کربلا …اور ہم دوسرا اور آخری حصہ
سانحہء کربلا کا دکھ دنیا کے تمام مسلمانوں کا مشترکہ دکھ ہے۔
DI KHAN:
سانحہء کربلا کا دکھ دنیا کے تمام مسلمانوں کا مشترکہ دکھ ہے۔ مسلمان صدیوں سے اس کا اکٹھے سوگ مناتے رہے ہیں۔ فرقے موجود تھے مگر ایک دوسرے کے لیے عزّت اور احترام کا رشتہ بھی قائم تھا۔ ایک فرقے کے لوگ سوگ مناتے تو دوسرے ان کے لیے سبیلیں لگاتے۔ ایک فریق شہدائے کربلا کے لیے ماتم میں مصروف ہوتا تو دوسرا اِن کے لیے کھانا پکاکر لاتا۔ برّصغیر میں یہ سلسلہ صدیوں تک چلتا رہا۔ مگر چند سالوں سے یہ قتل و غارتگری کیوں شروع ہوگئی لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر کیوں تُل گئے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یقیناً ان اسلام دشمن عالمی طاقتوں کی سازش ہے جو اس بات سے خائف ہیں کہ اسلام بڑی تیزی سے یورپ اور امریکا میں پھیل رہا ہے اس لیے وہ مسلمانوں میں فرقہ وارانہ اختلافات کو فروغ دینے اور انھیں آپس میں لڑانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں مگر نچلی سطح تک ان کی کوششیں ناکام رہی ہیں اورہمارے معاشرے میں تمام فرقوں کے لوگ آپس میں بھائیوں کی طرح رہ رہے ہیں اور سوسائٹی فرقہ بازی کی بناء پر تقسیم نہیں ہوئی ۔ مگر دوسری وجہ زیادہ اہم ہے سرکاری افسران اور حکام اس کا ذکر نہیں کرتے مگر اس کا واضح الفاظ میں ذکر ضروری ہے کیونکہ یہ تشدّد کی بنیادی وجہ بن رہی ہے۔
ایک فریق کی طرف سے یہ شکوہ ہوتا ہے کہ چند سال پہلے تک جولوگ ہمارے ساتھ جلوسوں میں شامل ہوتے تھے وہ کیوں مُنہ موڑ گئے ہیں،ہمارے دشمن کیوں بن گئے ہیں؟ دوسری طرف سے شکوہ ہوتا ہے کہ کچھ مقدّس اور محترم ترین ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز مواد شایع کیا جاتا ہے اور تقریروں میں ان کی اس طرح تضحیک کی جاتی ہے کہ سن کر دماغ پھٹنے لگتا ہے۔
حضرات!کسی کے جذبات کوٹھیس نہ پہنچانے کا فیصلہ تو خود باری تعالیٰ نے یہ کہہ کر سنادیا کہ' تم ان کے جھوٹے خداؤں کو برا نہ کہو... ان کی توہین نہ کرو... ایسا نہ ہوکہ وہ تمہارے سچے خدا کے بارے میں توہین آمیز بات کریں' اور جنکی توہین کی جاتی ہے وہ ہستیاں کون ہیں ؟ آقائے دوجہاںﷺ کے قریب ترین ساتھی، وفادار اور جانثار۔ درسگاہِ نبوّت کے تربیّت یافتہ، دربارِ رسالت کے سند یافتہ۔ یہ وہ جلیل القدر افراد ہیں جو قیامت تک دنیا کے تمام انسانوں کے لیے نمونہ اور رول ماڈل ہیں۔
کون ہیں یہ ہستیاں!۔ یہ بھی جان لیں!۔ آقائے دوجہاںؐ کے وصال کے بعد اسلامی سلطنت کی قیادت کا تاج جس کے سر پر رکھا گیا وہ بالغ افراد میں سب سے پہلے پیغامِ حق پر ایمان لاکر صدّیق کہلائے۔ ہر دکھ درد اور مشکل ترین مرحلے پر ساتھ نبھانے والا رفیقِ نبوّت، جانثار، یارِ غار، جس سے بنائے عشق و محبّت ہے استوار۔ نبی کریمؐ فرماتے تھے '' دنیا میں ہر شخص کے احسانوں کا بدلہ چکا دیا ہے سوائے ابوبکر کے '' حضورؐ نے بیماری میں کسی کو امامت کرانے کا اعزاز بخشا تو وہ بھی ابوبکرؓ کو۔ عشقِ مصطفیٰ ؐ کی آخری منزل کا نام ابوبکر ؓہے، اقبالؒ نے حضورؐ سے ان کی بے مثال عقیدت کا کیا نقشہ کھینچاہے کہ 'پروانے کو ہے شمع اور بلبل کو پھول بس... صدیق ؓکے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس!ـ' خلیفہء اوّل حضرت ابوبکر صدیّق رضی اﷲ تعالی عنہ وفاداری و جانثاری کے اس عظیم پیکر کے بعد مملکتِ اسلامیہ کی قیادت کا پرچم جس شخصیّت کے سپرد کیا گیا اسے قدرت نے بے مثال اور حیرت انگیزصلاحیّتوں سے نوازا تھا۔
اس کے اوصاف اور اس کے کارناموں اور Achievementsپر غیر مسلم محقّق اور اسکالر بھی حیران وششدر ہیں۔ مسلمان ہی نہیں غیر مسلم مورّخ بھی اسے "Omer the Great"لکھنے پر مجبور ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پوری انسانی تاریخ میں عمر فاروقؓ جیسا ایڈمنسٹریٹر پیدا نہیں ہوا... نہ ان سے پہلے نہ ان کے بعد۔ گورننس ہو یا عدل،جہاد ہو یا اجتہاد... زندگی کے ہر شعبے میں اتنی Reformsکیں کہ آج کے منتظم بھی اُن سے استفادہ کرتے ہیں۔
قافلۂ حجاز میں ان کی شمولیت کے لیے رسالت مآب ؐ نے خود دعا فرمائی اور پھر یہ کہہ کر تو بات ہی ختم کردی کہ '' میرے بعد اگر نبی آنا ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا'' یہ ہیں خلیفۂ ثانی حضرت فاروقِ اعظمؓ جنکی شہادت پرفقہء جعفریہ سے تعلق رکھنے والے مشہور مورّخ سیّد امیر علی نے لکھا ہے کہ '' اُس روز ایک انسان دفن نہیں ہوا اسلام کی عظمت و شوکت قبر میں اُتار دی گئی'' ۔حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے بعد قیادت کا پرچم حضرت عثمان غنیؓ کے سپرد کیا گیا۔ شرم و حیا کے عظیم پیکر، نیکی و پاکیزگی کا مجسّمہ۔ نئی اسلامی سلطنت کے استحکام کے لیے جس قدر مالی قربانی حضرت عثمانؓ نے دی کوئی اور نہ دے سکا ۔ آقائے دوجہاںؐ نے اپنی دو بیٹیاں حضرت عثمانؓ کے عقد میں دیں جس کے باعث ذوالنورین کہلائے۔ زہدوتقویٰ، قربانی، نیکی اور پاکیزگی کی ایسی عظیم مثال تاریخ میں کہیں اور نظر نہیں آئی۔
آپ کی شہادت کے بعد جس ہستی کے سر پر قیادت کا تاج رکھا گیا اس کے کمالات بے حدّ و حساب ہیں شجاعت و بہادری کے مقامِ آخر کا نام علیؓ۔ دانش و حکمت کے اوجِ کمال کا نام علیؓ ، نہ اس کی بہادری کی کوئی مثال نہ اس کی دانش و حکمت کا کوئی کنارہ۔ جنھیں آنحضرتؐ کا سب سے زیادہ قرب حاصل رہا اور جو حضورؐ کی صحبّت اور تربیّت سے سب سے زیادہ فیضیاب ہوئے، وہ علی کرم اﷲ وجہٗ ہی تھے جن کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرما دیا کہ ''میں علم کا شہر ہوں اور علی ؓاس کا دروازہ ''۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ فقہ کے پیچیدہ مسائل پر حضرت علی کرم اﷲوجہ ٗسے رجوع کیا کرتے اور ان کی رائے حتمی سمجھی جاتی... جو مسئلہ کسی سے حل نہ ہوا وہ علی مرتضٰے ؓنے حل کردیا، جو معرکہ کوئی اور سر نہ کرسکا وہ بازوئے حیدر نے سر کردیا۔
ان جیسے انسان انسانی تاریخ میں پھر پیدا نہیں ہوئے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جو قیامت تک انسانوں کے لیے رول ماڈل رہیں گی۔ کیا ہمارے لیے ان عظیم ترین ہستیوں پر رائے زنی کرنا مناسب اور جائز ہے؟ ہم ان عظیم ہستیوں کا مقام اور مرتبہ دیکھیں اور اپنے آپ کو دیکھیں... کہاں آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے... کہاں زمین پر رینگتے ہوئے ہم جیسے کیڑے مکوڑے۔ کہاں وہ عظمتوں کے پیکر اور کہاں ہم گناہوں میں لتھڑے ہوئے بے ضمیر اور پست کردارلوگ! کیا مٹی کی معمولی سی ٹبّیِ ھمالیہ کے بارے میں رائے دے سکتی ہے؟ کیا گندے پانی کا چھوٹا سا جوہڑ بحرالکاہل کے مقام کا تعین کریگا؟ کیا دسویںجماعت کی سائینس میں فیل ہونے والا آئن سٹائن کے مقام کا فیصلہ کر سکتا ہے ؟
کیا آٹھویں جماعت میں اسکول سے بھاگ جانے والا اقبالؔ اور غالبؔ کی Evaluation کرسکتا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ ہمارا علم محدود، ہمارا کردار مشکوک ، معلومات فرسودہ اور دامن گناہوں سے آلودہ ہے، ہمیں اُن جلیل القدر ہستیوں کے مقام کا تعیّن کرنے کا حق نہیں جن کا نام بھی بغیر وضوکے نہیں لیا جاسکتا۔ ان کے مقام کے تعیّن کا حق صرف خدا کو ہے یا خدا کے رسولؐ کو! اسی طرح کسی کلمہ گو کو کافر کہنے کا اختیار کسی مولوی کو نہیں... اس کا فیصلہ بھی صرف خدائے ذوالجلال ہی کرسکتے ہیں۔ ہم تو اپنے دامن پر لگے گناہوں کے دھّبے دھونے لگ جائیں تو قیامت تک دھوتے ہی رہیں۔
سب اچھی طرح سن لیں! محتر م ترین ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز یا قابلِ اعتراض تقریر کرنا یا کسی کی دل آزاری والا مواد چھاپنا غیرقانونی اور قابلِ گرفت جرم ہے۔ جو بھی اس جرم کا مرتکب ہو اس کے خلاف فوراً کاروائی ہوگی۔ اسی طرح کسی کلمہ گو کو کافر کہنا قابلِ گرفت جرم ہے ، ایسا کرنے والے کے خلاف سخت اورموثر کارروائی ہوگی۔ قانون آپ کو مکمل تحفظّ بھی دیگااور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری طور پر حرکت میں بھی آئیگا۔ یاد رہے کہ قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہوگا۔ سیکیورٹی کے تمام تر انتظامات کرلیے گئے ہیں آپ سے توّقع ہے کہ آپ پولیس سے پوری طرح تعاون کریں گے۔
یہ اس خطاب کے اقتباس ہیں جو راقم محرّم کے آغاز میںایس ایس پی اور ڈی آئی جی کی حیثیّت سے رحیم یار خان، ڈی آئی خان، ایبٹ آباد، کوہاٹ، گوجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ ، قصور میں تمام فرقوں کے نمایاں افراد اور شہریوں کے مشترکہ اجتماعات میں کرتا رہا ہے چند الفاظ یا فقرے مختلف ہوسکتے ہیں مگر مفہوم یہی ہوتا تھا ۔
راقم کو یاد ہے کہ قریباً ہر جگہ تقریر کے بعد شیعہ اور سنّی دونوں اطراف کے پڑھے لکھے علماء نے آکرکہا '' ہم نے بڑی بڑی امن کانفرنسیں دیکھی ہیں مگر وہاں کھوکھلی اور بے معنی سی باتیں ہوتی ہیں۔آپ نے اصل بات دلائل کے ساتھ اور دو ٹوک انداز میں کہہ دی ہے ہم خوش ہیں ، ہمیں آپ پر اعتماد ہے کیونکہ آپ غیر جانبدار ہیں اور بلا استثناء قانون نافذ کرتے ہیں'' اﷲ کا شکر ہے کسی جگہ کوئی گڑبڑ یا ناخوشگوار واقعہ نہ ہوا نہ کہیں فوج کو بلانا پڑا۔قانون کے سامنے سب کو سر جھکانا پڑا۔
پس تحریر! بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے مسلمان ہر روزاپنے خون سے قائد اعظم ؒ کی بصیرت اور دو قومی نظرئیے کی سچائی پر مہر لگا رہے ہیں۔ ایک معزز خاتون نے میسج کیا ہے کہ '' ہر بار گائے کا گوشت کھاتے وقت قائداعظم ؒ زندہ باد کہا جائے'' صرف گوشت کھاتے وقت ہی نہیں آزادی کا ہر سانس لیتے ہوئے دل سے قائد اعظم ؒ ' علامہ اقبال ؒ اور پاکستان بنانے والے راہنماؤں ' کارکنوں اور شہیدوں کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔آمین