مقبولیت کا راز

حکومت کی حمایت میں لکھنے والے بھی یہ کہنے سے گریز نہ کرسکے کہ یہ سروے کا نتیجہ ’’ٹائپنگ ایرر‘‘ لگتا ہے۔


میاں ذیشان عارف October 22, 2015
اگر اِسی طرح ‘مقبولیت’ کا گراف بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب جنابِ صدر جن کو ممنون حسین بھی کہا جاتا ہے، مقبولیت میں اوباما کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ فوٹو: فائل

منگل کے روز ایک خبر نظر سے گذری تو بہت سے دوسرے پڑھنے والوں کی طرح میں بھی چونک گیا، خبر یہ تھی کہ ''پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے عوامی رائے عامہ کے سروے میں وزیراعظم نوازشریف 75 فیصد ریٹنگ کیساتھ سر فہرست، وزیراعلیٰ شہباز شریف 72 فیصد ریٹنگ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ ایک لمحے کے لیے اپنی لاعلمی کا احساس ہوا اور خود کو کوسنا شروع کردیا کہ صحافت کا طالب علم ہوتے ہوئے بھی میں نے اخبارات پڑھنے اور خبرنامہ دیکھنا چھوڑ دیا ہے، اگر میں ملکی حالات سے واقف ہوتا تو یہ بالکل بھی حیرانی والی خبر نہ ہوتی کیوںکہ پورے ملک میں 75 فیصد مقبولیت فارغ بیٹھنے سے تو آتی نہیں اور اس سے بھی بڑی خبر یہ کہ عہدہ بھلے وزیرِ اعظم سے چھوٹا مگر مقبولیت بظاہر زیادہ، ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہو کر دوسرا مقبول ترین لیڈر ہونا وہ بھی چاروں صوبوں میں، اس کے لیے کتنی محنت درکار ہوتی ہے مجھ جیسا ''عام شہری'' بھلا کیسے اندازہ لگا سکتا ہے۔

https://twitter.com/MehreenTweets/status/656516520332402688

وہ کہتے ہیں کہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہو، اور ظاہر سی بات ہے ایسی مقبولیت اور اتنی نیک نامی دن رات مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر قائد کے سنہری اصولوں پر عمل کرنے سے ہی آتی ہے، یعنی کہ کام کام اور بس کام، یہی سوچ کر میں یعنی کہ ایک عام شہری اپنے مقبول ترین وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے کئے گئے کاموں کی تفصیل ڈھونڈنے بیٹھ گیا کہ شاید گنیز بک میں بھیج سکوں اور دنیا میں ہمارے ملک کی نیک نامی میں اضافہ ہو کہ یہاں کے حکمرانوں کو عوام کی کس قدر فکر ہے۔ اسی جذبے کو لے کر میں اپنے مسلم لیگی دوستوں سے ملنے بھی گیا کہ انکی رائے بھی جان لی جائے کہ آخر اتنی مقبولیت کا راز کیا ہے؟ مگر ہر طرف سے مجھے مایوسی کا سامنا کیوں ہوا یہ درج ذیل ہے۔

سب سے پہلے ہم کسانوں سے شروع کر لیتے ہیں، ان سے الیکشن میں کیا کیا وعدے نہیں کئے گئے، اور جب مسند اقتدار نصیب ہوئی تو کیسے انکے ساتھ سوتیلی ممتا والا سلوک کیا گیا، یہ نہیں کہ کسان نے چنے بوئے تو گندم کاتی بلکہ اس نے جو بویا وہی کاٹا، مگر جو کاٹا اس کو لینے والا کوئی نہ ملا اور کتنے دن تک پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا اور احتجاج چلتا رہا۔ اس سال صرف آلو کی فصل نے جتنے خوشحال کھیت بنجر کر دیئے، وہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔

پھر رُخ کرتے ہیں تاجر برادری کی طرف جو ن لیگ کے ووٹ بینک میں ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ پچھلے 3 ماہ سے تاجر سڑکوں پر ہیں اور ہر دوسرے ہفتے احتجاج کی کال دے دی جاتی ہے کیوںکہ ان کے خیال میں ان پر ٹیکس کی شکل میں ظلم ہو رہا ہے۔

ذرا صحت کے شعبے کی جانب نظر کی جائے تو ملک میں آبادی بڑھ رہی ہے اور اسپتال کم ہو رہے ہیں، تنخواہوں میں جائز اضافہ نہ ہونے پر ڈاکٹر ہر دوسرے مہینے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ پنجاب جیسے صوبے کے ''پیرس'' نما لاہور میں نومولود کو چوہا کاٹ جاتا ہے اور میڈیا کی خبر پر ایکشن لیا جاتا ہے، کھربوں روپے کا کام کروانے کے باوجود پوری حکومتی مشینری، وسائل اور افرادی قوت ایک سیٹ جیتنے کے لیے لگادی جاتی ہے اور ایک پھر بھی ہار دی جاتی ہے۔

ان سب کے علاوہ اگر جائزہ لیا جائے تو ایسا ایک اسکینڈل سامنے آتا ہے جو حکومت کی بنیاد ہلانے کے لئے کافی ہے، جلد بازی میں لئے گئے فیصلوں کے نتیجے میں اربوں روپے نندی پور میں جھونک دئیے گئے اور جب معاملہ ذمہ داری کا آیا تو وزیر صاحبان ہی ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے لگے۔ موجودہ حکمرانوں کے بجلی فراہمی کے کئے گئے وعدے کی معیاد کب کی پوری ہوچکی ہے مگر جب کچھ کرنے کی باری آئی تو کروڑوں روپے اشتہارات پر لگا کر یہ بتایا گیا کہ دنیا کا سب سے بڑا سولر پاور پلانٹ 100 میگا واٹ پیدا کرنے لگا، اور جب حقیقت سامنے آئی تو بات 12 میگا واٹ سے آگے نہ بڑھ سکی- یہ سب کچھ دن کی روشنی اور ہر لمحے کی بریکنگ نیوز دینے والے میڈیا کے سامنے ہوا نہ کہ سات پردوں میں نظروں سے اوجھل۔۔۔۔۔۔۔

مغرب میں اور ہم میں بہت سے فرق ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں حقیقت کو حقیقت تصوّر کیا جاتا ہے جب کہ یہاں ہر شخص حقیقت کو اپنے انداز میں توڑنے، مروڑنے اور پھر بیان کرنے کا مرض لاحق ہے، وہاں اگر کسی سروے میں ایک پارٹی کم یا زیادہ مارجن سے جیت یا ہار رہی ہو تو، اسکا حقیقت میں نتیجہ بھی اسی حقیقت کے نزدیک ترین آتا ہے جبکہ یہاں بڑے سے بڑا ادارہ، وزیر، مشیر، تاجر اور جس کا بس چلے وہ حقیقت کے برعکس بات کرتے ہوئے، رائے دیتے ہوئے ایک لمحے کو بھی نہیں ہچکچاتے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کی حمایت میں لکھنے والے بھی یہ کہنے سے گریز نہ کرسکے کہ یہ سروے کا نتیجہ ''ٹائپنگ ایرر'' لگتا ہے۔

اس سروے پر اگر ہم ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک عمران خان کا سوال ہے تو ان کی شریف برادران پر مسلسل تنقید اور اپنی پارٹی پر لگنے والے الزامات کی وجہ سے مقبولیت میں کمی واقع ہوسکتی ہے، لیکن جہاں تک شہباز شریف صاحب کا تعلق ہے تو انہوں نے اس سال میں ایسا کیا تیر مارا ہے کہ ان کو دوسرے نمبر پر قرار دیا گیا ہے؟ خدشہ تو یہ ہے کہ اگر پلڈاٹ کے سروے میں اسی تیزی سے ''مقبولیت'' کا گراف بڑھتا رہا تو کہیں جنابِ صدر جن کو ممنون حسین بھی کہا جاتا ہے، مقبولیت میں اوباما کو پیچھے نہ چھوڑ دیں۔

[poll id="733"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں