معمولی قصبہ جہاں طاقتور مملکت کی بنیاد پڑی

سعودی حکمرانوں کے آبائی قصبے کی تاریخ و تہذیب اجاگر کرتی دلچسپ داستان جو اب تعمیرِنو کے دور سے گذر رہا ہے

سعودی حکمرانوں کے آبائی قصبے کی تاریخ و تہذیب اجاگر کرتی دلچسپ داستان جو اب تعمیرِنو کے دور سے گذر رہا ہے فوٹو : فائل

سعودی عرب کے دارالحکومت' ریاض سے جانبِ شمال مغرب سفر کر یں' تو بیس کلو میٹر بعد درعیہ نامی قصبہ آ جاتا ہے۔ یہ تاریخی اہمیت کا حامل مقام ہے کیونکہ اسی قصبے کے ایک قبیلے نے جزیرہ عرب نما میں جدید مملکت ' سعودی عرب کی بنیاد رکھی جس کا شمار عالم اسلام ہی نہیں دنیا کی مالدار و طاقتور مملکتوں میں ہوتا ہے۔ درعیہ آج کھنڈر بن چکا، مگر اس کی قدروقیمت کم نہیں ہوئی۔ اسی لیے سعودی حکومت زر ِکثیر خرچ کر کے درعیہ کے آثار قدیمہ محفوظ کر رہی ہے۔ قول ہے:''جس مملکت میں کھنڈر نہ ہوں، وہ یادوں سے محروم ہوتا ہے۔ اور جس دیس کے پاس یادیں نہ ہوں، وہ کوئی تاریخ نہیں رکھتا۔''

٭٭

ریاض اور درعیہ ،دونوں نجد کی مشہور وادی حنیفہ میں واقع ہیں۔ جب جزیرہ عرب نما میں اسلام کا نور پھیلا تو اس وادی میں بنو بکر بن وائل آباد تھے۔ یہ قبیلہ مسلمانوں کا مخالف تھا۔ اسی لیے مدینہ آنے جانے والے مسلم قافلوں پر حملے کرتا اور مال و اسباب لوٹ لیتا۔ نبی کریمﷺ نے بنو بکر کو سبق سکھانے کے لیے جولائی 627ء میںحضرت محمد ؓ بن مسلمہ انصاری کو روانہ فرمایا۔حضرت محمد ؓ بن مسلمہ کو طاقتور دشمن سے مقابلہ کرناپڑا۔ تاہم وہ اور ا ن کی تیس ساتھی ایمانی قوت سے سرشار تھے۔ اسی لیے بنو بکر کو شکست ہوئی اور اس کے سر دار کو ثمامہ ابن اتال کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعدازاں سردار سمیت پورا قبیلہ اسلام لے آیا۔



نجد کا بیشتر علاقہ سطح مرتفع پر واقع ہے۔ جگہ جگہ پہاڑی سلسلے پھیلے ہیں۔ زمانہ قدیم میں ان پہاڑوں پر بکثرت بارشیں ہوتی تھیں۔ اسی واسطے پہاڑوں کے درمیان دریا اور ندی نالے ظہور پذیر ہو گئے۔ جب عالمی آب و ہوائی تبدیلیوں نے جنم لیا' تو نجد میں کم بارشیں ہونے لگیں۔ چناں چہ بہت سے دریا سوکھ گئے۔ تاہم زیر زمین واقع پانی کے چشموں(آب اندوختوں) نے دریائی گزرگاہوں کو سوکھنے نہ دیا اور علاقے میں جابجا نخلستان پیدا ہو ئے۔ جلد ہی عرب بدو ان نخلستانوں میں رہنے لگے۔

زمانہ قدیم میں یہ علاقہ ''یمامہ'' کہلاتا تھا۔ ظہور اسلام کے وقت اس علاقے پر بنی کندہ کی حکومت تھی۔ تاہم آج کا نجد قدیم یمامہ سے زیادہ بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔وادی حنیفہ بھی دراصل ایک خشک دریا کی گزرگاہ ہے۔یہ120 کلومیٹر طویل ہے۔ اس وادی میں زمانہ قدیم سے دیہات بستے اور اجڑتے چلے آ رہے ہیں۔ وجہ یہ کہ کبھی موسم برسات میں بہت زیادہ بارشیں ہوتیں' تو دریائی راستے میں سیلاب آ جاتا۔ یہ سیلاب پھر کئی بستیوں کو تباہ و برباد کر ڈالتا۔ اسی لیے بدو دریائی گذر گاہ کے اطراف میں واقع بلند مقامات پر بستیاں بسانے لگے۔

یہ 1446ء کی بات ہے، وادی حنیفہ کے بڑے علاقے پر ابن درع نامی ایک عرب سردار حکومت کر رہا تھا۔ اسی سال ابن درع نے اپنے ایک رشتے دار دوست' مانع المریدی کو وادی میں آنے کی دعوت دی جو قبول کر لی گئی۔بیشتر مورخین لکھتے ہیں کہ ابن درع کے مانند مانع المریدی کا تعلق بھی بنو بکر کے ذیلی قبیلے' بنو حنیفہ سے تھا۔(اسی کے نام پر وادی کا نام حنیفہ پڑا)۔ مانع کے اجداد بہت پہلے قریب ہی واقع ساحلی مقام' قطیف مقیم ہو گئے تھے۔ اب وہ اپنے اہل خانہ اور خاندان کے ہمراہ آبائی علاقے واپس چلا آیا۔ اس کا قبیلہ ''المردہ'' کہلاتا تھا۔

ابن درع نے دو گاؤں(یا جاگیریں)... غصیبہ اور ملیبید مہمانوں کے حوالے کر دیئے۔ بعدازاں مانع المریدی نے ایک نئے گاؤں' طریف کی بنیاد رکھی۔ مانع نے اپنے محسن کے نام پر ان تینوں دیہات کے مجموعے کو ''الدرعیہ'' کا نام دیا۔

رفتہ رفتہ دور و نزدیک کے دیہات سے کئی بدو درعیہ آ کر آباد ہو گئے۔ آبادی کی کثرت کے باعث اس کی اہمیت بھی بڑھنے لگی ۔اٹھارہویں صدی تک درعیہ جزیرہ عرب نما کا اہم قصبہ بن گیا۔ اس پر مانع المریدی کی اولاد حکمرانی کر رہی تھی۔ اسی دوران ایک انقلاب انگیز واقعے نے جنم لیا۔

وادی حنیفہ ہی میں درعیہ سے تیس مل دور عیینہ نامی قصبہ واقع تھا۔ وہاں کے رہائشی ایک عالم دین' محمد بن عبدالوہاب نے بدعات کے خلاف مہم چلا رکھی تھی۔ اس مہم میں امیر عیینہ ' عثمان بن معمر ان کا ساتھی تھا۔ چناں چہ امیر نے اپنے زیر انتظام علاقے میں قبور پرستی پر پابندی لگا دی۔ بعض لوگ درختوں اور غاروں کو مقدس سمجھ کر ان کی عبادت کرنے لگے تھے، وہ درخت بھی کاٹ دیئے گئے۔

اس زمانے میں الحساوقطیف کا امیر' سلیمان بن محمد نجد میں سب سے طاقتور سردار تھا۔ وہ مزاروں پر آتا جاتا اور پیروں کو مانتا تھا۔ اسے ابن عبدالوہاب کی مہم پسند نہ آئی۔ اس نے عثمان بن معمر کو دھمکی دی کہ اگر ابن عبدالوہاب کو عیینہ سے نہ نکالا گیا ' تو وہ الحسا میں واقع اپنی جائیدادوں کا ٹیکس وصول نہیں کر سکتا۔ سلیمان بن محمد کے دباؤ کی وجہ سے امیر عیینہ نے ابن عبدالوہاب کو اپنے علاقے سے نکال دیا۔ یہ تقریباً 1743ء کی بات ہے۔



ابن عبدالوہاب پھر درعیہ چلے آئے جہاں مانع المریدی کی اولاد میں سے محمد ابن سعودنامی سردار حکومت کر رہے تھے۔ابن سعود نے نہ صرف مہمان کو پناہ دی بلکہ ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ اس سلسلے میں 1744ء میں ابن سعود اور شیخ ابن عبدالوہاب کے مابین ایک معاہدہ ہوا۔ طے پایا کہ بدعتوں کے خلاف جنگ میں مذہبی امور کی نگرانی تو ابن الوہاب اور ان کے پیروکار انجام دیں گے، جبکہ سیاسی اور جنگی امور ابن سعود دیکھیں گے۔ یہ معاہدہ ابھی تک برقرار چلا آ رہاہے۔

اسی معاہدے کی بنیاد پر 1744میں ابن سعود نے ''امارات درعیہ'' کی بنیاد رکھی۔ تاریخ میں یہ ''پہلی سعودی مملکت'' بھی کہلاتی ہے جو 1818ء تک برقرار رہی ۔ابن سعود نے بدعات کے خلاف جو جنگ شروع کی ،وہ ان کی وفات (1765ء) کے بعد جانشینوں نے جاری رکھی۔ اس لڑائی میں آہستہ آہستہ ہزار ہا بدو شامل ہو گئے جو شیخ ابن عبدالوہاب کی تعلیمات سے متاثر تھے۔ ان پیرو کاروں کا دعوی ہے،شیخ جزیرہ نما عرب میں بدعات سے پاک حقیقی اسلام کا بول بالا چاہتے تھے۔


ان کی منزل مقصود حکومت یا علاقوں پر قبضہ کرنا نہیں تھی۔ اسی لیے ان کی مہم کو بہت مقبولیت ملی۔جوں جوں مہم کا دائرہ کار وسیع ہوا، اس میں شامل ہونے والے بہت سے بدو درعیہ میں آباد ہوگئے۔ چناںچہ چند ہی عشروں میں وہ نجد کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ اس کا شمار عرب کے اہم شہروں میں ہونے لگا۔

اس زمانے میں عثمانی ترک جزیرہ نما عرب کے حاکم تھے۔ یہ ترک حاکم ماتریدی فقہ پر عمل کرتے تھے۔ اسی لیے سعودی ریاست ترکوں کو بھی حقیقی مسلمان نہ سمجھ کر ان سے نبردآزما ہو گئی۔ سترہویں صدی کے اوائل میں سعودی فوج نے مکہ اور مدینہ شریف پر قبضہ کرلیا۔

اب ترک عثمانی حکمرانوں کے کان کھڑے ہوئے۔انھوں نے مصر کے والی ،محمد علی پاشا کو حکم دیا کہ سعودی مملکت پہ حملہ کیا جائے۔چناںچہ1811ء میں محمد علی کے بیٹے،ابراہیم پاشا کی زیرقیادت مصری فوج نے نجد پر حملہ کردیا ۔یوں دونوں قوتوں کے مابین جنگ چھڑ گئی جو 1818ء تک جاری رہی۔ ستمبر 1818ء میں مصریوں نے درعیہ پر قبضہ کرلیا ۔سعودی قبیلے کے بیشتر افراد استنبول بھجوا دئیے گئے۔

اگلے سال شہر کی بیشتر عمارتیں بم باری کرکے اڑا دی گئیں۔ اس تباہی و بربادی کے بعد درعیہ ویران ہوگیا اور وہاں موجودتمام عمارتیں کھنڈر بن گئیں۔1824ء میں سعودی قبیلے کے ایک شہزادے،ترکی بن عبداللہ نے وادی حنیفہ میں موجود مصری فوج کو شکست دی اور یوں پھر علاقے پہ قبضہ کر لیا۔اس دوسری سعودی مملکت نے ریاض کو اپنا دارالحکومت بنایا،لہٰذا درعیہ پس منظر میں چلا گیا اور اپنی اہمیت کھو بیٹھا۔

نئے دور کا آغاز

1950ء کے بعد درعیہ کے کھنڈرات میں کچھ بدو آباد ہوگئے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھنے لگی۔ 1982ء میں سعودی حکومت نے درعیہ کا سارا علاقہ خرید لیا۔ یوں وہ سرکاری جائیداد بن گئی۔ اس قصبے کی تاریخ کا نیا باب 1990ء سے شروع ہوا۔اس زمانے میں موجودہ سعودی بادشاہ ،سلیمان بن عبدالعزیز گورنر مکہ تھے۔ ایک دن انہوں نے درعیہ کا دورہ کیا۔

اجداد کے آبائی علاقے میں پہنچ کر وہ پہلے خوشی سے سرشار ہوئے، پھر ماضی کی یادوں میں کھوگئے۔ انہوں نے پھر علاقے کی صفائی کا حکم دیا۔ برسوں سے توجہ نہ دینے کی وجہ سے وہاں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جمع ہوچکے تھے۔ یہ شاہ سلیمان ہی ہیں جنہیں احساس ہوا کہ اجداد کی اس آبائی بستی کو محفوظ بنانا ضروری ہے۔ اس بستی سے سعودی قبیلے کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت وابستہ تھی۔

شاہ سلیمان نے پہلے وادی حنیفہ کی صفائی کرائی اور وہاں باغات لگوائے۔ اسی دوران 2010ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے طریف کو ''عالمی ثقافتی ورثہ ( UNESCO World Heritage Site) قرار دے دیا۔2010ء ہی سے درعیہ میں واقع کھنڈرات کی تعمیر نو کا آغاز ہوا۔ پچاس کروڑ ڈالر مالیت والا یہ منصوبہ 2017ء میں مکمل ہوگا۔ یہ منصوبہ درعیہ کو منفرد اور پُرکشش سیاحتی مقام بنا دے گا۔

منصوبے کے تحت درعیہ میں واقع امام محمد بن سعود مسجد، قصر سلوی، قصر سعود بن سعد اور مہمان خانے کی از سر نو تزئین و آرائش کی جاچکی ۔ امام محمد بن سعود مسجد پہلے سعودی بادشاہ کے دور حکومت میں تعمیر ہوئی۔ اس میں شیخ محمد بن عبدالوہاب خطبے دیتے اور وعظ کرتے تھے۔

قصر سلوی امام محمد بن سعود اور دیگر اولیّں سعودی بادشاہوں کی رہائش گاہ ہے۔ یہ طریف میں تعمیر کی گئی ۔درعیہ میں واقع یہ سب سے بڑا محل چار منزلہ ہے۔ محل کے پانچ حصے ہیں جو مختلف ادوار میں تعمیر ہوئے۔

زمانہ قدیم میں درعیہ کے اردگرد ایک دیوار واقع تھی۔ اس کا کچھ حصّہ آج بھی محفوظ ہے۔ ماہرین تعمیرات بڑی محنت سے جدید ٹیکنالوجی بروئے کار لاتے ہوئے قصبے کے کھنڈرات کو نئی شکل دے رہے ہیں۔یاد رہے، قدیم درعیہ میں سبھی مکانات گارے اور مٹی سے بنائے گئے تھے۔ اب ان کی تعمیر میں المومینیم اور پتھر بھی استعمال ہورہے ہیں۔



دلچسپ بات یہ کہ عمارتوں کی تعمیر اس انداز میں ہورہی ہے کہ وہ دیکھنے میں مٹی کی بنی ہی نظر آئیں گی۔ مگر حقیقتاً انہیں پتھروں اور دھاتوں کے ذریعے پائیدار و مستحکم بنایا جائے گا۔درعیہ میں پانچ عجائب گھروں کی تعمیر بھی جاری ہے۔ ان میں عسکریات، دفاع، گھوڑوں، عرب معاشرتی و ثقافتی زندگی اور صنعت و تجارت سے متعلق آثار رکھے جائیں گے۔

غرض جزیرہ نما عرب کا حکمران سعودی خاندان درعیہ کی تزئین نو پر اربوں روپے خرچ کررہا ہے۔ مدعا یہی ہے کہ اپنی تاریخ، فتوحات اور جدوجہد کو نمایاں کرسکے۔ تاہم اسے بعض حلقوں کی طرف سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ سعودی خاندان پچھلے ڈھائی سو برس میں کئی مذہبی و تاریخی عمارتیں منہدم کراچکا کیونکہ وہ آبا پرستی کے زمرے میں آتی تھیں۔ مگر اب خاندان خود درعیہ میں اجداد کی عمارتیں بنوا کر آبا پرستی کررہا ہے۔

اس تنقید کے باوجود درعیہ کی تعمیرنو تہذیبی و ثقافتی اہمیت ضرور رکھتی ہے۔ یہی وہ عام سا قصبہ ہے جہاں بدعات کے خلاف عسکری مہم شروع ہوئی اور پھر سعودی خاندان کے افراد جزیرہ نما عرب میں چھاتے چلے گئے۔ سعودی حکمرانوں پر الزامات لگتے ہیں، تنقید ہوتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے، انھوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پہ مسکنِِ اسلام کو دنیا میں اہم مملکت بنا دیا۔
Load Next Story