ہندو نسل پرستوں کا پاگل پن
ہندو دھرم میں موسیقی کو خاص مقام حاصل ہے ، لیکن یہی نام نہاد پرچارک جنھوں نے شیوسینا کا روپ دھار لیا ہے
کھیل جہاں انسانوں کو چست و توانا رکھنے کا سبب ہیں، وہیں ملکوں کے درمیان محبت اور خلوص کے رشتے قائم رکھنے کے لیے بہترین متبادل سفارت کاری کا ذریعہ بھی بنتے ہیں، دنیا بھر کی اقوام کھیلوں کے ناتے سے ایک بندھن میں بندھ جاتی ہیں جس کی ایک مثال اولمپکس گیمز ہیں ۔ پڑوسی ملک میں توگنگا ہی الٹی بہنا شروع ہوگئی ہے، بھارت میں کبڈی کاکھیل بھی تعصب وعصبیت کی نذر ہوگیا اور رواں سال بھارتی پنجاب میں شیڈولڈ ورلڈ کپ منسوخ کردیاگیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں اور جنوبی افریقہ کے خلاف کرکٹ میچ میں شائقین کے نارواسلوک اس کی بڑی وجوہات بنیں۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جنونیوں پر ایک پاگل پن سوار ہے جو ہر ایک اچھی روایت کو ملیامیٹ کرنا چاہ رہے ہیں ، سیکولرازم کی چھترچھاؤں کے نیچے ایک گھناؤنا کھیل جاری ہے، جسے مودی سرکار کی سرپرستی حاصل ہے، کھیل تو بہترین ڈپلومیسی کا ذریعہ ہوتے ہیں،ان کا سیاست سے کیا لینا دینا،گھرآئے مہمان کی تو ہرایک عزت وقدرومنزلت کرتا ہے، ماضی میں جب بھی کرکٹ کے پاک بھارت میچز ہوتے رہے تو دونوں ملکوں کے ایک ارب سے زائد شائقین انتہائی انہماک اور دلچسپی سے میچزدیکھتے رہے ۔
جب اسی ضمن میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان اور چیئرمین ایگزیکٹیوکمیٹی نجم سیٹھی باہمی سیریزکے حوالے سے ممبئی پہنچے توشیوسینا کے غنڈوں نے بھارتی کرکٹ بورڈ کے دفتر پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ دراصل کرکٹ کے کھیل کو تباہ کرنے کے لیے کیا گیا ، جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں پر بوتلیں ماری گئیں، بھارتی پنجاب میں سکھوں کا احتجاج جاری ہے جس میں دو افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فورسزکے تشدد سے ایک کشمیری ڈرائیور کی شہادت پرگزشتہ روز بھی ہڑتال رہی اورمظاہرے کیے گئے۔
ہندو دھرم میں موسیقی کو خاص مقام حاصل ہے ، لیکن یہی نام نہاد پرچارک جنھوں نے شیوسینا کا روپ دھار لیا ہے ، پاکستانی غزل گائیک غلام علی کا کنسرٹ منسوخ کرانے کے بعد اب اداکار فواد خان اور ماہرہ خان کو بھی دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔ انتہاپسند جماعت کا کہنا ہے کہ وہ کسی پاکستانی فنکار یا کرکٹر کو مہاراشٹر میں قدم نہیں رکھنے دیں گے۔
یہ لب ولہجہ ،اقلیتوں کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد ، گائے کا گوشت کھانے کے شبہے میں قتل ، مقبوضہ کشمیر کے رکن پارلیمنٹ پر اور اپنے ملک کے ایک صحافی کے چہرے پر سیاہی ڈالنے کا عمل دراصل اپنے سیکولر بھارت کے چہرے پر سیاہی ملنے کے مترادف ہے ، یہ سب کیا ہے، کیا ہورہا ہے اورکیا ہونے جارہا ہے، اس کا اندازہ نہ تو ہندو انتہا پسند تنظیموں کو ہے اور نہ ہی مودی سرکار کو۔ نفرت کا جو الاؤ جلایا جا رہا ہے، اس کی آگ میں خود میں انتہا پسند جل کر راکھ ہوجائیں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں اور جنوبی افریقہ کے خلاف کرکٹ میچ میں شائقین کے نارواسلوک اس کی بڑی وجوہات بنیں۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جنونیوں پر ایک پاگل پن سوار ہے جو ہر ایک اچھی روایت کو ملیامیٹ کرنا چاہ رہے ہیں ، سیکولرازم کی چھترچھاؤں کے نیچے ایک گھناؤنا کھیل جاری ہے، جسے مودی سرکار کی سرپرستی حاصل ہے، کھیل تو بہترین ڈپلومیسی کا ذریعہ ہوتے ہیں،ان کا سیاست سے کیا لینا دینا،گھرآئے مہمان کی تو ہرایک عزت وقدرومنزلت کرتا ہے، ماضی میں جب بھی کرکٹ کے پاک بھارت میچز ہوتے رہے تو دونوں ملکوں کے ایک ارب سے زائد شائقین انتہائی انہماک اور دلچسپی سے میچزدیکھتے رہے ۔
جب اسی ضمن میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان اور چیئرمین ایگزیکٹیوکمیٹی نجم سیٹھی باہمی سیریزکے حوالے سے ممبئی پہنچے توشیوسینا کے غنڈوں نے بھارتی کرکٹ بورڈ کے دفتر پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ دراصل کرکٹ کے کھیل کو تباہ کرنے کے لیے کیا گیا ، جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں پر بوتلیں ماری گئیں، بھارتی پنجاب میں سکھوں کا احتجاج جاری ہے جس میں دو افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فورسزکے تشدد سے ایک کشمیری ڈرائیور کی شہادت پرگزشتہ روز بھی ہڑتال رہی اورمظاہرے کیے گئے۔
ہندو دھرم میں موسیقی کو خاص مقام حاصل ہے ، لیکن یہی نام نہاد پرچارک جنھوں نے شیوسینا کا روپ دھار لیا ہے ، پاکستانی غزل گائیک غلام علی کا کنسرٹ منسوخ کرانے کے بعد اب اداکار فواد خان اور ماہرہ خان کو بھی دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔ انتہاپسند جماعت کا کہنا ہے کہ وہ کسی پاکستانی فنکار یا کرکٹر کو مہاراشٹر میں قدم نہیں رکھنے دیں گے۔
یہ لب ولہجہ ،اقلیتوں کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد ، گائے کا گوشت کھانے کے شبہے میں قتل ، مقبوضہ کشمیر کے رکن پارلیمنٹ پر اور اپنے ملک کے ایک صحافی کے چہرے پر سیاہی ڈالنے کا عمل دراصل اپنے سیکولر بھارت کے چہرے پر سیاہی ملنے کے مترادف ہے ، یہ سب کیا ہے، کیا ہورہا ہے اورکیا ہونے جارہا ہے، اس کا اندازہ نہ تو ہندو انتہا پسند تنظیموں کو ہے اور نہ ہی مودی سرکار کو۔ نفرت کا جو الاؤ جلایا جا رہا ہے، اس کی آگ میں خود میں انتہا پسند جل کر راکھ ہوجائیں گے۔