سیاسی اکھاڑے کا انوکھا منظر نامہ
اُنہیں مکمل توقع تھی کہ وہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق اپنے سابقہ موقف کو سچ ثابت کر پائیں گے
11 اکتوبر 2015 کے انتخابی نتائج سے ویسے تو پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی لیکن اِن نتائج کا ایک بالواسطہ اور بلاواسطہ فائدہ یہ ضرور پہنچا ہے کہ خان صاحب اِس معرکے کے فوراً بعد ملک کے اندر جو ہیجانی صورتحال پیدا کرنے کے جو ارادے دماغ میں رکھے ہوئے تھے وہ ناکام ہو گئے۔
اُنہیں مکمل توقع تھی کہ وہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق اپنے سابقہ موقف کو سچ ثابت کر پائیں گے اور میاں صاحب کو مڈ ٹرم الیکشن کروانے پر مجبور کر دیں گے۔ اِسی لیے اُنہوں نے علیم خان کی انتخابی مہم بھی خود چلانے کا فیصلہ کیا اور دس پندرہ روز تک لاہور ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ صرف اِس ایک حلقے میں اُنہوں نے دو بڑے سیاسی جلسے بھی کر ڈالے تا کہ اِس انتخاب کو ہر حال میں جیتا جائے۔
اُن کی اِن ساری کوششوں کا یہ نتیجہ تو بہرحال نکل آیا کہ ایاز صادق اور اُن کے مخالف کے درمیان ووٹوں کا فرق آٹھ نو ہزار سے گھٹ کر صرف چار ہزار تک محدود ہو گیا لیکن وہ اِسے جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اب وہ ایک بار پھر دھاندلی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں مگر قوم کو یہ جواب دینے سے قاصر ہیں کہ اُن کے بقول 2013 میں اِس حلقے سے جو 54000 ہزار بوگس ووٹ نکلے تھے وہ اب ایاز صادق کے ووٹ بینک میں کیوں دراڑ نہ ڈال سکے۔
وہ تمام کے تمام اگر پچھلے الیکشن میں ایاز صادق کو پڑے تھے تو اِس بار اُنہیں کم از کم پچاس ہزار ووٹوں سے ہار جانا چاہیے تھا۔ جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی شکستہ حالی اور تباہی کی وجہ سے اُس کے ووٹ بھی پی ٹی آئی کے پلڑے میں پڑے ہیں بصورتِ دیگر نتیجہ سابقہ الیکشن سے یقینا مختلف نہ ہوتا۔
انتخابات کے دنوں میں مختلف غیر جانبدار اداروں کے جانب سے جو آزادانہ سروے کیے گئے نتائج اُن کے مطابق بھی درست ہی ثابت ہوئے۔ اب خان صاحب الیکشن کمیشن کے بجائے نادرا پر اپنا غصہ اُتار رہے ہیں اور ایک نئی منطق کے ساتھ الیکشن کو مبہم اور دھاندلی زدہ قرار دے رہے ہیں کہ ووٹنگ سے پہلے کئی ووٹروں کے پتے کو بدل ڈالا گیا اور اُن کا ووٹ یہاں سے نکال کر کہیں اور درج کر دیا گیا۔
حالانکہ 54000 ہزار ووٹ جو انگوٹھے کے نشانات صحیح نہ ہونے کی بنا پر مشکوک کہلائے گئے نہ وہ صرف مسلم لیگی امیدوار کو پڑے تھے اور نہ اب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ جن ووٹر کا اندراج یہاں سے کہیں اور منتقل ہوا وہ سارے کے سارے پی ٹی آئی کے تھے۔ دراصل خان صاحب کے مزاج اور انداز میں رضا و رغبت اور قبولیت کی بو باس ہی نہیں ہے۔ اِسی لیے وہ کہتے ہیں کہ شکست کا لفظ ہماری ڈکشنری ہی میں نہیں ہے۔
وہ صرف اُس بات کو قبول کرتے ہیں جو اُنہیں سوٹ کرتی ہو۔ الیکشن اگر خیبر پختون خوا میں کرانا ہو تو یہی الیکشن کمیشن قبول ہے لیکن اگر کہیں اور تو نامنظور۔ اُنہیں یہ فخر اور زعم ہے کہ بڑے بڑے جلسے صرف وہ ہی کروا سکتے ہیں لیکن وہ اگر ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں تو اُنہیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ بڑے بڑے جلسے کرنا اور ریلی یا جلوس نکال کر دکھا دینا کسی الیکشن میں جیتنے کی ضمانت نہیں ہوا کرتا۔ اِس ملک میں اصغر خان نے بھی اپنے دور میں بڑے بڑے جلوس نکالے تھے لیکن وہ کبھی بھی اُن کے حق میں الیکشن کے نتائج کا صحیح پیمانہ ثابت نہیں ہوئے۔
اِسی طرح جماعتِ اسلامی بھی بڑے بڑے جلسے اور جلوس نکالنے کی اہلیت اور قوت رکھتی ہے مگر کیا وہ چند سیٹوں سے زیادہ الیکشن جیت سکی۔ خان صاحب نے ابھی حال ہی میں اوکاڑہ میں بھی ایک بہت بڑا انتخابی جلسہ کیا تھا اور جلسہ میں جوشِ خطابت میں یہ بھی کہہ ڈالا تھا کہ ہم حلقہ 122 میں جیتیں گے اور حلقہ 144 میں سخت مقابلہ کریں گے۔
جب کہ نتائج بتا رہے ہیں کہ جتنے افراد اُس جلسے میں آئے تھے وہ اگر سارے کے سارے اُنہیں ووٹ دے دیتے تو اُن کے اُمیدوار اشرف سوہنا کو اپنی ضمانت ضبط نہیں کروانی پڑتی۔ دوسروں کے جلسوں کو پریس کانفرنس کا نام دیتے ہوئے یہ خیال ضرور کر لینا چاہیے کہ جلسے کبھی بھی کسی کی اصل مقبولیت کا آئینہ دار نہیں ہوا کرتے۔ اصل مقابلہ تو ووٹنگ والے دن ہی ہوتا ہے۔ کہاں لاکھوں کا جلسہ اور کہاں 7180 ووٹ۔ شومئی قسمت سے پیپلز پارٹی کے ووٹ بھی آپ ہی کو ملے ہیں ورنہ نتیجہ شاید اِس سے بھی زیادہ خراب ہوتا۔ یہ تو شکر ہے کہ اُنہوں نے اوکاڑہ کے نتیجے کو قبول کر لیا ورنہ ڈر یہی تھا کہ وہ وہاں بھی دھاندلی کا ایک نیا پھڈا شروع کر دیتے۔
پی ٹی آئی والے ایک طرف حالیہ ضمنی الیکشن کو اپنی اخلاقی فتح قرار دے رہے ہیں اور دوسری جانب اُس فتح پر مسرور و مشکور ہونے کی بجائے ایک نئی طرز کی دھاندلی کا رونا بھی رو رہے ہیں۔ ہر بار ایک نیا بہانہ بنا کر اور شکست تسلیم نہ کر کے خان صاحب اسپورٹ مین اسپرٹ کی دھجیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔
چونکہ یہ سارا انتخابی عمل اِس بار ہماری فوج کی نگرانی میں ہوا تھا لہذا کوئی بعید نہ تھا کہ وہ یہ الزام بھی لگا دیتے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی میاں صاحب کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ خان صاحب کو چاہیے ایک بالغ نظر اور سمجھدار سیاست داں کا کردار ادا کرتے ہوئے وہ اِس مخمصے اور جھنجھلاہٹ کی کیفیت سے باہر نکلیں اور پاکستانی سیاست میں کوئی تعمیری رول ادا کریں۔ یہ احتجاج اور محاذ آرائی کی سیاست سے اُنہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ رفتہ رفتہ عوام اُن کی الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں سے بیزار ہوتے جائیں گے اور وہ پھر اُن سے متنفر ہو کر کسی اور کی طرف دیکھنے لگیں گے۔
اُنہیں چاہیے کہ پارٹی کو نظریاتی بنیادوں پر مضبوط اور توانا کریں اور اپنے مخلص پرانے کارکنوں کو نئے آنے والوں پر ترجیح دیں۔ یہ درست ہے کہ پارٹی کو چلانے کے لیے پیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن اُسے چند مالدار لوگوں کا یرغمال ہونے نہ دیں۔ یہی بات جسٹس وجہیہ الدین نے سمجھائی تھی لیکن آپ اُنہی کے خلاف کمربستہ ہو گئے۔ پارٹی کے اندر نئے نئے وارد ہونے والے اشرف سوہنا کو اوکاڑہ سے پارٹی کا ٹکٹ دینا کوئی درست فیصلہ نہ تھا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا۔ پارٹی اپنے بنیادی اصولوں اور نظریاتی اساس سے ہٹتی جا رہی ہے اور پارٹی کے اندر موقعہ پرست اور مفاد پرست لوگوں کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے۔
مزید برآں دوسروں کی مسلسل تحقیر و تضحیک اور الزام تراشیوں کی سیاست سے مقبولیت کے گراف مزید بہتر نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ ہر وقت ایک بپھرے ہوئے غصیلے نوجوان کا کردار شاید آپ کو تو لبھاتا ہو لیکن سنجیدہ لوگوں کو متاثر نہیں کرتا۔ عوام اور پارٹی کے ورکر دل برداشتہ ہو کر آپ کی طرز سیاست سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔
آقایانہ، ناملائم اور درشت لہجہ ترک کر کے عوام کے مسائل کے حل کی طرف آئیں۔ پارلیمنٹ میں جائیں اور قانون سازی میں حصہ لیں۔ انتخابی اصلاحات کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھائیں اور اگلے انتخابات کے لیے خود کو تیار کریں۔ اگر آپ نے غرور و تکبر اور احساسِ برتری کا مظہر پیرایۂ اظہار ترک نہ کیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ 2018 قبل ہی عوامی حمایت سے محروم ہوجائیں۔