مہران بینک اسکینڈل
مہران بینک اسکینڈل کا معاملہ پھر ذرایع ابلاغ کی سرخیوں میں آگیا
ISLAMABAD:
مہران بینک اسکینڈل کا معاملہ پھر ذرایع ابلاغ کی سرخیوں میں آگیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری کرتے ہوئے ایف آئی اے ٹیم کے سامنے بیان ریکارڈ کرا دیا۔ انھوں نے اپنے بیان میں کالعدم مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب سے کسی قسم کی رقم وصول کرنے کے الزام کی تردید کی۔ 1988میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات سے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو توڑ دیا اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے اس کے ساتھ انتخابات کو ملتوی کرنے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا تھا لیکن جنرل ضیاء الحق C-130طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے ۔ سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان قائم مقام صدر بن گئے اور ملک میں 90دن میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی قیادت میں میدان میں آگئی اور یہ محسوس ہونے لگا کہ پیپلز پارٹی انتخابات بھاری اکثریت سے جیت لے گی۔
غلام اسحاق خان کی ایماء پر جماعت اسلامی ، مسلم لیگ ، نیشنل پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد قائم کیا گیا ۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کے معاہدے کے بعد بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں مگر پنجاب میں میاں نواز شریف اور بلوچستان میں ایک ہنگامے کے بعد نواب اکبر بگٹی وزیر اعلیٰ بنے۔ غلام اسحاق خان نے 19ماہ بعد بے نظیر بھٹو حکومت کو برطرف کر دیا ۔ 90دن میں دوبارہ انتخابات منعقد ہوئے ۔
پیپلز پارٹی اور تحریک استقلال نے مشترکہ طور پر انتخاب میں حصہ لیا۔اسلامی جمہوری اتحاد میں ایم کیوایم بھی شامل ہوئی۔ انتخابات کے بعد تحریک استقلال کے صدرائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے سپریم کورٹ میں ایک عرضداشت داخل کی تھی جس میں الزام لگایا گیا کہ غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کی ہدایت پر آئی جی آئی میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کو خفیہ فنڈز فراہم کیے گئے۔ بعد میں آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ جمع کرایاجس میں سیاست دانوں اور صحافیوں کو فنڈز فراہم کرنے کا اقرارکیا تاکہ پیپلز پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑے۔
بریگیڈئیر امتیاز نے جو عسکری اور سویلین ایجنسیوں میں اہم عہدوں پر تعینات تھے ریٹائرمنٹ کے بعد ٹی وی انٹرویو میں یہ اقرارکیا تھا کہ آئی جی آئی کا اتحاد قائم کرنے میں مدد فراہم کی تھی تاکہ پیپلز پارٹی کا راستہ روکا جائے مگر سپریم کورٹ میں بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر 22سال تک اس مقدمے کی سماعت نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا جب وزیر اعظم نواز شریف سے تنازعہ شدت اختیار کر گیا تو انھوں نے اس اسکینڈل مقدمے کی سماعت شروع کی مگر وہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکے۔ یہ کیس پھر سے فائلوں میں دب گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اکتوبر 2012میں اس مقدمے کی سماعت کے بعد ایف آئی اے کو حکم دیا تھا کہ اس کیس میں شامل افراد کے بیانات قلم بند کرے مگر اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر ہے۔ ابھی تک سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ نہیں دیا۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سب سے پہلے اپنا بیان ایف آئی اے کے متعلقہ افسروں کے سامنے قلم بند کرایا ۔ اس بیان سے پہلے یونس حبیب اپنے بیان میں ترمیم کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے شریف برادران کو کوئی رقم نہیں دی تھی۔ اگرچہ اس اسکینڈل میں میں شامل غلام مصطفی جتوئی ، عبدالحفیظ پیرزادہ انتقال کرچکے ہیں مگرایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، میاں برادران،جاوید ہاشمی زندہ ہیں اور یہ سب ان الزامات کی تردید کرتے ہیں مگر ان رہنماؤں نے ایف آئی اے کے سامنے اپناموقف تحریری طورپر پیش نہیں کیا ہے۔
اسی طرح جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی بھی اپنے بیانات ریکارڈ کرانے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ ریوویو پٹیشن کی سماعت کا انتظارکر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما تاج حیدر کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت 2008سے 2013تک ملک میں برسراقتدار رہی مگر سیاسی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد اور میثاق جمہوریت کی خاطر اس اسکینڈل پر زور نہیں دیا تھا ۔
پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں اور مقتدرہ کی جانب سے سیاسی جوڑ توڑ اپنی مرضی کے نتائج کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی پاکستان کی تاریخ ہے۔ 50کی دھاندلی میں پنجاب اسمبلی کے لاہور میں ہونے والے انتخاب میں کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار مرزا ابراہیم کو ناکام بنانے کے لیے مسلم لیگ کے امیدوار احمد سعیدکرمانی کوکامیاب کرایا گیا تو جھرلوں پھرنے کی اصطلا ح رائج ہوئی۔ ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے منظم منصوبے کے تحت شکست دی۔ 1970کے انتخابات پر آزادامیدواروں کو کامیاب کرانے کی کوشش کی گئی۔
1977کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے محدود دھاندلی کے منصوبے پر عمل کیا۔ اس طرح 1988سے 2013 تک کے انتخابات میں اسی طرح کوشش ہوئی مگر ان تمام کوششوں سے ملک کے استحکام کو نقصان پہنچا۔ اب جب حکومت ، فوج اور عدلیہ سب احتساب پر متفق ہیں اس صورتحال میں اس کیس کے تمام فریقوں کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کورضاکارانہ طور پر اقرارکرنے والوں کو معاف کرنے کی روایت پر عمل کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی ادارہ یا فرد انتخابی عمل میں مداخلت نہ کرے۔