سندھ کی وارث عورت جاگی
انسان کی طبیعت اور جذبات میں تغیر رونما ہوتا رہتا ہے
انسان کی طبیعت اور جذبات میں تغیر رونما ہوتا رہتا ہے لیکن کچھ کیفیات چہروں کے نقوش میں منجمد ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ہر کیفیت کی اپنی ایک داستان بھی ہو سکتی ہے ہر کیفیت الگ دکھ کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔
یہ صرف کہنے کی حد تک صحیح ہے کہ سکھ دکھ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کچھ حادثات و واقعات ایسے دکھوں کو جنم دیتے ہیں جو چہروں کی کتاب پر دائمی طور پر منجمد ہو جاتے ہیں، بہتے آنسوؤں اور ابھرتی چیخوں کی گرمی بھی ان کو پگھلا نہیں سکتی۔
معاشرے کے مروج اصولوں کے مطابق عورت پر جب کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس کی خبر اخبار کی شہ سرخی نہیں بن پاتی۔ قتل، تشدد، جنسی زیادتی، اغوا ایسے جرائم کی خبر کوئی ہائی پروفائل نہیں ہوتی بلکہ روزمرہ کا معمول ہے۔ نہ کوئی آنکھ اشکبار ہوتی ہے۔ نہ کسی دل سے آہ نکلتی ہے۔ ماتم وہی کرتے ہیں جس پر بیتتی ہے۔ مرنے والوں کو گن کر کتابیں تو شایع ہو جاتی ہیں لیکن انصاف کے گھوڑے میں جان نہیں پڑتی۔
جب 10 اکتوبر 2015کو حیدرآباد میں وومنز ایکشن فورم نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تو اس کا پس منظر یہ تھا کہ کچھ روتی بلکتی ماؤں کو تفصیل سے اپنا درد بیان کرنے کا موقع ملے۔ کچھ بہنوں کو اپنی کتھا سنانے کا موقعہ ملے۔ شاید کسی کے قلم سے نکلے کچھ الفاظ، لمبی نیند میں سوتے ہوئے انصاف کو جگا سکیں۔
سننے والوں میں سیاسی جماعتوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا تا کہ وہ سن سکیں کہ جن سے ووٹ لے کر وہ ایوانوں تک پہنچتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں۔ سیاست کے دائرہ اختیار میں اگر کوئی تبدیلی کا منصوبہ ہو تو اس میں خواتین کو بھی شامل کیا جائے۔
قتل اور جنسی زیادتی کی خبریں ہمیشہ آدھی، ادھوری شایع ہوتی ہیں یہ سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ مگر زیادتی کرنے والے مجرم کا چہرہ چھپا رہتا ہے۔ مخصوص معاشرتی نظام کے اندر وہ خاندان جس کی بیٹی اغوا ہو جائے پھر زیادتی کے بعد مار دی جائے وہ پھر کس طرح مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتا ہے وہ سب باتیں کوئی نہیں جانتا۔
ضلع عمرکوٹ کے گاؤں شادی پلی کی درگا کولہن کی بیٹی مار دی گئی۔
2013میں یہ حادثہ ہوا غریب کولہی لوگ خاندان کے ہاری تھے۔ سندھ میں زمیندار کا درجہ سب سے بڑا مانا جاتا ہے۔ وہ اپنے ہاریوں کو اپنی رعایا سمجھتا ہے۔ وہ بادشاہ لوگ جب چاہتے کولہی لڑکیوں کو اغوا کر کے لے جاتے تھے۔ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے پھر چھوڑ دیتے اور دھمکیاں دیتے کہ کہیں شکایت کی تو جان سے مار دیں گے۔
جب ککو کے ساتھ زیادتی کا حادثہ پیش آیا تو اس نے پولیس کے پاس جا کر ایف آئی آر درج کروائی۔ زمیندار نے گھر خالی کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں کہ کیس ختم کروا دیں۔ ککو نہیں مانی۔ پھر ایک دن بازار سے اس کو اغوا کیا اور ماں کے سامنے اس کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ خادم شر گرفتار ہوا لیکن پیسے میں بڑی طاقت ہے۔ وہ سزا سے بچ گیا۔ ککو کی ماں آج بھی ککو کی بیٹی کو پال رہی ہے اس کی بیٹی کو انصاف مانگنے کی سزا ملی، اس کو سر عام مار دیا گیا اور قاتل سر فخر سے بلند کر کے چلتا ہو گا۔
ضلع بدین کے گاؤں کڈھن میں لرزہ خیز واقعہ ہوا۔ چھوٹی سی دس سالہ بچی مقدس آرائیں۔ مسجد کے اندر جنسی زیادتی کا شکار ہوئی اور جان سے چلی گئی۔ اتنے بڑے اندوہناک واقعے پر نہ کہیں احتجاج، نہ کہیں کوئی ہڑتال ، نہ کہیں سیاست دان کا مذمتی بیان نظر سے گزرا۔ عبادت گاہوں کے تقدس کے قانون بنانے والے بھی چپ تھے۔ جلسوں میں نعرے لگانے والے بھی چپ تھے۔ ایوانوں میں بولنے والے بھی چپ تھے۔
ہاں بول رہی تھیں وہ آنکھیں جنھوں نے دس سالوں میں کتنی راتیں جاگ کر مقدس کو دودھ پلایا تھا۔ وہ آنکھیں بول رہی تھیں جنھوں نے اس دن اس کو تیار کرکے سپارہ پڑھنے مدرسے بھیجا تھا۔ مقدس کے والدین آج بھی کیس لڑ رہے ہیں۔ عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔
ایک اور چہرہ ہے دکھ جس کے چہرے پر منجمد ہے، وہ ہے عارفہ میر کی پھوپھی۔ جس کی 20 سالہ بھتیجی والد اور چچاؤں کے ہاتھوں مار دی گئی۔
کاری کا الزام لگا کر معصوم عارفہ کے جسم میں سرکاری کلاشنکوف کی اکیس گولیاں بیدردی سے اتار دی گئیں۔
والد کا تعلق پولیس کے محکمے سے ہے۔ وہ بھی کورٹ سے ضمانت کروا کر آزادی کے مزے لے رہا ہے۔ دو بندے پولیس نے گرفتار کر لیے۔ عارفہ کی پھوپھی معصوم عارفہ کی باتیں بتاتے بتاتے رونے لگتی ہے۔ قانون اس پر ہنستا ہے۔
وہ کہتی ہے کہ:
''میں وہ رات کبھی نہیں بھول سکتی جب عارفہ میر بار بار موبائل پہ کال کر رہی تھی۔ میسج کر رہی تھی کہ ''پھوپھی یہ میری آخری رات ہے چچا اور چچا کے بیٹے گھر کے باہر پہرا دے رہے ہیں کہ میں گھر سے نہ نکل سکوں تھوڑی دیر میں یہ لوگ مجھے مار دیں گے'' اور پھر رمضان کی مقدس رات میں۔ مقدس عارفہ کو چند درندوں نے مار دیا۔''
کتنی داستانیں ایک کالم میں آ سکتی ہیں؟ ہم تو شہر زاد سے بھی زیادہ قصے سنا سکتے ہیں۔ ایک ہزار راتیں تو ختم ہو گئی تھیں، لیکن ہمارے دور میں ظلم کی راتیں ناانصافی کی داستانیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔
ہماری گونگی بہری انتظامیہ کے پاس تو صرف داؤ پیچ، مجرم کو بچانے کے لیے ہوتے ہیں۔
روتی بلکتی چیختی عورت ایک خبر، ایک تصویر سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
عورت کے قتل کی مذمت کسی سیاست دان کے سیاسی منشور میں شامل ہی نہیں کیونکہ عورت کا قتل جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہمارے قانونی نظام پر ہمارا سماجی نظام حاوی ہے۔ چند تفریقی رویوں نے سارے سماج میں اندھیرا طاری کر دیا ہے۔ شعور، روشن خیالی تو جیسے اول درجے کے جرم بن چکے ہیں۔ آج ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں پدر شاہی سماج اور سرمایہ دارانہ نظام، جاگیرداری نظام اپنے پورے عروج پر ہیں۔ طاقت کا ایک وسیع نظام ہے جس کے ماتحت اور جبر سہنے والے کمزور طبقوں میں سے عورت بھی ایک طبقہ ہے۔ آج عورت کی جدوجہد کے مختلف محاذ ہیں۔
ایک عورت اپنے وجود کے تحفظ کے لیے، اپنے حقوق کے حصول کے لیے خاندان سے لڑتی ہے۔ عورت کے مدمقابل چار بڑے مضبوط ادارے ہیں۔ ایک قانون، دوسرا ریاست، تیسرا معاشرہ اور چوتھا مذہب۔
ہر ادارہ اپنی اجارہ داری، اپنے قوانین، اپنی پابندیاں عورت پر نافذ کرتا ہے اور بدلے میں صرف جان کی امان بھی نہیں دیتا۔ ''کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں'' کے مصداق عورت کی چیخ و پکار کوئی نہیں سنتا۔
وومنز ایکشن فورم حیدرآباد نے ان سب حقیقتوں کے پیش نظر 11 اکتوبر 2015 کو حیدرآباد میں ایک ریلی نکالی اور سارے صوبے میں ایک تحریک کے آغاز کا اعلان کیا۔ قوم کی عورتوں کا قتل بند کرو، سندھی میں ''دھرتی دھمانین جو قتل بند کریو'' مطلب جو سندھ دھرتی کی مالک ہیں ان کا قتل بند کرو۔ اس ریلی میں سب اداروں سے شرکا کو مدعو کیا گیا تھا۔ سیاستدان، وکلا، ڈاکٹرز، انجینئرز، صحافی، اساتذہ سارے سماجی ادارے، تنظیمیں اس میں شامل تھیں۔
خاص طور پر وہ خاندان جن کی بیٹیاں مار دی گئیں، وہ انصاف کے لیے اپنی بہنوں بیٹیوں کے فوٹوز لے کر اس شاندار ریلی میں شریک ہوئے۔ وومنز ایکشن فورم اور کراچی سے دیگر تنظیموں نے بھی اس ریلی میں بھرپور شرکت کی۔ وہ جو بے موت ماری گئیں اب ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ قاتل یہ سوچتا ہے کہ یہ خون اس کو معاف ہو جائے گا لیکن اب سندھ کی عورت جاگی ہے جو کہ ان بے آواز آوازوں کو زبان دے گی۔ ان بے نور آنکھوں میں روشنی بھرے گی جو کہ خاموش آنسو گرا گر اکے بے نور ہوتی جا رہی ہیں۔
سندھ کی باشعور عورتیں اس تحریک میں شریک ہو کے مظلوموں کی زبان بن سکتی ہیں۔ ریلی میں نعرے گونج رہے تھے
جاگی جاگی۔۔۔۔ عورت جاگی
سندھ امڑ جی ناری جاگی
کیر جاگی (کون جاگی) ۔۔۔۔عورت جاگی
جب کسی قوم کی عورتیں انصاف مانگنے راستوں اور گلیوں میں نکل آئیں تو پھر جبر اور ظلم کا کم ہونا لازمی امر بننا چاہیے۔
ایک عزم ایک جہد ایک نعرہ لے کے آگے بڑھنے والی خواتین جانتی ہیں کہ جنگ بہت طویل ہے۔ بہت سے مشکل محاذ ہیں، لیکن یہ حقوق اور انصاف کی جدوجہد ہے جو ہر دور میں مظلوم طبقوں کی جانب سے جاری رہتی آئی ہے اور جاری رہے گی۔
یہ صرف کہنے کی حد تک صحیح ہے کہ سکھ دکھ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کچھ حادثات و واقعات ایسے دکھوں کو جنم دیتے ہیں جو چہروں کی کتاب پر دائمی طور پر منجمد ہو جاتے ہیں، بہتے آنسوؤں اور ابھرتی چیخوں کی گرمی بھی ان کو پگھلا نہیں سکتی۔
معاشرے کے مروج اصولوں کے مطابق عورت پر جب کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس کی خبر اخبار کی شہ سرخی نہیں بن پاتی۔ قتل، تشدد، جنسی زیادتی، اغوا ایسے جرائم کی خبر کوئی ہائی پروفائل نہیں ہوتی بلکہ روزمرہ کا معمول ہے۔ نہ کوئی آنکھ اشکبار ہوتی ہے۔ نہ کسی دل سے آہ نکلتی ہے۔ ماتم وہی کرتے ہیں جس پر بیتتی ہے۔ مرنے والوں کو گن کر کتابیں تو شایع ہو جاتی ہیں لیکن انصاف کے گھوڑے میں جان نہیں پڑتی۔
جب 10 اکتوبر 2015کو حیدرآباد میں وومنز ایکشن فورم نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تو اس کا پس منظر یہ تھا کہ کچھ روتی بلکتی ماؤں کو تفصیل سے اپنا درد بیان کرنے کا موقع ملے۔ کچھ بہنوں کو اپنی کتھا سنانے کا موقعہ ملے۔ شاید کسی کے قلم سے نکلے کچھ الفاظ، لمبی نیند میں سوتے ہوئے انصاف کو جگا سکیں۔
سننے والوں میں سیاسی جماعتوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا تا کہ وہ سن سکیں کہ جن سے ووٹ لے کر وہ ایوانوں تک پہنچتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں۔ سیاست کے دائرہ اختیار میں اگر کوئی تبدیلی کا منصوبہ ہو تو اس میں خواتین کو بھی شامل کیا جائے۔
قتل اور جنسی زیادتی کی خبریں ہمیشہ آدھی، ادھوری شایع ہوتی ہیں یہ سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ مگر زیادتی کرنے والے مجرم کا چہرہ چھپا رہتا ہے۔ مخصوص معاشرتی نظام کے اندر وہ خاندان جس کی بیٹی اغوا ہو جائے پھر زیادتی کے بعد مار دی جائے وہ پھر کس طرح مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتا ہے وہ سب باتیں کوئی نہیں جانتا۔
ضلع عمرکوٹ کے گاؤں شادی پلی کی درگا کولہن کی بیٹی مار دی گئی۔
2013میں یہ حادثہ ہوا غریب کولہی لوگ خاندان کے ہاری تھے۔ سندھ میں زمیندار کا درجہ سب سے بڑا مانا جاتا ہے۔ وہ اپنے ہاریوں کو اپنی رعایا سمجھتا ہے۔ وہ بادشاہ لوگ جب چاہتے کولہی لڑکیوں کو اغوا کر کے لے جاتے تھے۔ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے پھر چھوڑ دیتے اور دھمکیاں دیتے کہ کہیں شکایت کی تو جان سے مار دیں گے۔
جب ککو کے ساتھ زیادتی کا حادثہ پیش آیا تو اس نے پولیس کے پاس جا کر ایف آئی آر درج کروائی۔ زمیندار نے گھر خالی کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں کہ کیس ختم کروا دیں۔ ککو نہیں مانی۔ پھر ایک دن بازار سے اس کو اغوا کیا اور ماں کے سامنے اس کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ خادم شر گرفتار ہوا لیکن پیسے میں بڑی طاقت ہے۔ وہ سزا سے بچ گیا۔ ککو کی ماں آج بھی ککو کی بیٹی کو پال رہی ہے اس کی بیٹی کو انصاف مانگنے کی سزا ملی، اس کو سر عام مار دیا گیا اور قاتل سر فخر سے بلند کر کے چلتا ہو گا۔
ضلع بدین کے گاؤں کڈھن میں لرزہ خیز واقعہ ہوا۔ چھوٹی سی دس سالہ بچی مقدس آرائیں۔ مسجد کے اندر جنسی زیادتی کا شکار ہوئی اور جان سے چلی گئی۔ اتنے بڑے اندوہناک واقعے پر نہ کہیں احتجاج، نہ کہیں کوئی ہڑتال ، نہ کہیں سیاست دان کا مذمتی بیان نظر سے گزرا۔ عبادت گاہوں کے تقدس کے قانون بنانے والے بھی چپ تھے۔ جلسوں میں نعرے لگانے والے بھی چپ تھے۔ ایوانوں میں بولنے والے بھی چپ تھے۔
ہاں بول رہی تھیں وہ آنکھیں جنھوں نے دس سالوں میں کتنی راتیں جاگ کر مقدس کو دودھ پلایا تھا۔ وہ آنکھیں بول رہی تھیں جنھوں نے اس دن اس کو تیار کرکے سپارہ پڑھنے مدرسے بھیجا تھا۔ مقدس کے والدین آج بھی کیس لڑ رہے ہیں۔ عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔
ایک اور چہرہ ہے دکھ جس کے چہرے پر منجمد ہے، وہ ہے عارفہ میر کی پھوپھی۔ جس کی 20 سالہ بھتیجی والد اور چچاؤں کے ہاتھوں مار دی گئی۔
کاری کا الزام لگا کر معصوم عارفہ کے جسم میں سرکاری کلاشنکوف کی اکیس گولیاں بیدردی سے اتار دی گئیں۔
والد کا تعلق پولیس کے محکمے سے ہے۔ وہ بھی کورٹ سے ضمانت کروا کر آزادی کے مزے لے رہا ہے۔ دو بندے پولیس نے گرفتار کر لیے۔ عارفہ کی پھوپھی معصوم عارفہ کی باتیں بتاتے بتاتے رونے لگتی ہے۔ قانون اس پر ہنستا ہے۔
وہ کہتی ہے کہ:
''میں وہ رات کبھی نہیں بھول سکتی جب عارفہ میر بار بار موبائل پہ کال کر رہی تھی۔ میسج کر رہی تھی کہ ''پھوپھی یہ میری آخری رات ہے چچا اور چچا کے بیٹے گھر کے باہر پہرا دے رہے ہیں کہ میں گھر سے نہ نکل سکوں تھوڑی دیر میں یہ لوگ مجھے مار دیں گے'' اور پھر رمضان کی مقدس رات میں۔ مقدس عارفہ کو چند درندوں نے مار دیا۔''
کتنی داستانیں ایک کالم میں آ سکتی ہیں؟ ہم تو شہر زاد سے بھی زیادہ قصے سنا سکتے ہیں۔ ایک ہزار راتیں تو ختم ہو گئی تھیں، لیکن ہمارے دور میں ظلم کی راتیں ناانصافی کی داستانیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔
ہماری گونگی بہری انتظامیہ کے پاس تو صرف داؤ پیچ، مجرم کو بچانے کے لیے ہوتے ہیں۔
روتی بلکتی چیختی عورت ایک خبر، ایک تصویر سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
عورت کے قتل کی مذمت کسی سیاست دان کے سیاسی منشور میں شامل ہی نہیں کیونکہ عورت کا قتل جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہمارے قانونی نظام پر ہمارا سماجی نظام حاوی ہے۔ چند تفریقی رویوں نے سارے سماج میں اندھیرا طاری کر دیا ہے۔ شعور، روشن خیالی تو جیسے اول درجے کے جرم بن چکے ہیں۔ آج ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں پدر شاہی سماج اور سرمایہ دارانہ نظام، جاگیرداری نظام اپنے پورے عروج پر ہیں۔ طاقت کا ایک وسیع نظام ہے جس کے ماتحت اور جبر سہنے والے کمزور طبقوں میں سے عورت بھی ایک طبقہ ہے۔ آج عورت کی جدوجہد کے مختلف محاذ ہیں۔
ایک عورت اپنے وجود کے تحفظ کے لیے، اپنے حقوق کے حصول کے لیے خاندان سے لڑتی ہے۔ عورت کے مدمقابل چار بڑے مضبوط ادارے ہیں۔ ایک قانون، دوسرا ریاست، تیسرا معاشرہ اور چوتھا مذہب۔
ہر ادارہ اپنی اجارہ داری، اپنے قوانین، اپنی پابندیاں عورت پر نافذ کرتا ہے اور بدلے میں صرف جان کی امان بھی نہیں دیتا۔ ''کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں'' کے مصداق عورت کی چیخ و پکار کوئی نہیں سنتا۔
وومنز ایکشن فورم حیدرآباد نے ان سب حقیقتوں کے پیش نظر 11 اکتوبر 2015 کو حیدرآباد میں ایک ریلی نکالی اور سارے صوبے میں ایک تحریک کے آغاز کا اعلان کیا۔ قوم کی عورتوں کا قتل بند کرو، سندھی میں ''دھرتی دھمانین جو قتل بند کریو'' مطلب جو سندھ دھرتی کی مالک ہیں ان کا قتل بند کرو۔ اس ریلی میں سب اداروں سے شرکا کو مدعو کیا گیا تھا۔ سیاستدان، وکلا، ڈاکٹرز، انجینئرز، صحافی، اساتذہ سارے سماجی ادارے، تنظیمیں اس میں شامل تھیں۔
خاص طور پر وہ خاندان جن کی بیٹیاں مار دی گئیں، وہ انصاف کے لیے اپنی بہنوں بیٹیوں کے فوٹوز لے کر اس شاندار ریلی میں شریک ہوئے۔ وومنز ایکشن فورم اور کراچی سے دیگر تنظیموں نے بھی اس ریلی میں بھرپور شرکت کی۔ وہ جو بے موت ماری گئیں اب ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ قاتل یہ سوچتا ہے کہ یہ خون اس کو معاف ہو جائے گا لیکن اب سندھ کی عورت جاگی ہے جو کہ ان بے آواز آوازوں کو زبان دے گی۔ ان بے نور آنکھوں میں روشنی بھرے گی جو کہ خاموش آنسو گرا گر اکے بے نور ہوتی جا رہی ہیں۔
سندھ کی باشعور عورتیں اس تحریک میں شریک ہو کے مظلوموں کی زبان بن سکتی ہیں۔ ریلی میں نعرے گونج رہے تھے
جاگی جاگی۔۔۔۔ عورت جاگی
سندھ امڑ جی ناری جاگی
کیر جاگی (کون جاگی) ۔۔۔۔عورت جاگی
جب کسی قوم کی عورتیں انصاف مانگنے راستوں اور گلیوں میں نکل آئیں تو پھر جبر اور ظلم کا کم ہونا لازمی امر بننا چاہیے۔
ایک عزم ایک جہد ایک نعرہ لے کے آگے بڑھنے والی خواتین جانتی ہیں کہ جنگ بہت طویل ہے۔ بہت سے مشکل محاذ ہیں، لیکن یہ حقوق اور انصاف کی جدوجہد ہے جو ہر دور میں مظلوم طبقوں کی جانب سے جاری رہتی آئی ہے اور جاری رہے گی۔