انجمن
فقیر سید وحید الدین کے ایک پرانے ملازم کا نوجوان لڑکا ان کے پاس رہتا تھا۔
فقیر سید وحید الدین کے ایک پرانے ملازم کا نوجوان لڑکا ان کے پاس رہتا تھا۔ یہ بالکل اَن پڑھ تھا۔ ایک دن وہ ان سے کہنے لگا کہ میں نے لقا کبوتروں کا ایک جوڑا پال رکھا ہے۔ یہ دونوں اتنے خوبصورت ہیں کہ آپ دیکھیں گے تو بہت خوش ہوں گے۔ وحید الدین نے کہا، اچھا کسی دن اپنے کبوتر مجھے دکھانا۔ دوسرے دن صبح وہ کبوتروں کا جوڑا لے آیا۔
وحید الدین کو دفتر جانا تھا۔ انھوں نے نوجوان سے کہا کہ وہ کبوتروں کا جوڑا لے کر گاڑی میں بیٹھ جائے۔ دفتر پہنچ کر اس نے جوڑے کو زمین پر رکھ دیا۔ کبوتر بڑی اکڑ فوں کے ساتھ اپنی گردنیں دم سے ملائے غٹرغوں غٹرغوں کرنے لگے۔ سب لوگ انھیں حیرت اور مسرت سے دیکھنے لگے۔ چند زمیندار ادھر سے گزر رہے تھے، وہ ان کبوتروں کو دیکھ کر ٹھہر گئے اور بہت دیر کھڑے رہے۔ پھر ان میں سے ایک نوجوان نے سوال کیا ''ان کی گردن تو دم سے ملی ہوئی ہے، یہ دانہ کیسے کھاتے ہوں گے؟'' اس نوجوان نے برجستہ جواب دیا ''جناب! گردن چاہے جتنی ٹیڑھی ہو پیٹ بھرنے کے لیے سیدھی کرنی پڑ جاتی ہے۔''
فقیر وحید الدین اپنی کتاب ''انجمن'' میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
''میرا زندگی کا تجربہ یہ ہے کہ اَن پڑھ اور جاہل آدمی بھی بعض اوقات ایسی بات کہہ جاتا ہے جس میں زندگی کا فلسفہ چھپا ہوتا ہے۔'' وحید الدین نے اس کتاب میں بعض شخصیات کا ذکر کیا ہے اور ان سے متعلق کچھ واقعات اور تاثرات بیان کیے ہیں۔
حکیم فقیر محمد چشتی کا ذکر کرتے ہوئے سید وحید الدین لکھتے ہیں ''حکیم صاحب بڑی باغ و بہار شخصیت تھے۔ محفلوں میں ان کی حاضر جوابی کی پھلجھڑیاں خوب بہار دکھاتیں۔ ایک دفعہ حکیم صاحب چوہدری سر شہاب الدین کے علاج کے لیے ان کی کوٹھی پر گئے۔ چوہدری صاحب سیاہ فام تھے۔ نبض دیکھنے کے بعد حکیم صاحب نے جیب سے کاغذ نکالا۔ ابھی چند لفظ ہی لکھے تھے کہ قلم کی سیاہی ختم ہو گئی۔ اس پر چوہدری شہاب الدین نے مزاحیہ انداز میں کہا ''حکیم صاحب! اگر سیاہی ختم ہو گئی ہے تو مجھ سے لے لیجیے۔'' حکیم صاحب نے برجستہ جواب دیا۔ ''جی لے تو لیتا، آپ کے نامۂ اعمال میں کمی ہو جائے گی۔''
حکیم سید عالم شاہ اپنے وقت کے نامور طبیب تھے۔ غریبوں کا علاج مفت کرتے تھے۔ معائنے اور نبض دیکھنے کی فیس کا تو ان دنوں کوئی دستور ہی نہ تھا۔ فقیر سید وحید الدین کی ان سے رشتے داری تھی اور وہ ان کے خاندانی معالج بھی تھے۔ فقیر صاحب لکھتے ہیں ''ایک دفعہ میرے ایک عزیز بخار میں مبتلا ہو گئے۔ حکیم صاحب کے علاج سے ان کا بخار اتر گیا۔ وہ میرے ساتھ حکیم صاحب کے یہاں اپنا حال بیان کرنے کے لیے پہنچے۔ حکیم صاحب نے پوچھا ''اب کیا حال ہے؟'' انھوں نے جواب دیا: ''بخار تو اتر گیا ہے مگر کمزوری بہت ہے۔'' حکیم صاحب نے دریافت کیا ''کمزوری کس قسم کی ہے؟'' بولے ''زیادہ نہیں بولا جاتا۔ بہت کم بولتا ہوں۔'' اس پر حکیم صاحب نے فرمایا ''بھائی! کم بولنا تو نشانی ہے عقل مندی کی اور زیادہ بولنا نشانی ہے بے وقوفی کی۔ آپ دونوں میں سے کس کو پسند کرتے ہیں؟''
اپنے زمانے میں خواتین کے اس رجحان کا ذکر کرتے ہوئے کہ ملبوسات کا عرض اور طول میں وافر ہونا عورت کی جامہ زیبی اور خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے، فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں ''بہادر یار جنگ لاہور آئے ہوئے تھے۔ ایک گرلز کالج میں انھیں خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔
مردوں اور عورتوں کی نشستیں اس طرح تھیں کہ درمیان میں پردہ تھا۔ بہادر یار جنگ نے تقریر شروع کی۔ سب سے پہلے مرد و زن کے اس جدا جدا انتظام نشست اور پردے کے اہتمام کو مسلمانوں کی قومی غیرت اور عورتوں کی اخلاقی برتری کے لیے فال نیک قرار دیا اور کہا کہ اس پردے کو کسی قیمت پر بھی اٹھنے نہ دیجیے۔ پھر طالبات کو کچھ مفید نصیحتیں کرتے ہوئے انھیں فضول خرچی سے اجتناب کرنے کو کہا۔ فرمایا ''لڑکیاں ضرورت سے زیادہ لباس نہ پہنیں۔'' اس پر سر عبدالقادر فوراً بول پڑے۔ ''حضرت! ان کو یہ بھی نصیحت فرمائیے کہ ضرورت سے کم بھی نہ پہنیں۔'' سر عبدالقادر کا یہ جملہ سن کر بہادر یار جنگ بے ساختہ مسکرا دیے۔'' کہنے لگے، یہ جملہ آپ ہی کہہ سکتے تھے۔
فقیر سید وحید الدین کے نانا فقیر سید افتخار الدین کے ایک دوست میاں جمال الدین تھے۔ ان دونوں کی دوستی فقید المثال تھی۔ افتخار الدین کے انتقال کے بعد جمال الدین کو ایک بزرگ نے جو صاحب کشف تھے، انھیں بتایا کہ ان کے دوست کی روح بے چین اور مضطرب نظر آتی ہے، غالباً ان کی والدہ ان سے ناراض ہیں۔ فقیر وحید الدین لکھتے ہیں کہ ان بزرگ سے یہ سنتے ہی جمال الدین اپنے دوست کی والدہ کے پاس گئے۔ ملنے کی درخواست کی۔ وہ پردے کی سخت پابند تھیں۔
ایک پردے کے پیچھے کھڑی ہو گئیں۔ میاں جمال الدین سر پر دستار باندھے ڈیوڑھی میں داخل ہوئے اور آتے ہی انھوں نے اپنی پگڑی فقیر افتخار الدین کی والدہ کے قدموں میں ڈال دی اور آب دیدہ ہو کر عرض کیا ''خدا کے لیے میرے دوست اور اپنے مرحوم بیٹے کو دل سے معاف کر دیجیے۔'' پھر جب تک مرحوم کی والدہ نے یہ نہ کہہ دیا کہ ''میں نے معاف کیا، میرے اللہ نے معاف کیا'' میاں صاحب نے ان کے قدموں سے اپنی پگڑی نہیں اٹھائی۔ پاکستان ٹائمز کے مالک اور سیاست دان میاں افتخار الدین ان ہی جمال الدین کے بیٹھے تھے۔
فقیر سید وحید الدین نے اپنی کتاب میں جن شخصیتوں کا ذکر کیا ہے ان میں علامہ اقبال، نواب ذوالفقار علی خاں، مولانا ظفر علی خاں، سر سکندر حیات، سید مراتب علی، میاں فضل حسین، مولانا صلاح الدین، جسٹس شیخ دین محمد، فیض احمد فیض، مشتاق احمد گورمانی، چوہدری ظفر اللہ خاں، مولانا قمر الحسن تھانوی شامل ہیں۔
اپنی خالہ سیدہ محبوب بیگم کا ذکر وحید الدین نے بڑی محبت اور جذبے سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''میں ان کا ذکر اس بنا پر نہیں کر رہا ہوں کہ وہ میری خالہ ہیں۔ ہر بھانجے کو اپنی خالہ کا احترام اور تعریف ہی کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ذات گوناگوں خوبیوں کا مجموعہ ہے اور میں ان کا ذکر چھیڑ کر دراصل نیکی اور خیر و برکت کی داستان دہرا رہا ہوں۔ ان کے کردار و سیرت کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کا دوسروں کی مدد اور دست گیری کرنے کا بے پناہ جذبہ ہے۔ ''فقیر وحید الدین نے ان کی اس خصوصیت کے حوالے سے کئی واقعات اپنی کتاب میں بیان کیے۔ خود ان کی تربیت میں ان کا حصہ بہت ہے۔
فقیر سید وحید الدین نے جب علامہ اقبال کی شخصیت پر اپنی کتاب مکمل کر لی تو وہ مسودہ لے کر فیضؔ صاحب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ وہ اس پر ایک نظر ڈال لیں اور اس کا کوئی اچھا سا موزوں نام بھی تجویز کر دیں۔ فیضؔ ان دنوں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔ وحید الدین نے ان سے یہ بھی کہا کہ اس کتاب کی طباعت کا انتظام بھی ان ہی کو کرنا ہو گا۔ فیضؔ نے مسودہ ان سے لے لیا اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔
وحید الدین کے ایک دوست اقبال احمد صدیقی بھی اس موقعے پر ان کے ساتھ تھے۔ لکھتے ہیں ''میں نے فیضؔ کا پیشگی شکریہ ادا کیا اور واپس جانے کی اجازت چاہی۔ پھر اگلے دن ہم ان سے ملنے ان کی قیام گاہ پر گئے۔ واپس ہوئے تو فیضؔ ہمیں رخصت کرنے کے لیے نیچے آئے۔ جب ہم تینوں درمیانی سیڑھیوں تک پہنچے تو فیضؔ نے مسکراتے ہوئے کہا ''لیجیے آپ کی کتاب کا نام تو ذہن میں آ گیا۔ اس کا نام ''روزگارِ فقیر'' ہونا چاہیے۔''
سید وحید الدین بتاتے ہیں کہ وہ یہ نام سنتے ہی خوشی سے وارفتہ ہو گئے۔ انھوں نے فیضؔ کو گلے لگا کر کہا کہ تم نے یہ نام تجویز کر کے مجھے زندگی کی ایک ایسی نعمت عطا کی ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہو سکتی۔
فقیر سید وحید الدین کی علامہ کی شخصیت پر یہ کتاب اسی نام سے جو فیض نے تجویز کیا تھا چھپی اور اس کتاب کا پیش لفظ بھی فیضؔ نے لکھا۔