معمر قذافی ایک ’’جنگجو شہید ‘‘
شدید زخمی معمر قذافی کی تصاویر اور ویڈیوز دنیا بھر کے نیوز چینلز پر دکھائی جانے لگیں۔
یہ بیس اکتوبر 2011 کا دن تھا جب نیٹو کے طیارے لیبیا کے صدر معمر قذافی کے سرعت سے نکلنے والے کانوائے پر حملہ آور ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی مسلح شورشی لشکر نے بھی کانوائے پر دھاوا بول دیا۔ صدر قذافی اور اس کے ساتھی مقابلہ کرتے رہے مگر تا بہ کے۔ ان کے بیش تر ساتھی مارے گئے اور خود انھیں زخمی حالت میں گرفتارکرلیا گیا۔
یہ عالمی میڈیا پر اس دن کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز تھی۔ شدید زخمی معمر قذافی کی تصاویر اور ویڈیوز دنیا بھر کے نیوز چینلز پر دکھائی جانے لگیں۔ مسلح غنڈے اسے گھسیٹ رہے تھے، اس کی توہین کر رہے تھے مگر وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز تھا۔ لیبیا کے صحرائی شیرکہلانے والے گوریلا لیڈر عمر مختار (جنھیں 16ستمبر1931کو اطالوی فسطائیوں نے لیبیا پر قبضے کے دوران پھانسی دی تھی) اور چی گویرا جیسے انقلابی سے زندگی بھر متاثر رہنے ولا ضعیف العمر قذافی اس حقیقت پر وارد تھا کہ انقلاب اور ردِ انقلاب کی جنگوں میں موت کا انداز بسا اوقات دردناک ہی ہوا کرتا ہے، سو اس نے اپنے آخری لمحات میں بہادر انسانوں کی طرح موت کا سامنا کیا۔لیبیا میں جب صدر قذافی کے خلاف سامراج نواز شرپسندوں کی مسلح شورش زوروں پر تھی تو اس نے کہا تھا کہ ''میں کہیں بھی فرار نہیں ہوں گا۔ میری موت اپنی ہی سرزمین پر ہوگی اور میں اپنے وطن کی مٹی میں ہی دفن ہوں گا۔''
وہ اپنے اس قول پر قائم رہا۔ اس کے وحشیانہ اور شرم ناک قتل کے بعد کہا گیا کہ 'وہ آخری لمحات میں قاتلوں سے گولی نہ چلانے کی التجا کررہا تھا'۔ مگر اس کے قاتل ایسی کوئی تصویر یا ویڈیو نہیں پیش کرسکے۔ یقیناً قذافی کے طرزِ عمل نے انھیں مایوس کیا۔ ورنہ التجا کرتے قذافی کی تصویر یا ویڈیو سے زیادہ قیمتی شے ان کے لیے کیا ہوسکتی تھی۔ اس عمل پر کیا تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ ''امن، انسانی حقوق اور جمہوریت'' کے مغربی علمبرداروں نے لہولہان قذافی کی تصاویر اور ویڈیوز کی خوب تشہیر کی۔ اس کا مقصد اسے ''نشانِ عبرت'' بنانا تھا مگر نظریات بھلا یوں مٹائے جاسکتے ہیں؟
بدوی طرز کے خیموں میں رہنے اور اونٹنی کے دودھ اور کھجور کے دلدادہ معمر قذافی کو صحرائے اعظم کے کسی نامعلوم گوشے میں دفن کردیا گیا۔ یعنی زندہ قذافی سے خائف رہنے والے اس کی قبر تک سے خوفزدہ تھے۔ اس کی شہرۂ آفاق کتاب ''سبز کتاب'' کو چوراہوں پر نذرِ آتش کیا گیا لیکن افکار کو اس طرح ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے زیادہ توانا افکار کی ضرورت ہوتی ہے، زیادہ مضبوط اور سماج پر انمٹ نقوش چھوڑ دینے والے نظریات کی ضرورت ہوتی ہے، جو ظاہر ہے قذافی کو زینتِ دار بنانے والوں کے پاس نہیں ہیں۔
قذافی کے قتل پر خوب شادیانے بجائے گئے۔ بارک اوباما نے اپنی رعونت کا اظہار ان لفظوں میں کیا ''ہم نے بالکل وہی کیا جیسا کہ ہم نے کہا تھا۔'' جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اسے ''پرامن اور سیاسی آغاز کا صاف راستہ'' قرار دیا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے لفظوں میں یہ ''جمہوری مستقبل کے لیے ایک موقع'' تھا، جب کہ فرانسیسی صدر نکولاسارکوزی کے لیے یہ ''ایک بڑی پیش قدمی'' تھی۔ نیٹو کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن لیبیائی عوام سے یوں مخاطب ہوتا ہے ''عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرلیں۔'' بانکی مون یوں گویا ہوتے ہیں ''یہ لیبیا میں تاریخی منتقلی کی جانب قدم ہے۔''
قذافی کے قتل پر سب ایک ہی راگ الاپ رہے تھے، ان آوازوں میں نام نہاد بائیں بازو کی ''فورتھ انٹرنیشنل'' اور اس جیسی بہت سی تنظیموں کی آوازیں بھی شامل تھیں جن کا ماضی نازیوں اور جاپانیوں سے لے کر امریکی ویورپی سامراج تک کے لیے انقلاب دشمن کردار ادا کرنے سے عبارت رہا ہے۔ پا کستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے معمرقذافی کی مثالی دوستی اور تعلق تھا، مگر اس وقت اس کی قیادت کے لب پر بھی تالے تھے، مبادا امریکا بہادر اور ''عرب دوست'' ناراض نہ ہوجائیں۔
ہاں اگر اس وحشیانہ قتل کی مذمت میں توانا آوازیں کہیں سے بلند ہوئیں تو یہ جنوبی امریکا تھا۔ کیوبا کے انقلابی رہنما کامریڈ فیدل کاسترو نے کہا کہ ''نیٹو کا لیبیا میں کردار نسل کشی کے مترادف ہے۔ قذافی کو زندہ گرفتار کرکے قتل کیا گیا اور انسانیت کی تاریخ میں یہ ایک وحشی ملٹری الائنس ہے۔'' وینزویلا کے انقلابی صدر ہوگوشاویز نے قذافی کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں ''جنگجو شہید'' قرار دیا۔ ان کے الفاظ تھے ''جمہوریت کے عالمی ٹھیکے داروں کے ہاتھوں قذافی کا قتل ٹارگٹ کلنگ اور انسانیت کی توہین ہے۔''
معمر قذافی، شاہ ادریس اور اس کی باقیات کو تاریخ کے اسٹیج سے رخصت کرنے کے بعد چالیس سال تک لیبیا کے حکمران رہے۔ انھوں نے لیبیا سے سامراجی اڈوں کا خاتمہ کیا اور وسائل کو لیبیائی عوام کی فلاح وبہبود پر صرف کیا۔ اس کے مخالفین کا کہنا تھا اور ہے کہ وہ ایک بدترین آمر تھا جو کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔
لیکن اصل بات یہ تھی کہ وہ امریکا اور مغرب کو، ان کے سامراجی مالیاتی اداروں کو جواب دہ نہیں تھا۔ قذافی کی جمہوریت کا اپنا معیار تھا (جس سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے) جس کی تفصیل اس کی ''سبز کتاب'' میں موجود ہیں اور لیبیا میں موجود ''پیپلز کمیٹیاں'' اس کا مظہر تھیں۔ اسی طرح اس کی اشتراکیت کا بھی اپنا معیار تھا۔ ہر چند کہ وہ سائنٹیفک سوشلزم کا علمبردار نہیں تھا اور اس کے افکار مابعد الطبعیاتی رنگ لیے ہوئے تھے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس کے دور میں لیبیائی عوام ان تمام انسانیت سوز بیماریوں سے محفوظ رہے جو سرمایہ دارانہ تشکیلوں کا خاصہ ہیں۔
قذافی کو شہید ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اس عرصے میں لیبیائی عوام نے کیا کھویا اور کیا پایا، اس کا موازنہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ قذافی کے لیبیا میں گھر ہر شہری کا بنیادی حق تھا اور بجلی، تعلیم اور علاج کی سہولیات مفت تھیں۔ لیبیا میں علاج اور تعلیم کی صحیح سہولیات نہ ملنے کی صورت میں حکومت بنا کسی خرچے کے شہریوں کو بیرون ملک بھجواتی تھی۔ بنا سود کے قرض دیا جاتا تھا اور ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو نیا گھر بنانے کے لیے پچاس ہزار ڈالر مفت دیے جاتے تھے۔ ہر شہری کو اپنی گاڑی خریدنے کے لیے حکومت پچاس فیصد سبسڈی فراہم کرتی تھی۔
پٹرول کی قیمت 0.14 امریکی ڈالر فی لیٹر تھی۔ کسانوں کو زمین سے لے کر زرعی آلات، بیج اور کھاد وغیرہ تک مفت فراہم کی جاتی تھی۔ ہر بچے کی پیدائش پر ماں کو 5000 امریکی ڈالر مفت دیے جاتے تھے۔ گریجویشن کرنے کے بعد بھی اگر کسی لیبیائی باشندے کو ملازمت نہ ملتی تو اس کی تعلیمی استعداد کے مطابق برسرِ روزگار ہونے تک مفت تنخواہ دی جاتی تھی۔ شاہ ادریس کے وقت میں 20 سے 25 فیصد لیبیائی باشندے پڑھے لکھے تھے، قذافی نے اس شرح کو 85 فیصد تک پہنچادیا۔ ملک کے تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ ہر شہری کے اکاؤنٹ میں داخل کیا جاتا تھا۔ قذافی نے اپنے صحرائی ملک میں پانی کی مسلسل فراہمی کے لیے دنیا میں سب سے بڑا آبپاشی کا منصوبہ تعمیر کروایا جو عظیم مصنوعی دریا کا منصوبہ کہلاتا ہے۔
قذافی کے لیبیا پر کوئی بیرونی قرضہ نہیں تھا اور لیبیا کے اثاثوں کی مالیت 150 ارب ڈالر سے زائد تھی جن پر مغربی ممالک نے قبضہ کرلیا۔ آج لیبیا کو ایک ناکام ریاست کہا جاتا ہے تو اس کا ذمے دار کون ہے؟ وہی جو عراق اور شام کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ جن کے جنگی جنون اور توسیع پسندی سے ساری دنیا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ آج لیبیا میں بھوک، بیماری، افلاس اور قحبہ خانوں کی بھرمار ہے، لاکھوں باشندے دربدری پر مجبور ہیں۔
آج لیبیا ایک منقسم ملک ہے، طرابلس میں وزیراعظم عمر الحسی کا ڈیرا ہے تو طبروق میں وزیراعظم عبداللہ الثانی مورچہ زن ہے۔ ان دو متحارب اور مقابل حکومتوں کے درمیان لیبیائی عوام پس رہے ہیں جب کہ ہر طرف ملیشیاز کا قبضہ ہے جنھوں نے لیبیا کے ساٹھ لاکھ شہریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اغوا برائے تاوان، لوٹ مار اور عزتوں کے نیلام گھر سجانا اس جمہوریت کی سوغات ہیں جو مغربی بمبار طیاروں کے جلو میں وہاں قائم کی گئی ہے۔ ان سب پر مستزاد شوریٰ کونسل، انصار الشریعہ، فجر لیبیا، اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ گروپ اور داعش جیسی انتہاپسند تنظیمیں اور ان کی مسلط کردہ خانہ جنگی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی آج کل اس الم نصیب ملک کے خاموش تماشائی ہیں۔
قذافی نہیں رہے اور ہنستا بستا لیبیا کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے، لیکن ایک سوال اپنی تمامتر تلخیوں کے ساتھ اس شعر کی شکل میں موجود ہے۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مرگیا آخر تو ویرانے پہ کیا گزری