نئے صوبے اور قومی اتفاق رائے

اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھا گیا


قادر خان October 21, 2015
[email protected]

1955میں مغربی پاکستان کے جاگیرداروں، مذہبی قیادت، افسر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ نے گٹھ جوڑ کر کے تمام صوبوں کو تحلیل کر دیا تھا تا کہ مشرقی پاکستان سے آبادی کی بنیاد پر برابری کا تقابل کر سکیں۔1969 میں نافذ کردہ لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت بلوچستان، شمالی مغربی صوبہ سرحد، پنجاب اور سندھ کی صوبائی حیثیت بحال کر دی گئی تھی لیکن اس کے بعد متواتر آبادی کے اضافے کے باوجود پاکستان کے وفاقی نقشے میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔

اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھا گیا تو پاکستان میں ایک سیاسی تبدیلی کے بعد فوراً ہزارہ ڈویژن کا ردعمل سامنے آیا، جو صوبہ خیبر پختونخوا کو تقسیم کر کے ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عملی اقدام کے طور پر پنجاب اسمبلی میں بہاولپور صوبہ کی بحالی اور جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل کی دو الگ الگ قراردادیں 9 مئی2012 کو منظور کی گئیں دونوں قراردادیں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے پیش کی تھیں جنھیں متفقہ طور پر ایوان نے منظور کر لیا۔

دونوں قراردادوں کی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت ایک قومی کمیشن تشکیل دے جو پانی، دیگر وسائل اور جغرافیائی حدود کا تعین کر کے صوبے کے قیام کو عملی جامہ پہنائے۔ صوبہ بہاولپور کے حوالے سے قرارداد میں یہ کہا گیا کہ وہ کسی نئے صوبے کی تشکیل کا نہیں بلکہ اپنے صوبے کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس لیے وفاقی حکومت فوری اقدامات کرے۔

دونوں قراردادوں کو پنجاب میں الگ صوبے کے قیام کے حق میں تحریک چلانے والوں قائدین نے خوش آیند اقدام قرار دیا تھا جس سے واضح ہو گیا کہ تمام قومی جماعتیں پنجاب کی تقسیم پر متفق ہیں، لیکن وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے قومی کمیشن کا مطالبہ ہر دو سیاسی جماعت کی جانب سے کیا گیا۔ پی پی پی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تو باقاعدہ اپنے جلسوں میں سرائیکی صوبہ بنانے کی خوش خبریاں سناتے، پنجاب کی حکومت اور میاں نواز شریف پر شدید تنقید کرتے کہ ان کی پنجاب حکومت، جنوبی پنجاب کے وسائل پر قابض ہو کر احساس محرومی کو فروغ دے رہی ہے۔

سندھ میں علیحدہ صوبے کی پہلی باقاعدہ بازگشت تو کافی عرصے سے موجود ہے، جس میں کراچی کی اردو صوبہ تحریک محدود حد تک مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن بین الاقوامی طور پر 11 مئی2012کو نیو یارک شہر میں ایم کیو ایم کے سابق وزراء، سابق اراکین رابطہ کمیٹی اور سابق اراکین اسمبلی نے سندھ کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کر کے جنوبی سندھ نامی صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ایم کیو ایم کے ان سابق منتخب نمایندوں کا کہنا تھا کہ سندھ میں شہری علاقوں کی آبادی پچاس فیصد سے زیادہ ہے اور سندھ کی شہری آبادی محصولات کا پچانوے فیصد ادا کرتا ہے، لیکن اختیارات میں اس کا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔

امریکا کے شہر نیو یارک میں کی گئی پریس کانفرنس پر پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کے رہنما اور سندھ کے صوبائی وزیر فیصل سبزواری نے مطالبے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے، سابق نمایندوں کے حوالے سے اس موقف کو دہرایا تھا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، متحدہ قومی موومنٹ کا کوئی موجودہ رکن اسمبلی، رہنماء کارکن ایسی بات کرے تو پھر ایم کیو ایم کی ذمے داری ہو گی۔

ایم کیو ایم کے قائد کی جانب سے مملکت میں نئے صوبوں کے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس مطالبے کے بعد سندھ میں صورتحال کشیدہ اور سیاسی گرمی میں اضافہ ہو گیا تھا اور اب تک متحدہ کے قائد کی جانب سے باقاعدہ کئی بار کراچی صوبے کا مطالبہ دہرایا جا چکا ہے۔ تاہم حیران کن بات یہی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا کی تقسیم پر پاکستان کے آئین کے مطابق متفق نظر آتی ہیں لیکن جب بات سندھ کی آتی ہے تو یہاں پاکستان کے آئین کے بجائے، ماں دھرتی کی بات کرتے ہوئے لسانی سیاست کو ہوا دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کراچی سندھ دھرتی کا حصہ نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت تھا اور قیام پاکستان کے بعد 23 سال تک کراچی صوبہ سندھ کا حصہ نہیں تھا۔

ماہر سیاسیات پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق کہ ''جب تک تمام سیاسی جماعتوں میں چاروں صوبوں کو دوبارہ سے ترتیب دینے میں اتفاق رائے نہیں ہو گا، اس وقت تک اس طرح کی تجاویزآگے نہیں بڑھ سکتیں، اس پر کچھ لوگ سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش تو ضرور کریں گے تاہم اس طرح سے نئے صوبے بننا ممکن ہے۔'' نئے صوبوں کے مطالبے میں 20 مئی2102 کو فاٹا گرینڈ الائنس کی جانب سے پاکستان میں قبائلی علاقوں کے مستقبل کے بارے میں بحث کی گئی۔

خیبر پختونخوا سمبلی میں قبائلی علاقوں کو نمایندگی کے حوالے سے اس تنظیم کے سربراہ خان مرجان نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمایندگی کی قرارداد کو مسترد کرتے ہیں۔ کیونکہ اس سے وہ پسماندہ رہیں گے۔ خان مرجان کے مطابق قبائلی علاقوں کے بیس کے لگ بھگ نمایندے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود ہیں لیکن انھیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آئینی ترامیم میں کوئی حصہ لے سکیں اس لیے صوبائی اسمبلی میں ان کی نمایندگی سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔'' فاٹا گرینڈ الائنس کی جانب سے یہ موقف اُس وقت سامنے آیا تھا جب خیبر پختونخوا حکومت نے قبائلی علاقوں کو اسمبلی میں نمایندگی اور ایف سی آر کے حوالے سے قرارداد منظور کی۔

تاہم یہاں بھی بعض قبائلی رہنما ؤں کی جانب سے اعتراض کیا گیا کہ اس حوالے سے ایک کمیشن تشکیل دینا چاہیے کیونکہ وسائل و دیگر بنیادی مسائل کے حل کے ادارے خیبر پختونخوا میں ہیں۔ اس لیے قبائلستان کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کیا جائے ورنہ اس مطالبے کو قابل عمل بنانا ممکن نہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے علاوہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے وفاق کو یہی تجویز دی تھی کہ قومی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، ان کے بقول یہ کمیٹی ملک میں نئے صوبوں کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرے اور اپنی سفارشات مرتب کرے اور جس طرح اٹھارویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے منظور ہوئی اس طرح یہ معاملہ بھی طے ہو۔ ''آئین کے مطابق، شق 248 کی ذیلی شق، چار نئے صوبے بنانے یا کسی صوبے کی حدود کا از سر نو تشکیل دینے کے بارے میں رہنمائی کرتی ہے۔

تاہم سابق صدر آصف زرداری نے اس حوالے سے ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس کا مسلم لیگ (ن) نے بائیکاٹ کیا تھا۔ یہاں اس بات ذکر کرنا بھی مناسب ہو گا کہ پاکستان میں بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا میں نئے صوبوں کے حوالوں سے پر تشدد واقعات دیکھنے میں نہیں آتے لیکن جب بھی نئے صوبوں کے حوالے سے ایم کیو ایم کے بیانات سامنے آتے ہیں تو سندھ کے اندرونی علاقوں میں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور سندھی قوم پرست جماعتیں مشتعل ہو جاتی ہیں۔ بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے اے پی سی کے بعد قبل از وقت مطالبہ کیا گیا ہے تو یہ بھی عوام نے دیکھا ہے نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے نئے انتخابات کے موقع پر سیاست کی جاتی ہے اور ووٹ و اقتدار حاصل کرنے کے بعد تمام بڑی جماعتیں اگلے پانچ سال کے لیے خاموش ہو کر بیٹھ جاتی ہیں۔

غیر جانبدارنہ قومی سیاسی تناظر میں دیکھا جائے کہ اگر امن و امان کے حوالے سے جس قدر انتظامی یونٹس زیادہ ہونگے، وفاق پر انحصار کم ہو گا اور نئے تشکیل پانے والے یونٹس اپنی علاقائی ضروریات کے مطابق تشکیل نو کر سکیں گے۔ غیر جانبدارانہ مردم شماری اور بائیو میٹرک سسٹم کے تحت ڈیٹا کو محفوظ کرنے سے ملکی وسائل کی تقسیم اور صوبائی خودمختاری میں مدد ملے گی۔ قومی پالیسی کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے پاکستان کی مکمل تنظیم نو اور نئے یونٹس ہی امن و امان اور معیشت کی بحالی کے لیے اہم قدم ہے۔ نئے صوبوں کے حوالے سے قومی اتفاق رائے ضروری ہے، اس اہم ایشو کو ہر قومی انتخابات سے قبل سیاسی بنانے کے بجائے حل کی جانب توجہ دینی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔