سلام

اس تاریخ ساز سانحے سے متعلق مرثائی ادب اسلامی دنیا میں لکھے جانے والے ادب کا ایک اہم حصہ ہے


Amjad Islam Amjad October 22, 2015
[email protected]

واقعہ کربلا اور جناب امامؓ اور ان کے جلیل القدر رفقاء اور اہل خاندان کی شہادت ہم مسلمانوں کا ہی نہیں تاریخ عالم کا بھی ایک ایسا روشن باب ہے جس میں اصول کے مقابلے میں زندگی اور قربانی کے سامنے دنیاوی تحریص کے چناؤ کا ایک ایسا فیصلہ سامنے آتا ہے جو بلاشبہ اپنی مثال آپ ہے۔ آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی بازگشت تمام عالم اسلام اور اس کی مختلف زبانوں میں لکھے جانے والے ادب میں صاف سنائی دیتی ہے۔

رب کریم کے سوا کسی بھی طاقت کے سامنے سر نہ جھکانے کا جو سبق ہمیں میدان کربلا اور لب فرات لکھی جانے والی اس عزم و ہمت اور ایثار و قربانی کی داستان میں ملتا ہے اس کو ابن آدم کا ایک اجتماعی ورثہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یزید کے ظلم اور بے انصافی اور جناب حسین علیہ السلام کا زندگی کی قیمت پر اس کی بیعت سے انکار حق کی پاسداری کا ایک ایسا مظہر ہے جو رہتی دنیا تک ایک مینارہ نور کی طرح روشنی کی سمت نمائی کرتا رہے گا۔

سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسینؓ

اس تاریخ ساز سانحے سے متعلق مرثائی ادب اسلامی دنیا میں لکھے جانے والے ادب کا ایک اہم حصہ ہے کہ ان واقعات اور اس سے متعلق کرداروں پر انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے اس حوالے سے ''سلام'' کو بطور ایک صنف کے بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور لکھنے والوں نے اس سے کوزے میں دریا کو بند کرنے کا کام لیا ہے کہ چند اشعار میں اتنا کچھ انتہائی عمدہ اور موثر انداز میں کہہ دیا جاتا ہے جو روائتی مرثیے میں وسعت کے باوجود تنگی داماں کا شکار نظر آتا تھا میں نے محض نمونے اور مثال کے طور پر دو سلام انتخاب کیے ہیں دیکھئے کہ دونوں کا انداز اور ذخیرہ الفاظ (بہت حد تک ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود) اس تصویر میں کیا کیا رنگ بھر رہا ہے۔

پہلا سلام ادیب رائے پوری صاحب کا ہے بدقسمتی سے میں ذاتی طور پر ان کے کلام سے متعارف نہیں ہوں لیکن اس سلام کو پڑھنے کے بعد اب یقیناً ان کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش کروں گا، یہ سلام مجھے برادر عزیز عامر بن علی نے بھجوایا ہے جو برسوں سے جاپان میں مقیم ہونے کے باوجود روحانی طور پر اب بھی اپنے آبائی شہر میاں چنوں کے نواح میں ہی رہتا ہے اور خود بھی ایک بہت خوب صورت اور تخلیقی رجحانات رکھنے والا شاعر ہے، ادیب رائے پوری کہتے ہیں۔

آیا نہ ہو گا اس طرح رنگ و سحاب ریت پر
گلشن فاطمہؓ کے تھے سارے گلاب ریت پر
جان بتولؓ کے سوا' کوئی نہیں کھلا سکا
قطرہ آب کے بغیر اتنے گلاب' ریت پر
جتنے سوال عشق نے' آل رسولؐ سے کیے
ایک سے بڑھ کے اک دیا سب نے جواب ریت پر
عشق میں کیا لٹائیے' عشق میں کیا بچائیے
آل نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
ترسے حسینؓ آب کو' جو میں کہوں تو بے ادب
لمس لب حسینؓ کو ترسا ہے آب ریت پر
آل نبیؐ کا کام تھا' آل نبیؐ ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر

عرفان صدیقی مرحوم بھارت میں زوال پذیر اردو زبان کے وہ شاعر ہیں جنہوں نے اپنے زور قلم سے اس میں نہ صرف ایک نئی جان پھونک دی بلکہ ایک ایسا معیار بھی قائم کیا کہ انھیں ستر کی دہائی کے بعد سے بھارت میں اردو کا سب سے زیادہ تخلیقی امکانات کا حامل اور باکمال شاعر کہا جا سکتا ہے جس کی ایک زندہ مثال ان کا کہا ہوا یہ سلام بھی ہے کہ جس میں ایک واقعہ آنے والے تمام زمانوں پر حاوی اور محیط ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

رکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا
اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنار آب ہے پہرہ لگا ہوا کیسا
یہ چیخ ہے کہ علم' کیا بلند ہوتا ہے!
یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا
وہ مہربان اجازت تو دے رہا ہے مگر
اب آ گئے ہیں تو مقتل سے لوٹنا کیسا
یہ ایک صف بھی نہیں ہے' وہ ایک لشکر ہے
یہاں تو معرکہ ہو گا' مقابلہ کیسا!
یہ سرخ بوند سی کیا گھل رہی ہے پانی میں
یہ سبز عکس ہے آنکھوں میں پھیلتا کیسا
کھڑا ہے کون اکیلا حصار غربت میں
گھرا ہوا ہے اندھیروں میں آئنہ کیسا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔