی یہ حالات جوں کے توں رہیں گے۔ کیوں کہ اس خطے میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ۔

'خطے' کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ افغانستان اور بنگلہ دیش بھی جہالت سے مبراء نہیں ہیں۔میرے ایک دوست جو قوموں کے مزاج کو سمجھنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں نے مجھے کہا کہ یہ کہاوت واقعی بڑی فٹ بیٹھتی ہے کہ افغانیوں کو ہر وقت کسی نہ کسی دشمن کے ساتھ محاذ جنگ میں رہنا چاہیے ورنہ یہ ایسی قوم ہے کہ آپس میں ہی جنگ شروع کردے۔ مجھ پر یہ نام نہاد ''کہاوت'' بڑی ناگوار گزری، میں کہتا ہوں کہ آج اس قوم کو اچھی تعلیم فراہم کردی جائے اور یہ قوم پڑھ لکھ جائے تو یہ پوری دنیا کو تسخیر کر سکتی ہے۔

یہ ایجوکیشن ہی ہے جس کے نہ ہونے کی وجہ سے آج کے دور میں انڈیا سادھوؤں اور پنڈتوں کا ایک ایسا گروہ بھی پایا جاتا ہے کہ جس کے لیے انسانی گوشت کھانا معمول ہے۔ اور تو ہمارے سیاستدان میں بھی جہالت کی کمی نہیں ہے بڑی تعداد میں سیاست دان ستاروں کی چال اور سادوھوؤں اور عاملوں کی ہدایت کے مطابق ہی اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرتے رہے ہیں۔انڈیا میں بڑھتی ہوئی جہالت اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتی سائنسدانوں کے تیار کردہ راکٹ اور مصنوعی سیارے بھی اب سادھوؤں کی پوجا کے بعد ہی خلا میں بھیجے جاتے ہیں۔ یہی نہیں یہ سادھو اب راکٹوں کی پرواز کا موزوں وقت بھی بتاتے ہیں۔

ہمارے ہاں بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک صاحب کا پورا گھرانہ پڑھا لکھا ہے، لیکن منگل کے دن کوئی کام شروع نہیں کرتے کہ منحوس ہوگا۔ کیا یہ عقل مندی کا تقاضا ہے؟رات کو جھاڑو دینا نحس، اور شیشہ دیکھناچہرے پہ جھریاں لانے کا باعث خیال کیا جاتا ہے۔ بدھ والے دن گوشت کا نہ ملنا، دودھ گرنا بد شگونی، یورپ میں 13کا عددنحوست کی علامت۔ حالانکہ ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں۔

آخر میں ایک قصہ ملاحظہ فرمائیں ''کہتے ہیں ایک بادشاہ سویرے سویرے شکار کرنے کے لیے اپنے خدام کے ساتھ نکلا۔ ابھی معمولی راستہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک سامنے سے ایک سیاہ فام غلام آگیا۔ بادشاہ سلامت چونکہ بہت توہم پرست تھے، اس لیے انھوں نے لشکر کو واپسی کا حکم دیا اوراس غلام کو پکڑ کر جیلبھیج دیا۔

وہ پورا دن جیل میں پڑا رہا ۔ جب شام ہوئی تو بادشاہ نے اسے طلب کیا اور کہا کہ تو بہت منحوس آدمی ہے۔ تیری وجہ سے آج ہم شکار کا شوق پورا نہیں کر سکے۔

غلام جو بہت عقل مند تھا، اس نے کہا: بادشاہ سلامت!جان کی امان پاؤں توکچھ عرض کروں۔ بادشاہ نے اجازت دی تو اس نے کہا: بادشاہ سلامت! صبح صبح آپ اپنے گھر سے نکلے، میں اپنے گھر سے، آپ میرے سامنے آئے اور میں آپ کے۔ نتیجہ کیا ہوا کہ آپ خیر خیریت سے واپس محل آگئے اور میں جیل پہنچ گیا۔ اگر نحوست کی بات درست ہے تو آپ زیادہ بڑے منحوس ٹھہرے کہ آپ کا سامنا ہوتے ہی مجھے جیل کی ہوا کھانی پڑی۔'' اس قصے سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ ''منحوس'' کوئی بھی ہو سکتا ہے فرق صرف سوچ کا ہے۔

ہمیں اس وقت یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک تعلیم پر توجہ دیں اور خصوصاََ اس وقت دونوں ملکوں پاکستان اور انڈیا کو سوچنا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہر ملک میں نفرت پھیلانے والے عناصر کی تعداد مٹھی برابر ہوتی ہے اسی لیے دونوں ملکوں کے مابین دشمنی کا فائدہ دونوں ملکوں میں موجود انتہا پسند اٹھا رہے ہیں۔

بہت سے بھارتی اور پاکستانی دونوں پڑوسیوں پر مخالفتیں ترک کرنے اور نئے سرے سے آغاز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔پورا بھارت شیو سینا کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے، لگتا ایسے ہے کہ کانگریس تو اب ختم ہو چکی ہے۔ اگر اس خطے میں تعلیم بہتر ہوگی تو سب حالات خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے ورنہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تعلیم کے بغیر آپ جہالت کو مات دے دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں