پاکستان کی شہ رگ

اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ قرضہ دار ملک بے چارہ امریکا اور قرض خواہ ملک چین ہے

اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ قرضہ دار ملک بے چارہ امریکا اور قرض خواہ ملک چین ہے۔ ماضی میں دنیا چار سپر پاورز کے زیر اثر تھی (مثلاً روس، امریکا، برطانیہ، فرانس) مستقبل قریب میں پانچ سپر معاشی طاقتوں کے زیر اثر ہو گی (مثلاً برازیل، روس، انڈیا، چائنا، ساؤتھ افریقہ، BRICS) ماضی میں گیم چینجر امریکا تھا اب مستقبل میں گیم چینجر چین ہو گا۔

بھارت 2005ء میں امریکا سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کر کے باضابطہ امریکی کیمپ میں چلا گیا اور پاکستان 2015ء میں چینی صدر کے سرکاری دورے اور 46 ارب ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں کے معاہدے کر کے چین کے حلقہ اثر میں داخل ہو گیا۔ جس کا میگا پراجیکٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری PCEC ہے جو کاشغر کو پاکستان کی سال بھر کھلی رہنے والی گرم پانی کی بندرگاہ گوادر سے ملائے گی۔ اب PCEC کے خلاف ہر بین الاقوامی سازش نہ صرف پاکستان بلکہ چین اور روس کے خلاف بھی تصور کی جائے گی۔

اس منصوبے کے پاکستان پر معاشی، تجارتی، صنعتی، انقلابی اثرات پر کھل کر بحث کی جا رہی ہے، لیکن میں آج ایک اور اہم دھماکا خیز، سیاسی تاریخی پیش رفت کے امکان پر روشنی ڈالنے کی جسارت کروں گا جو بطور بونس پاکستان کی جھولی میں گر سکتی ہے۔ پہلے آج کے جنوبی ایشیا کے تاریخی و جغرافیائی سیناریو پر ایک نظر۔چین کی جنوبی سرحد ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر تبت سے شاہراہ ریشم تک بھارت، کشمیر اور پاکستان کی شمالی سرحد سے ملتی ہے پاکستان کی سرحد سب سے چھوٹی ہونے کے باوجود سب سے اہم ہے کیونکہ یہاں سے شاہراہ ریشم چین کو پاکستان کی گرم پانیوں کی بندرگاہوں تک رسائی دیتی ہے۔

جس کو اب چین پاکستان اقتصادی راہداری CPEC میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ CPEC چین کے ساتھ ساتھ روس کے لیے بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ روس خشکی سے گھرا ہوا ہے (Land Locked) ملک ہے۔ پاکستانی بندرگاہوں کی اہمیت اس لیے ہے کہ یہ (1)۔ سارا سال کھلی رہنے والی گرم پانیوں کی بندرگاہیں ہیں۔

(2) یورپ مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے فاصلہ قریب ترین ہے۔ نتیجتاً (3)۔ حمل و نقل کے اخراجات میں کفایت۔ (4)۔ پیداوار کی لاگت میں کمی اور (5)۔ منڈی میں مقابلے کی سکت میں بے تحاشہ اضافہ۔اس کو روکنے کا آسان ترین طریقہ یہ تھا کہ پاکستان کو چین کے حلقہ اثر میں جانے سے روکا جائے یا چین کو پاکستان میں آنے سے ڈرایا جائے۔ جس کے لیے پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت بنا دیا گیا تھا۔ تا کہ (1)۔ پاکستان اتنا ہراساں ہو جائے کہ اپنی بقا کی خاطر بھارت کا ''بغل بچہ'' بننے پر راضی ہو جائے۔ (2)۔ شاہراہ ریشم CPEC نہ بن سکے۔ (3)۔ چین بھارت کے حصار میں آ جائے۔ لیکن ''سو سنار کی اور ایک لوہار کی'' کے مصداق پاکستان کے آرمی چیف نے بروقت دہشت گردوں پر ''ضرب عضب'' لگا دی۔

نتیجہ۔ اللہ دے اور بندے لے۔ ایک طرف بھارت کا جنوبی ایشیا کا تھانیدار اور بحرہند کا چوکیدار بننے کا خواب چکنا چور ہوا تو دوسری طرف سلامتی کونسل کی مستقل نشست اور ویٹو پاور کی تمنا ملیا میٹ۔چین کے جنوب میں ایک نہیں دو حصار ہیں ایک خشکی پر دوسرا سمندر میں۔ خشکی پر جنوب میں چین کو گھیرے میں لینے کا معاملہ تو تمت بالخیر ہو گیا۔ لیکن مشرقی چین کے جنوب میں واقع ساؤتھ پیسفک اوشن میں امریکی بحریہ کے مقابلے میں چینی بحریہ کو اور جنوبی ایشیا کے سمندر بحرہند میں بھارتی بحریہ کے مقابلے میں پاکستانی بحریہ کو بالادستی حاصل نہیں ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چین اور پاکستان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ بلکہ پاکستان کو چین کی طرف سے ایٹمی آبدوزوں کی سپلائی کا ''سلسلہ'' شروع ہو چکا ہے اور پاکستان نے اپنی سمندری حدود میں اضافہ بھی کر لیا ہے تا کہ جنوب میں بحری ٹریفک پر اس کا کنٹرول رہے۔ پاکستان کو چین کی طرف سے ایٹمی آبدوزوں کی سپلائی کا ''سلسلہ'' بھی شروع ہو چکا ہے۔ ساتھ ساتھ چین نے بھی ساؤتھ چائنا پیسفک اوشن میں ایٹمی آبدوز اتارنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ جس پر امریکا نے صرف اتنا اعتراض کیا کہ اس کی مناسب تشہیر کی جانی چاہیے تھی۔ چین نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے جواب دیا یہ جنوبی چین کا سمندر ہے (یعنی جنوبی امریکا کا نہیں) حقیقت یہ ہے کہ ویتنام کے جنوبی سمندر میں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ آگے تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔


مختصراً اگر گلشن کا کاروبار یوں ہی چلتا رہا تو ایک عام آدمی کو جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ آگے چل کر پیسفک اوشن سے بحر ہند تک سطح سمندر پر امریکا اور بھارت کے بحری بیڑے رواں دواں ہوں گے اور سطح سمندر سے نیچے چین اور پاکستان کی ایٹمی آبدوزیں۔

A۔ سوال یہ ہے کہ آخر بھارت کو چین پاکستان اقتصادی راہداری سے تکلیف کیا ہے؟ بھارت کے اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ یہ علاقہ متنازعہ ہے جہاں سے اقتصادی راہداری گزر رہی ہے۔ گویا بھارت کشمیر کے علاقے کو متنازعہ/ تصفیہ طلب علاقہ تسلیم کرتا ہے تو بھارت کا ''اٹوٹ انگ'' کون سا علاقہ ہے؟ اگر کشمیر کا مقبوضہ علاقہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے تو پھر وہاں بھارت کی سات لاکھ فوجیں کیا کر رہی ہیں؟

کیا دہلی، ممبئی، چنائی وغیرہ میں بھی سات سات لاکھ فوجیں تعینات ہیں؟ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں تو فوج نظر ہی نہیں آتی کیوں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر خدانخواستہ پورا کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہوتا تو اس پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے 14 لاکھ فوج کی ضرورت پڑتی (مقبوضہ کشمیر کی طرح)۔ اس کے برخلاف اگر سارا کشمیر پاکستان کے زیر کنٹرول ہوتا تو پورے علاقے میں فوج ہی نظر نہیں آتی (آزاد کشمیر کی طرح)۔

B۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو پاکستان چین اور روس کے مفاد میں یہ ہے کہ اس متنازعہ علاقے کا پائیدار حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نکل آئے تا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔ یاد رہے جب 1962ء میں بھارت نے چین کے علاقے تبت کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کی سازش کی تھی تو جواباً چین نے بھارتی فوجوں کو تبت سے رگیدتے ہوئے آسام تک لا کر چھوڑ دیا تھا اور پاکستان کو مشورہ دیا کہ کشمیر پر قبضہ کر لو۔ مگر ہمارے فیلڈ مارشل امریکی جھانسے میں آ گئے تھے۔

C۔ اب کشمیر کے مسئلے کو ٹالا نہیں جا سکتا کیونکہ اب کشمیری قوم خود اپنے وطن کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور اپنے جلوسوں میں کھلے بندوں پاکستانی پرچم لہرا رہی ہے تا کہ دنیا کو ہوا کے رخ کا پتہ چل سکے۔

D۔ ساری رام کہانی میں امریکا کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ آخر کار امریکی صدر بارک اوباما نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس 2015ء میں اقوام عالم کے روبرو یہ تسلیم کیا کہ (1)۔ اب علاقوں پر قابض ہونا طاقت کی علامت نہیں رہی۔ (2)۔ قوموں کی طاقت کا مرکز وہاں کے عوام ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ بات اب بھی بھارت کی سمجھ میں آئی ہے کہ نہیں۔

پاکستان گاندھی جیسے لیڈروں کی وجہ سے نہیں بلکہ ولبھ بھائی پٹیل جیسے رہنماؤں کی وجہ سے بنا جس کا تعلق بھارت کے حاضر وزیر اعظم نریندر مودی کے قبیلے سے ہے۔ اگر آج بھی نریندر مودی گردی یوں ہی چلتی رہی تو کشمیر کی آزادی کے لیے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ کسی بھی وقت کشمیری قوم سڑکوں پر آ کر واپس جانے سے انکار کر سکتی ہے۔ پاکستان کو اب صرف آنکھیں کھلی رکھنے اور ذہن کھلا رکھنے کی ضرورت ہے۔ مواقعے کبھی کبھار ہی آتے ہیں اس لیے قیمتی بھی ہوتے ہیں۔ دعا کیجیے کہ دوبارہ 1962ء کی طرح پلک جھپکنے کی عیاشی قوم کو مہنگی نہ پڑ جائے۔
Load Next Story