سسکتی انسانیت

کاش عادی نشہ باز اشرافیہ کچھ اس بارے میں بھی سوچے عوام کا تو آمریت اور جمہوریت دونوں نے خون ہی نچوڑا ہے۔

ہمارے شوق بھی عجیب ہیں، مہمات بھی منفرد، خوشیاں بھی جدا ہیں، غم بھی الگ، صبر بھی مختلف ہیں، بے چینیاں بھی وکھری، خوابوں کا بھی کوئی جواب نہیں، آرزوئیں بھی لاثانی، خواہشات بھی بے مثال ہیں، ترجیحات بھی لاجواب، رویوں کا بھی مول نہیں، اطوار کا بھی کیا کہنا۔ اربوں کے بنگلوں میں مسکراتی زندگی دیکھے اور پھر کچی بستیوں میں سسکتی انسانیت کے درشن بھی کرے۔

جس ملک کی ایک چوتھائی یا غالباً اس سے بھی کچھ زیادہ آبادی کے پاس رہنے کو گھر، پہننے کو کپڑا اور کھانے کو روٹی نہ ہو، کیا اس ملک کے چند افراد کو تمام عیاشیوں کا حق دیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں نہ کسی بحث کی گنجائش ہے اور نہ کسی سیاسی نظریے یا سماجی فلسفے کا حوالہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ تو ایک بالکل صاف اور سادہ سی بات ہے۔

اس ملک کو آزاد کرانے میں قوم کے ہر طبقے نے حصہ لیا۔ پاکستان پوری قوم کی قربانیوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اسے بھی چھوڑیے، اس بات کا جواب دیجیے کہ وہ کون سی منطق اور کون سا نظام اخلاق ہے جس کے پیش نظر چند بے ضمیر، موقع پرست افراد نے پوری قوم کو لوٹنے اور کھسوٹنے کا حق پا لیا ہے۔

بد انتظامی اور انصاف نہ ملنے کے سبب عوام اپنی زندگیوں کا چراغ گل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں مگر ہماری حکمراں اشرافیہ کی بے حسی پر کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا، 5 ہزار کا بل آنے پر 8 ماہ کی حاملہ خاتون ثمینہ بی بی اور پولیس اہلکاروں کی زیادتی کا نشانہ بننے والی 25 سالہ سونیا کی انصاف نہ ملنے پر خود سوزی معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔

سارے نظام پر نگاہ ڈالی جائے تو انسان، عام شہری اور جمہور اس نظام میں کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اس جمہوریت کے فریم سے جمہور غائب ہے اور باقی ریت ہی ریت ہے، حکومت کی کسی پالیسی، منصوبہ بندی اور مستقبل بینی میں بنیادی اکائی یعنی انسان عام شہری اولین ترجیح نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت جمہور کے بغیر مضبوط ہو سکتی ہے؟ کیا کوئی سیاسی نظام عام شہری کو زندگی مہیا کیے بغیر پھل پھول سکتا ہے؟

پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کی داستانیں کہاں کہاں دراز نہیں، کسے خبر نہیں کہ ایک خاندان 25 ہزار کینال پر شاہی قیام گاہ بنا چکا ہے، دوسرے نے اسی شہر میں 2 سو کنال پر بم پروف محل بنایا ہے، کسے خبر نہیں کہ پاک لین، برکلے اسٹریٹ لندن، ہائیڈ پارک کے پاس اور سینٹرل لندن میں جائیدادوں کے مالک کون ہیں۔

کسے خبر نہیں کہ سرے محل سمیت کئی محلوں سے پاکستانی قوم کے خون کی بو آتی ہے۔ کسے خبر نہیں کہ کھربوں کا کالا دھن این آر او کی واشنگ مشین میں دھل جاتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کس کے سوا تین ارب کے قرضوں پر سود معاف کر دیا جاتا ہے۔ کسے خبر نہیں کہ کونسی پاکستانی شخصیت امراء کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ کسے خبر نہیں کہ 25 بلین ڈالرز پاکستان کی سولہ شخصیات کی مٹھی میں ہیں یہاں 26 بڑے خاندان سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ یہاں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر سات دنوں کا خرچہ چودہ کروڑ ہو جاتا ہے۔ کون دشمن ملکوں میں بینک بناتا پھر رہا ہے۔ ان تمام باتوں کا جمہوریت کے خدائی خدمتگاروں کو علم نہیں ہے جو صبح و شام سیاستدانوں کے حق میں دلائل گھڑتے ہیں۔

رہی بات عوام کی تو عوام سادہ دل ہیں، یہ نعرے لگاتے ہیں، کبھی کسی کے لیے تو کبھی کسی کے لیے، یہ اپنے اپنے لیڈروں کے نام پر لڑتے بھی ہیں، اپنے گھر کے آنگنوں میں لاشیں بھی لاتے ہیں، الیکشن سے پہلے بھی جھگڑتے ہیں، الیکشن کے روز بھی اور الیکشن کے بعد بھی۔

ووٹ لینے والے نت نئے خواب دکھا کر انھیں بے وقوف بناتے ہیں، جواباً انھیں صرف سراب نصیب ہوتا ہے اور عوام کے لیڈر اس دھرتی پر رہتے ہیں، اس کا رزق کھاتے ہیں، اس کی پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہیں، مختلف عہدوں پر فائز رہتے ہیں، یہاں سے لوٹ مار کر کے مال باہر منتقل کرتے ہیں اور پھر غداروں والے سارے کام کر کے خود کو پاکستانی عوام کا لیڈر کہتے ہیں۔

قائد اعظم کے پاکستان پر حکمرانی کرنے والو! کبھی اپنے اندر اس عظیم رہنما جیسے کوئی دو چار اصول ہی پیدا کر لو کہ جس کے بارے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کہنا پڑا کہ ''ہندوستان کے تمام سیاسی رہنما مجھے ملنے آتے ہیں، ایک قائد اعظم ہیں جنھیں ملنے کے لیے مجھے خود جانا پڑتا ہے، جب میں انھیں ملنے جاتا ہوں تو مجھے وہ دروازے پر خوش آمدید نہیں کہتے، مجھے ڈرائنگ روم میں پانچ سے پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے، پھر جب وہ آتے ہیں میں ان سے ہاتھ ملاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا ہاتھ شیر کے جبڑے میں ہو۔ افسوس صد افسوس کہ قائد اعظم کے ملک پر حکمرانی کرنے والے کھوٹے سکے ہر وقت کرپشن کے گیت گاتے ہیں عجیب لوگ ہیں جن کے لیے عوام کہہ رہے ہیں کہ


ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر

کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے

کیسے کیسے بھیڑیے ملک کو کس طرح بھنبھوڑ رہے ہیں، کمال تو یہ ہے کہ ہر چور، ڈاکو، ٹھگ، لٹیرا اور نقب زن خود کو سادھو ثابت کرنے پر تلا ہے اور کچھ نے چپ سادھ رکھی ہے، جیسے سنا ہی نہ ہو ۔ ملک میں کچھ نہ کیا جائے بس لوٹ مار سے بچا لیا جائے تو عوام خوشحال نہ بھی ہو تو خط غربت پر بڑھتی ہوئی آبادی ختم ہو سکتی ہے۔

عوام کی اکثریت سات کروڑ خط غربت سے نیچے جی رہے ہیں، ڈیڑھ کروڑ کی جھونپڑیوں تک بجلی پہنچی ہی نہیں اور یہاں طبلے کی تال، ہارمونیم کے سر اور پازیب کی جھنکار میں عیش و عشرت کی زندگیاں گزاری جا رہی ہیں، سچ ایمانداری، قانون کی پاسداری، انصاف اور احترام، انسانیت دنیا بھر میں اخلاقیات کے معیار ٹھہرے ہیں، ہم کج ادا ان سے تہی بھی ہیں اور دنیا کو یہی اسباق پڑھانے پر مصر بھی۔

کسی کو اچھا لگے یا برا، حقیقت یہی ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ کی حالت اس شخص سے مختلف نہیں جسے ہیروئن کے نشے کی لت پڑ جاتی ہے، اس عادی نشہ باز کو ایک پڑیا خریدنے کے لیے نہ تو غریب ماں کی پوٹلی پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے شرم آتی ہے، نہ وفا شعار بیوی کی انگوٹھی اور معصوم بیٹی کے کانوں کی بالیاں بیچنے میں جھجک محسوس ہوتی ہے اور نہ گھر کے برتن بیچنا وہ باعث عار سمجھتا ہے۔ وہ نہ تو بوڑھی ماں اور خدمت گزار بیوی کی منت سماجت کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ بھوک و پیاس سے ہلکان پھول سے بچوں کی آہ و زاری اسے موم کرتی ہے، اسے اپنا نشہ پورا کرنے سے غرض ہوتی ہے اور ایک لمحے کی سرمستی و سرشاری پر اپنا اپنے بچوں اور پورے خاندان کا مستقبل وار دیتا ہے۔

پاکستان کا ہر بچہ بڑا سر سے پاؤں تک قرضوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اس میں غریب اور دولتمند سب شامل ہیں، بیرونی قرضوں کی مالیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اربوں ڈالر کے قرضے صرف گزشتہ تین سال کے دوران لیے گئے۔

اربوں ڈالر کی خطیر رقم نہ تو بھاشا دیا میر اور کالا باغ ڈیم پر خرچ ہوئی، نہ کوئی موٹروے بنی، نہ کوئی نیا ایئرپورٹ، سرکاری شعبے میں نئی یونیورسٹی، نیا اسپتال، نیا انڈسٹریل زون، مفلس، بے سہارا، اور بیروزگار افراد کے لیے روٹی روزگار کا نہ ہی کوئی منصوبہ بنا۔ کچھ بھی نہیں؟ البتہ حکمرانوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس خوشی سے پھول کر کپا ہوگئے۔ خود کو عوامی حکومت کہلوانے والی ہر حکومت نے عوام دشمنی اور عوام کشی کی تمام اخلاقی حدود عبور کی۔ حکمرانوں نے شاہانہ اخراجات میں کمی کے بجائے اثاثوں میں مسلسل اضافہ کی۔

اس نشئی اشرافیہ کو خواب خرگوش سے جگانے کے لیے احتساب شروع ہو گیا ہے، کرپشن، بے ضابطگی، اقرباء نوازی، نااہلی، نالائقی، ضد، ہٹ دھرمی اور عاقبت نااندیشی کے ریکارڈ قائم کرنے والوں کا نشہ ٹوٹنے لگا ہے اور وہ جمہوریت کی دہائی دے رہے ہیں لیکن کیا یہ سب ان کا اپنا کیا دھرا اور ان کے برے کرموں کا پھل نہیں، کاش عادی نشہ باز اشرافیہ کچھ اس بارے میں بھی سوچے عوام کا تو آمریت اور جمہوریت دونوں نے خون ہی نچوڑا ہے۔

وفا کیسی؟ کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل! تیرا ہی سنگ ِآستاں کیوں ہو
Load Next Story