’’علاج محبت‘‘

محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے، یہ جملہ جس قدر پرانا اور گھسا پِٹا ہے۔

shehla_ajaz@yahoo.com

DONETSK:
محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے، یہ جملہ جس قدر پرانا اور گھسا پِٹا ہے، اسی قدر نوخیز اور تر و تازہ بھی ہے، اسی لیے کہ ناپختہ ذہنوں اور پنپتی قومیں اس جملے کو اپنے لیے خود تراش خراش کر اختیار کر لیتی ہیں، کسی حد تک، کہاں تک اور اگر جائز نہیں تو پھر کیا کچھ اس ناجائز کو جائز بنانے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

محبت اور جنگ کے بارے میں ہمارے آج کا میڈیا بھی بھرپور کردار ادا کر رہا ہے، جنگ کا موضوع بہت سی تلخیاں، دکھ، آنسو سمیٹے ہوئے ہیں، پھر بھی محبت کے بارے میں اس کا پلڑہ بھاری ہے کہ جنگ خون سے تحریر ہوتی ہے، اگر دیکھا جائے تو محبت اور جنگ ایک دوسرے سے جڑے بھی ہیں اور متضاد بھی ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مجھے بڑوں کے لیے افسانے لکھنے کا شوق ہوا تھا، خاص کر جب رومانوی ڈائجسٹوں کے لیے لکھنا کم عمر لڑکیوں کے لیے بہت عظیم سمجھا جاتا ہو۔ بہر حال ایسے ہی چند اچھے لوگوں سے تعارف ہوا، وہ آج بھی میرے لیے بہت معتبر اور پیارے ہیں کیونکہ اچھے لوگ کسی بھی شخصیت کی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دیکھو تم اچھا لکھتی ہو، تم میں ٹیلنٹ ہے، لیکن اگر تم ہمارے شمارے کے لیے لکھنا چاہتی ہو تو اس کے لیے تم اسی طرح سے کہانی ترتیب دو کہ ایک بڑا خاندان ہو کزنز ہوں، چھیڑ چھاڑ ہو، کیونکہ ہمارے یہاں لڑکیاں ایسا ہی پسند کرتی ہیں ہمارے یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم بھی رائج ہے خاص کر چھوٹے شہروں میں تو بہت ہے، وہاں اس طرح پسند کیا جاتا ہے۔

ذہن میں ایسی کہانیاں بننے لگیں۔ ایک اور ٹرینڈ سامنے آیا اور پھر مجھے کہا گیا ''کہانیاں ساری ایک جیسی ہوتی ہیں ایک ہیرو ایک ہیروئن ان کے درمیان رقیب، لیکن پتہ ہے آج کل ولن ٹائپ کے ہیروز کو بہت پسند کیا جا رہا ہے، پتہ نہیں ہمارے یہاں کی بچیوں کو کیا ہو گیا ہے۔ دراصل زیادہ تر ریڈر فرسٹ ایئر، سیکنڈ ایئر کی ہوتی ہیں وہ فوراً اسے فلمی انداز میں ہیروئن کی جگہ خود کو سوچتی ہیں، ایک اور حماقت یہ ہے کہ اپنے اوپر ظلم ہوتا دیکھ کر اور انجوائے کرتی ہیں۔ یعنی مظلوم ہیروئن وہ بھی ہیرو یا اس کے گھر والوں کے ظلم برداشت کرتی ہیروئن، دیکھو فلاں کو دیکھو ان کا ناول کس قدر پسند کیا گیا ہمیں ملک بھر سے اتنے خطوط موصول ہوتے ہیں، پسندیدگی کے نہ پوچھو، اب کیا کریں یہ فلمیں بھی بہت برباد کرتی ہیں ذہنوں کو ہم کیا کریں'' وہ نہایت سچائی سے اپنا آپ بچا گئی۔

یہ تو یہاں پر بس نہیں ہوا، ٹی وی ڈرامہ ہو یا فلم، اس قسم کے موضوعات کا ایک موسم ہوتا ہے، مثلاً اس سیزن عورت اور مظلومیت کے حوالے سے ڈرامے، پھر عورت اور محبت، پھر لڑکی اور محبت، یہ ایک ٹرینڈ ہے جو چلتا رہتا ہے اب اس ٹرینڈ میں محبت کا کون سا رنگ یا شیڈ چلتا ہے وہ دیکھنا ہے، حقیقت، سچائی اور سبق آموز ڈرامے اب بھی بن رہے ہیں لیکن اس کے لیے بھی اب چینلز بک ہو گئے ہیں، مجھے یاد ہے ایک بڑی ڈرامہ پروڈکشن کمپنی میں کام کرنے والی ایک صاحبہ نے بتایا ''ہم لوگوں کو تفریح فراہم کرنے بیٹھے ہیں ان کو پڑھانے نہیں۔''

ہم اپنے حساب سے صرف اپنے آپ پر نظر رکھتے ہیں کس طرح اپنے کام کو نکھار دیں کہ وہ سب سے الگ اور معتبر بن جائے اور ہماری مارکیٹ ویلیو میں اضافہ ہو۔ اس مارکیٹ ویلیو کے چکر میں کیا کچھ ہو سکتا ہے اس سے غرض خیر چودہ پندرہ سال کے دو بچوں کی خودکشی کے واقعے نے والدین کو دہلا کر رکھ دیا، لیکن اس سلسلے میں معاشرہ اپنا کیا کردار ادا کر رہا ہے کہ میں اور آپ مل کر اس معاشرے کو ترتیب دیتے ہیں اس کے خد و خال واضح کرتے ہیں، ہماری بے توجہی اور حد سے زیادہ اعتماد بھی ہمارے اپنوں کے لیے نقصان ثابت ہو سکتا ہے۔


جس کا عملی مظاہرہ پچھلے مہینے کے اخبارات اور چینلز میں اس کم عمر بچوں کے جوڑوں کی خودکشی کی صورت میں ہوا۔ محبت ایک فطری تقاضا ہے بچے جب بارہ سال عمر کے ہندسے سے نکلتے ہیں تو محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں مثلاً اپنی ٹیچر سے، اپنے سے کئی برس بڑے کزنز سے، کلاس فیلوز سے، یہ ایک ایسا عمل ہے جو شاید انسانی تجربے کے لیے مفید بھی ہے اور مضر بھی۔

اس کی عدم موجودگی حیوانگی میں شمار کی جاتی ہے اس عمر میں اگر حد سے زیادہ سختی برتی جائے تو وہ بچوں کے لیے بعد میں بڑے مسائل کو جنم دیتی ہے ویسے تو لڑکی اور لڑکے کے ساتھ پڑھنے یعنی مخلوط تعلیمی نظام کی مخالفت نہیں کی جا سکتی لیکن اگر علیحدہ تعلیم کا سسٹم بھی بڑے تعلیمی اداروں میں قائم ہو جائے تو ایک تو والدین اور دوسرے بہت سے بچوں میں بھی تحفظ کا احساس اجاگر ہو سکتا ہے جو صنف مخالف کی موجودگی میں اپنی جماعت میں کھل کر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔

ٹی وی ڈرامے ہوں یا فلمیں اس تیز رفتار دور میں ہم کسی پر بھی پہرے نہیں بٹھا سکتے لیکن اپنے گھر والوں کی بدلتی حرکات و سکنات پر نظر ضرور رکھ سکتے ہیں، چاہے وہ بچے ہوں، بیوی یا شوہر یہ واقعہ ایک باب رقم کر گیا ہے کہ اس جانب توجہ کی اشد ضرورت ہے، محض آنکھیں دکھانے، مارپیٹ سے کام نہیں چلایا جا سکتا، اسے وقت کے دھارے کے ساتھ لائف جیکٹ پہنا کر چھوڑ دیا جاتا تو مستقبل میں بچے اپنی ماضی کی حماقت پر ہنس سکتے تھے یا اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر اپنے والدین کی مجبوریوں اور اپنے لیے زمانے کے بدلتے رویے کو مد نظر رکھ کر اپنی زندگی کے لیے بہتر راستے اختیار کر سکتے تھے۔

سفید رنگت چہرے پر شگفتگی شانوں تک کٹے کالے سیاہ بال وہ ایسی ہی تھیں کہ ان سے محبت کی جائے اور محبت کرنے والا کوئی ایرا غیرا نہیں ان کا اپنا کزن تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے جیسا کہ شریف خاندان میں ہوتا ہے ایسا ہی ہوا لڑکے والوں نے لڑکی کے گھر رشتہ بھجوایا اور وہاں سے صاف انکار ہو گیا وجہ کیا تھی؟ لڑکا ایک معزز سرکاری نوکری پر فائز تھا جس کی لڑکے تمنا کرتے تھے چھوٹی فیملی لیکن انکار کی وجہ لڑکے کے باپ کا خاندان بن گیا۔ در اصل لڑکے کی ماں نے اپنے سے کم حیثیت خاندان میں اپنی پسند سے شادی کی تھی، لہٰذا دولت، عزت، عہدہ، سب اس خاندان کے بھاری پتھر تلے دب گیا۔

لڑکی کی شادی اپنے خاندان میں کر دی گئی جو لڑکا ملک سے باہر کما رہا تھا جب کہ اس لڑکے کو لڑکیوں کی کمی نہ تھی دونوں بے پناہ محبت کے باوجود ایک چھوٹے سے عذر کی بنا پر الگ کر دیے گئے اس لڑکی کے چار بچے ہوئے اور نہایت کم عمری میں ہی وہ دل کی مریضہ بن گئی جب ان کی چھوٹی بیٹی چار برس کی تھی وہ اسی مرض میں خدا کو پیاری ہو گئی وہ لڑکا آج ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہے نوکر چاکر عیش و آسائش کی چیز کی کمی نہیں جب کہ لڑکی کے والدین شادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی فوت ہو گئے تھے میاں کو باہر مناسب نوکری راس نہ آئی تو لوٹ آیا تنگ دستی، مایوسی، شکستگی۔ اس خاتون کے انتقال کو دس برس سے زیادہ گزر چکے ہیں ۔

شوہر جسمانی طور پر مفلوج بستر پر پڑے ہیں، ان کی نظریں زمانے کی بے رخی کو بڑے کرب سے دیکھتی ہیں وقت جو کبھی کسی کا نہ ہوا اپنے پیچھے کہانیاں چھوڑ جاتا ہے دل کے ٹکڑے کر دینے سے بہتر ہے اس کے علاج کی سوچیے کہ اس میں ہی بھلائی ہے۔
Load Next Story