مذہبی انتہا پسندی اور میڈیا
دنیا مختلف مذاہب وعقائد کو ماننے والوں سے بھری پڑی ہے،
دنیا مختلف مذاہب وعقائد کو ماننے والوں سے بھری پڑی ہے، دنیا میں رہنے والے وہ لوگ جو دنیا میں رہنے والے 7 ارب انسانوں کے درمیان محبت و بھائی چارے کے فروغ کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔
ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی حوالے سے بھی انسانوں کے درمیان تعصب اور نفرتوں کی آبیاری نہ ہو انسانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور اعتدال پسندی کی ترغیب فراہم کرنا ایسے لوگوں کے نزدیک عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ انسان جن جن حوالوں سے تقسیم ہے ان میں ایک حوالہ مذہب ہے ۔
اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ دشمن کی جگہ دوستی نفرت کے بجائے محبت تعصب کے بجائے بھائی چارے کو فروغ حاصل ہو۔ مذہب ایک ایسا موضوع ہے جس پر نیک نیتی کے ساتھ رائے کے اظہار میں بھی بڑی احتیاط کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمارے محترم شعرا نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے بے شمار کوششیں کیں، تنظیمیں بنائیں لیکن اس حوالے سے زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
مسئلہ مذاہب کے فرق کا بلاشبہ ایک حقیقی مسئلہ ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم، ہم مذہب ہونے کے باوجود مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اس حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن یہ تقسیم جب تعصب اور امتیازکا روپ دھار لیتی ہے تو صورتحال میں سنگینی پیدا ہوجاتی ہے۔آج اگر ہم مسلم ملکوں پر نظر ڈالیں تو اس حوالے سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور بعض افریقی ملکوں میں فقہی اختلافات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ خون خرابے کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ عراق، شام سمیت کئی مسلم ملکوں میں فقہی حوالوں سے تصادم اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ عبادت گاہوں جیسی متبرک عمارتیں بھی ان تعصبات کی زد میں ہیں۔ عبادت گاہیں خواہ ان کا تعلق کسی مذہب سے ہو قابل احترام ہوتی ہیں لیکن فقہی جنون کا عالم یہ ہے کہ عبادت گاہوں میں خدا کی عبادت کرنے والوں کو بھی بارود اور بموں کے ذریعے بیدردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔
عراق میں دو بڑے فقہوں کے لوگ صدیوں سے رہتے آرہے ہیں۔ عراق پر امریکی قبضے سے قبل عراق میں فقہوں کے حوالے سے وہ نفرت وہ تعصبات موجود نہ تھے جو عراق پر امریکی قبضے کے بعد نظر آتے ہیں۔ یہاں صورتحال اس حد تک بگڑی ہوئی ہے کہ عراق کا دارالحکومت عملاً دو حصوں میں بٹ چکا ہے ایک فقہ کو ماننے والے دوسرے فقہ کو ماننے والوں کے علاقے میں نہیں جاسکتے اگر جاتے ہیں تو زندہ واپس نہیں آسکتے۔
سعودی عرب دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس لیے قابل احترام حیثیت کا حامل ملک ہے کہ یہاں پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ کی آخری آرام گاہیں ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے سعودی عرب کے مختلف حصوں میں عموماً فقہوں کی بنیاد پر دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 17 اکتوبر کی ایک خبر کے مطابق سعودی عرب کے ایک شہر سیہات میں مسجد پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے اس سے قبل بھی اس قسم کے کئی واقعات ہوچکے ہیں جن میں درجنوں بے گناہ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔
نائیجیریا افریقہ کا ایک بڑا ملک ہے جہاں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ 17 اکتوبر ہی کی ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق نائیجیریا کے دارالحکومت میدوگوری کی ایک مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں وہاں موجود تمام نمازی شہید ہوگئے، دو خودکش حملہ آوروں نے اس مسجد پر حملہ کیا تھا ایک عینی شاہد کے مطابق اس نے اس مسجد میں 42 لاشیں دیکھی ہیں۔
یہ انتہا پسندی کتنی شدت پکڑ رہی ہے اس کا اندازہ نائیجیریا ہی میں ہونے والے ایک اور خودکش حملے سے کیا جاسکتا ہے دارالحکومت میدوگوری کے ایک مضافاتی علاقے میں تین خواتین نے خودکش حملے کیے جن میں 4 شہری جاں بحق اور 17 زخمی ہوئے یہ صورتحال صرف نائیجیریا میں ہی نہیں بلکہ افریقہ کے کئی ملکوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد عراق سمیت کئی مسلم ملکوں میں فقہی قتل و غارت میں جو اضافہ ہوا ہے کیا وہ اتفاق ہے یا کسی بڑے منصوبے یا سازش کا حصہ ہے، اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ یہ خون خرابہ تسلسل سے جاری ہے اور پھیل رہا ہے اور اس میں افراد نہیں بلکہ تنظیمیں ملوث ہیں۔
مذہبی انتہا پسندی کی شدت کے حوالے سے لکھے گئے پچھلے کالموں میں ہم نے اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ سرمائے کے گلوبلائزیشن کے ساتھ طبقاتی استحصال میں جو اضافہ ہوا ہے، اس نے ساری دنیا کے عوام کو اس استحصالی نظام کے خلاف متحد کرنا شروع کیا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں رہنے والے عوام طبقاتی استحصال کے خلاف متحد ہو رہے ہیں۔
اس سنگین خطرے سے نمٹنے اور بچنے کے لیے کوئی ایسا عالمی ایشو کھڑا کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا کے عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا رخ پھیر دے۔ اس تناظر میں جب ہم دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی مسلم ملکوں میں بڑھتی ہوئی فقہی انتہا پسندی اور بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے عوامل اسی ایک سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد عوام کی توجہ طبقاتی استحصال سے ہٹانا ہے۔
اگر یہ واقعی دنیا بھر کے عوام کے خلاف ایک سازش ہے تو اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بڑے تحمل بڑی بردباری سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے او آئی سی ہی ایک ایسی تنظیم ہے جو مسلم ملکوں کی نمایندگی کرتی ہے اصولاً تو یہ او آئی سی ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ مسلم ملکوں میں مختلف حوالوں سے بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کی کوشش کرے لیکن جب ہم اس قسم کی تنظیموں پر امریکا کی بالادستی کا اندازہ کرتے ہیں تو او آئی سی سے کسی خیر کی توقع فضول معلوم ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ مسلم ملکوں میں کوئی اور تنظیم نظر نہیں آتی جو مسلم ملکوں کے اس سنگین مسئلے میں مددگار ثابت ہو۔ یہی حال اقوام متحدہ کا ہے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کا طفیلی ادارہ بنی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا ہی ایک ایسی طاقت نظر آتا ہے جو بڑے موثر انداز میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ایک آہنی دیوار بن سکتا ہے۔ آج الیکٹرانک میڈیا کی رسائی چپے چپے ہر گاؤں ہر علاقے تک ہوگئی ہے اور خواندہ ناخواندہ ہر شخص ٹی وی کے سامنے ہوتا ہے، کیا آزاد میڈیا جرأت سے اپنی یہ ذمے داری پوری کرے گا؟
ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی حوالے سے بھی انسانوں کے درمیان تعصب اور نفرتوں کی آبیاری نہ ہو انسانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور اعتدال پسندی کی ترغیب فراہم کرنا ایسے لوگوں کے نزدیک عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ انسان جن جن حوالوں سے تقسیم ہے ان میں ایک حوالہ مذہب ہے ۔
اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ دشمن کی جگہ دوستی نفرت کے بجائے محبت تعصب کے بجائے بھائی چارے کو فروغ حاصل ہو۔ مذہب ایک ایسا موضوع ہے جس پر نیک نیتی کے ساتھ رائے کے اظہار میں بھی بڑی احتیاط کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمارے محترم شعرا نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے بے شمار کوششیں کیں، تنظیمیں بنائیں لیکن اس حوالے سے زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
مسئلہ مذاہب کے فرق کا بلاشبہ ایک حقیقی مسئلہ ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم، ہم مذہب ہونے کے باوجود مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اس حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن یہ تقسیم جب تعصب اور امتیازکا روپ دھار لیتی ہے تو صورتحال میں سنگینی پیدا ہوجاتی ہے۔آج اگر ہم مسلم ملکوں پر نظر ڈالیں تو اس حوالے سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور بعض افریقی ملکوں میں فقہی اختلافات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ خون خرابے کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ عراق، شام سمیت کئی مسلم ملکوں میں فقہی حوالوں سے تصادم اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ عبادت گاہوں جیسی متبرک عمارتیں بھی ان تعصبات کی زد میں ہیں۔ عبادت گاہیں خواہ ان کا تعلق کسی مذہب سے ہو قابل احترام ہوتی ہیں لیکن فقہی جنون کا عالم یہ ہے کہ عبادت گاہوں میں خدا کی عبادت کرنے والوں کو بھی بارود اور بموں کے ذریعے بیدردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔
عراق میں دو بڑے فقہوں کے لوگ صدیوں سے رہتے آرہے ہیں۔ عراق پر امریکی قبضے سے قبل عراق میں فقہوں کے حوالے سے وہ نفرت وہ تعصبات موجود نہ تھے جو عراق پر امریکی قبضے کے بعد نظر آتے ہیں۔ یہاں صورتحال اس حد تک بگڑی ہوئی ہے کہ عراق کا دارالحکومت عملاً دو حصوں میں بٹ چکا ہے ایک فقہ کو ماننے والے دوسرے فقہ کو ماننے والوں کے علاقے میں نہیں جاسکتے اگر جاتے ہیں تو زندہ واپس نہیں آسکتے۔
سعودی عرب دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس لیے قابل احترام حیثیت کا حامل ملک ہے کہ یہاں پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ کی آخری آرام گاہیں ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے سعودی عرب کے مختلف حصوں میں عموماً فقہوں کی بنیاد پر دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 17 اکتوبر کی ایک خبر کے مطابق سعودی عرب کے ایک شہر سیہات میں مسجد پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے اس سے قبل بھی اس قسم کے کئی واقعات ہوچکے ہیں جن میں درجنوں بے گناہ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔
نائیجیریا افریقہ کا ایک بڑا ملک ہے جہاں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ 17 اکتوبر ہی کی ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق نائیجیریا کے دارالحکومت میدوگوری کی ایک مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں وہاں موجود تمام نمازی شہید ہوگئے، دو خودکش حملہ آوروں نے اس مسجد پر حملہ کیا تھا ایک عینی شاہد کے مطابق اس نے اس مسجد میں 42 لاشیں دیکھی ہیں۔
یہ انتہا پسندی کتنی شدت پکڑ رہی ہے اس کا اندازہ نائیجیریا ہی میں ہونے والے ایک اور خودکش حملے سے کیا جاسکتا ہے دارالحکومت میدوگوری کے ایک مضافاتی علاقے میں تین خواتین نے خودکش حملے کیے جن میں 4 شہری جاں بحق اور 17 زخمی ہوئے یہ صورتحال صرف نائیجیریا میں ہی نہیں بلکہ افریقہ کے کئی ملکوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد عراق سمیت کئی مسلم ملکوں میں فقہی قتل و غارت میں جو اضافہ ہوا ہے کیا وہ اتفاق ہے یا کسی بڑے منصوبے یا سازش کا حصہ ہے، اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ یہ خون خرابہ تسلسل سے جاری ہے اور پھیل رہا ہے اور اس میں افراد نہیں بلکہ تنظیمیں ملوث ہیں۔
مذہبی انتہا پسندی کی شدت کے حوالے سے لکھے گئے پچھلے کالموں میں ہم نے اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ سرمائے کے گلوبلائزیشن کے ساتھ طبقاتی استحصال میں جو اضافہ ہوا ہے، اس نے ساری دنیا کے عوام کو اس استحصالی نظام کے خلاف متحد کرنا شروع کیا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں رہنے والے عوام طبقاتی استحصال کے خلاف متحد ہو رہے ہیں۔
اس سنگین خطرے سے نمٹنے اور بچنے کے لیے کوئی ایسا عالمی ایشو کھڑا کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا کے عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا رخ پھیر دے۔ اس تناظر میں جب ہم دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی مسلم ملکوں میں بڑھتی ہوئی فقہی انتہا پسندی اور بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے عوامل اسی ایک سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد عوام کی توجہ طبقاتی استحصال سے ہٹانا ہے۔
اگر یہ واقعی دنیا بھر کے عوام کے خلاف ایک سازش ہے تو اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بڑے تحمل بڑی بردباری سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے او آئی سی ہی ایک ایسی تنظیم ہے جو مسلم ملکوں کی نمایندگی کرتی ہے اصولاً تو یہ او آئی سی ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ مسلم ملکوں میں مختلف حوالوں سے بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کی کوشش کرے لیکن جب ہم اس قسم کی تنظیموں پر امریکا کی بالادستی کا اندازہ کرتے ہیں تو او آئی سی سے کسی خیر کی توقع فضول معلوم ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ مسلم ملکوں میں کوئی اور تنظیم نظر نہیں آتی جو مسلم ملکوں کے اس سنگین مسئلے میں مددگار ثابت ہو۔ یہی حال اقوام متحدہ کا ہے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کا طفیلی ادارہ بنی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا ہی ایک ایسی طاقت نظر آتا ہے جو بڑے موثر انداز میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ایک آہنی دیوار بن سکتا ہے۔ آج الیکٹرانک میڈیا کی رسائی چپے چپے ہر گاؤں ہر علاقے تک ہوگئی ہے اور خواندہ ناخواندہ ہر شخص ٹی وی کے سامنے ہوتا ہے، کیا آزاد میڈیا جرأت سے اپنی یہ ذمے داری پوری کرے گا؟