تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں
ہمارے معاشرے میں لفظ غلط کا استعمال کچھ زیادہ ہی بڑھتا جا رہا ہے
ہمارے معاشرے میں لفظ غلط کا استعمال کچھ زیادہ ہی بڑھتا جا رہا ہے، بلکہ عالم یہ ہے کہ اب تو سب ہی کچھ غلط نظر آنے لگا ہے،یوں سمجھ لیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحیح کچھ بھی نہیں ہے، جوکچھ صحیح نظر آتا تھا وہ بھی غلط تھا۔کیا غلط کو غلط کہنے والا صحیح ہے یا کس حد تک صحیح ہے؟ ایسا سوال بالکل نہ کریں، بلکہ اپنی اسی سوچ کو اپنے تک محدود رکھیں۔
غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنا پہلے ایک فن تھا مگر اب اس فن میں ہر خاص و عام کو مہارت حاصل ہوچکی ہے، ہم نے آپ کو سوال نہ کرنے کا مشورہ اس لیے دیا ہے کہ صحیح جواب آپ کو کبھی بھی نہ مل سکے گا۔ کیوں کہ ایک دن ہم صحیح کو ڈھونڈنے نکلے تو پتا چلا کہ ایک کونے کھدرے میں منہ لپیٹے پڑا ہے۔ پوچھا یہ کیا حال ہے، کہنے لگا اب میری توکوئی قدر ہی نہیں اس لیے گوشہ نشین ہوگیا ہوں۔
گوشہ نشینی عارضی ہے یا مستقل ہمیں کیا ہمیں تو غلطیوں کی اسی طویل فہرست سے بھی کوئی دلچسپی نہیں جنھیں درست کرنے اور ازالہ کرنے میں ایک طویل مدت لگ جائے گی۔ ہائے اب تو شرم بیچاری نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے، ہمیں دیکھ کر منہ چھپالیتی ہے، ہمیں بھی کون سی پرواہ ہے اب تو لوگ شرم سے پہلے بے کا اضافہ کرکے آواز دینے لگے ہیں۔خیر لوگوں کا کیا ہے وہ تو ایک کی اٹھارہ لگاتے ہی رہتے ہیں ویسے اگر ایک نہ ہوتا تو اٹھارہ بھی نہ ہوتا۔
ہونے اور نہ ہونے کا مسئلہ بھی خوب ہے لیکن کبھی کبھی تو مسئلے کا حل ڈھونڈنا بھی مسئلہ بن جاتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ہم بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ اہم ترین مسئلہ 7 نمبر ناظم آباد کی سگنل فری سڑک ہے ایک جانب کلینک A.O اور دوسری جانب عباسی اسپتال رواں سڑک پر مسافر سڑک کیسے کراس کریں؟
اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کیا ہم کسی بڑے حادثے کا انتظار کررہے ہیں؟ حادثہ چھوٹا ہو یا بڑا دونوں ہی خطرناک ہوتے ہیں اور ہماری قوم بے شمار چھوٹے بڑے حادثوں سے گزرتی رہی ہے۔ جب ہی اماں کہتی ہیں کہ کر تو کر ورنہ خدا کے غضب سے ڈر۔ اگر ہم خدا کے غضب سے ڈرتے تو شاید اتنے حادثوں سے نہ گزرتے۔ ہر لمحے کی توجہ استفسار ہمیں بے شمارعذابوں سے قبل از وقت بچالیتی ہے۔
ہمیں اکثر یہ گمان ہوتا ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں، دعاؤں میں اثر نہیں رہا، اﷲ میاں ہماری سن نہیں رہے۔ توصاحب اپنے اعمال پر بھی تو ہم غورکریں کیا سے کیا بن گئے ہیں۔ وہ قوم جو قوموں پر حکومت کرتی تھی، دوسری قوموں کو تحفظ فراہم کی گئی تھی اپنی ناعاقب اندیشیوں کے باعث کس صورتحال سے دوچار ہے۔
آج ہمارے پاس خود اپنے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔ قوم کا ہر خدمت گارکرسی کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور افراد ایمانداری و بے ایمانی، انصاف و بے انصافی کی جنگ میں پس رہے ہیں۔ عوام بھی کچھ کم نہیں موقع ملے تو خواص کے ساتھ مل کر وہ کچھ کر جاتے ہیں کہ جس کی توقع نہیں کی جاسکتی عجب دور ہے۔
لوگ فرش سے اٹھ کر تخت تک پہنچ رہے ہیں اور تخت سے گر کر فرش تک لیکن ہمیں کیا ہمیں تو ٹیکس دینا ہے تمام تر محرومیوں کے ساتھ کس کس بات کا شکوہ کریں پانی غائب بجلی غائب۔ بجلی بے چاری تو آنکھ مچولی کھیلتی ہے لیکن پانی توبہ ایسا طوطا چشم کہ جو غائب ہوا توآنے کا نام نہیں لیتا۔ سوچنا ہوگا کہ میں آگیا تو ٹینکر مافیا کا کیا ہوگا۔
یہ تو وہ دور ہے جہاں سب ہی پیدا گیر ہیں کوئی کم اورکوئی زیادہ ایسا لگتا ہے کہ وبائی مرض ہے جو تیزی سے پھیل چکا ہے۔ مرض پلان ہو تو علاج میں بھی وقت لگتا ہے اور اگر آپ کا معالج بھی اسی مرض میں مبتلا ہوچکا ہو تو ؟ بس اب اسی تو اور سوالیہ نشان کے بعد کوئی سوال نہیں۔ ہمارے معاشرے میں نا خواندگی کی شرح فی صد ضرور زیادہ ہے مگر جہالت کا عقل سے کوئی تعلق نہیں۔ قوم عقل مند ضرور ہے سب سمجھتی ہے، مصلحتاً یا ضرورتاً خاموش رہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سمجھی نہیں جب یہ قوم یا افراد بولنے پر آتے ہیں تو سب حدیں پارکرجاتے ہیں۔
یوں سمجھ لیں کہ بے لگام کو لگام دینی مشکل ہوجاتی ہے۔ اماں کہتی ہیں کہ ہماری گفتگو اور نشست و برخاست سے ہمارے خاندانی پس منظرکا پتا چلتا ہے۔ ہماری بات چیت ہمارے مہذب و غیر مہذب ہونے کا ثبوت دیتی ہے اگر اسی بات پر یقین کرلیا جائے تو مسئلہ ہوجائے گا۔ اس وقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ رہبر، رہزن اور رہزن ، رہبر بنتے جارہے ہیں۔
عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کے دربار میں ایک مرتبہ افریقہ کا ایک قاضی جو اس کا ہم سبق بھی رہ چکا تھا حاضر ہوا خلیفہ نے دریافت کیا تمہیں میری حکومت اور اموی حکومت میں کیا فرق نظر آیا۔
قاضی نے جواب دیا، امیر المومنین میں نے بداعمالیوں اور ظلم وجور کی کثرت دیکھی ہے پہلے تو میرا گمان یہ تھاکہ اسی کا سبب آپ کا ان علاقوں سے دور ہونا ہے لیکن دارالخلافہ کے جوں جوں نزدیک آتا گیا معاملہ اسی قدر نازک ہوتا گیا۔ خلیفہ نے شرمندہ ہوکرکہا پھر میں کیا کرسکتا ہوں۔
قاضی نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم نہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا تھا کہ لوگ بادشاہ کے تابع ہوتے ہیں اگر بادشاہ نیک ہوگا تو رعایا نیک اوراگر بادشاہ بد ہوگا تو رعایا بھی بد ہوگی۔ یہ سن کر منصور کو ندامت ہوئی اور خاموش ہوگیا۔
(تاریخ کے سنہری واقعات صفحہ 437)
میں نے واقعے کو پڑھا اور سوچا کہ ہے کوئی ایسا ہم سبق قاضی۔ جس میں اتنی جرأت اظہار ہو۔ ہے کوئی ایسا منصور جسے احساس ندامت ہو؟
غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنا پہلے ایک فن تھا مگر اب اس فن میں ہر خاص و عام کو مہارت حاصل ہوچکی ہے، ہم نے آپ کو سوال نہ کرنے کا مشورہ اس لیے دیا ہے کہ صحیح جواب آپ کو کبھی بھی نہ مل سکے گا۔ کیوں کہ ایک دن ہم صحیح کو ڈھونڈنے نکلے تو پتا چلا کہ ایک کونے کھدرے میں منہ لپیٹے پڑا ہے۔ پوچھا یہ کیا حال ہے، کہنے لگا اب میری توکوئی قدر ہی نہیں اس لیے گوشہ نشین ہوگیا ہوں۔
گوشہ نشینی عارضی ہے یا مستقل ہمیں کیا ہمیں تو غلطیوں کی اسی طویل فہرست سے بھی کوئی دلچسپی نہیں جنھیں درست کرنے اور ازالہ کرنے میں ایک طویل مدت لگ جائے گی۔ ہائے اب تو شرم بیچاری نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے، ہمیں دیکھ کر منہ چھپالیتی ہے، ہمیں بھی کون سی پرواہ ہے اب تو لوگ شرم سے پہلے بے کا اضافہ کرکے آواز دینے لگے ہیں۔خیر لوگوں کا کیا ہے وہ تو ایک کی اٹھارہ لگاتے ہی رہتے ہیں ویسے اگر ایک نہ ہوتا تو اٹھارہ بھی نہ ہوتا۔
ہونے اور نہ ہونے کا مسئلہ بھی خوب ہے لیکن کبھی کبھی تو مسئلے کا حل ڈھونڈنا بھی مسئلہ بن جاتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ہم بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ اہم ترین مسئلہ 7 نمبر ناظم آباد کی سگنل فری سڑک ہے ایک جانب کلینک A.O اور دوسری جانب عباسی اسپتال رواں سڑک پر مسافر سڑک کیسے کراس کریں؟
اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کیا ہم کسی بڑے حادثے کا انتظار کررہے ہیں؟ حادثہ چھوٹا ہو یا بڑا دونوں ہی خطرناک ہوتے ہیں اور ہماری قوم بے شمار چھوٹے بڑے حادثوں سے گزرتی رہی ہے۔ جب ہی اماں کہتی ہیں کہ کر تو کر ورنہ خدا کے غضب سے ڈر۔ اگر ہم خدا کے غضب سے ڈرتے تو شاید اتنے حادثوں سے نہ گزرتے۔ ہر لمحے کی توجہ استفسار ہمیں بے شمارعذابوں سے قبل از وقت بچالیتی ہے۔
ہمیں اکثر یہ گمان ہوتا ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں، دعاؤں میں اثر نہیں رہا، اﷲ میاں ہماری سن نہیں رہے۔ توصاحب اپنے اعمال پر بھی تو ہم غورکریں کیا سے کیا بن گئے ہیں۔ وہ قوم جو قوموں پر حکومت کرتی تھی، دوسری قوموں کو تحفظ فراہم کی گئی تھی اپنی ناعاقب اندیشیوں کے باعث کس صورتحال سے دوچار ہے۔
آج ہمارے پاس خود اپنے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔ قوم کا ہر خدمت گارکرسی کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور افراد ایمانداری و بے ایمانی، انصاف و بے انصافی کی جنگ میں پس رہے ہیں۔ عوام بھی کچھ کم نہیں موقع ملے تو خواص کے ساتھ مل کر وہ کچھ کر جاتے ہیں کہ جس کی توقع نہیں کی جاسکتی عجب دور ہے۔
لوگ فرش سے اٹھ کر تخت تک پہنچ رہے ہیں اور تخت سے گر کر فرش تک لیکن ہمیں کیا ہمیں تو ٹیکس دینا ہے تمام تر محرومیوں کے ساتھ کس کس بات کا شکوہ کریں پانی غائب بجلی غائب۔ بجلی بے چاری تو آنکھ مچولی کھیلتی ہے لیکن پانی توبہ ایسا طوطا چشم کہ جو غائب ہوا توآنے کا نام نہیں لیتا۔ سوچنا ہوگا کہ میں آگیا تو ٹینکر مافیا کا کیا ہوگا۔
یہ تو وہ دور ہے جہاں سب ہی پیدا گیر ہیں کوئی کم اورکوئی زیادہ ایسا لگتا ہے کہ وبائی مرض ہے جو تیزی سے پھیل چکا ہے۔ مرض پلان ہو تو علاج میں بھی وقت لگتا ہے اور اگر آپ کا معالج بھی اسی مرض میں مبتلا ہوچکا ہو تو ؟ بس اب اسی تو اور سوالیہ نشان کے بعد کوئی سوال نہیں۔ ہمارے معاشرے میں نا خواندگی کی شرح فی صد ضرور زیادہ ہے مگر جہالت کا عقل سے کوئی تعلق نہیں۔ قوم عقل مند ضرور ہے سب سمجھتی ہے، مصلحتاً یا ضرورتاً خاموش رہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سمجھی نہیں جب یہ قوم یا افراد بولنے پر آتے ہیں تو سب حدیں پارکرجاتے ہیں۔
یوں سمجھ لیں کہ بے لگام کو لگام دینی مشکل ہوجاتی ہے۔ اماں کہتی ہیں کہ ہماری گفتگو اور نشست و برخاست سے ہمارے خاندانی پس منظرکا پتا چلتا ہے۔ ہماری بات چیت ہمارے مہذب و غیر مہذب ہونے کا ثبوت دیتی ہے اگر اسی بات پر یقین کرلیا جائے تو مسئلہ ہوجائے گا۔ اس وقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ رہبر، رہزن اور رہزن ، رہبر بنتے جارہے ہیں۔
عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کے دربار میں ایک مرتبہ افریقہ کا ایک قاضی جو اس کا ہم سبق بھی رہ چکا تھا حاضر ہوا خلیفہ نے دریافت کیا تمہیں میری حکومت اور اموی حکومت میں کیا فرق نظر آیا۔
قاضی نے جواب دیا، امیر المومنین میں نے بداعمالیوں اور ظلم وجور کی کثرت دیکھی ہے پہلے تو میرا گمان یہ تھاکہ اسی کا سبب آپ کا ان علاقوں سے دور ہونا ہے لیکن دارالخلافہ کے جوں جوں نزدیک آتا گیا معاملہ اسی قدر نازک ہوتا گیا۔ خلیفہ نے شرمندہ ہوکرکہا پھر میں کیا کرسکتا ہوں۔
قاضی نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم نہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا تھا کہ لوگ بادشاہ کے تابع ہوتے ہیں اگر بادشاہ نیک ہوگا تو رعایا نیک اوراگر بادشاہ بد ہوگا تو رعایا بھی بد ہوگی۔ یہ سن کر منصور کو ندامت ہوئی اور خاموش ہوگیا۔
(تاریخ کے سنہری واقعات صفحہ 437)
میں نے واقعے کو پڑھا اور سوچا کہ ہے کوئی ایسا ہم سبق قاضی۔ جس میں اتنی جرأت اظہار ہو۔ ہے کوئی ایسا منصور جسے احساس ندامت ہو؟