مسئلہ جمہوریت کا
دولت کی اس فراوانی اور ریل پیل کے نتیجے میں غربت میں کمی آنا ایک منطقی بات تھی
دولت کی اس فراوانی اور ریل پیل کے نتیجے میں غربت میں کمی آنا ایک منطقی بات تھی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ غربت بڑھ رہی ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق جب دولت کی گردش میں اضافہ ہوتا ہے تو غربت میں لازمی طور پر کمی آنی چاہیے لیکن ایسا کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا سنجیدگی اور دیانتداری سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
ملک میں دولت کے جو انبار لگے ہوئے ہیں وہ جا کہاں رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمارے معاشی نظام میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جس معاشی نظام میں زندہ ہیں اسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے یہ نظام اپنے نام ہی سے سرمایہ داروں کا نظام لگتا ہے جس میں غریبوں کے لیے ترقی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
جو معاشی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ دولت کی سرکولیشن میں اضافے سے اور ترقیاتی کاموں میں تیزی سے غربت میں کمی ہوتی ہے وہ یہ سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ سرمایہ دارانہ ترقی میں روزگار کے تھوڑے سے مواقعوں کے علاوہ غریب کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں موٹر وے اور بجلی پیدا کرنے کے کئی پروجیکٹ چل رہے ہیں جن پر اربوں کا سرمایہ لگ رہا ہے لیکن ان منصوبوں میں بڑی مشکل سے غریب کو جو حصہ ملتا ہے وہ ہے روزگار یعنی بے روزگاروں کی فوج میں کسی حد تک کمی۔ اس روزگار میں مزدور کے ہاتھ لگی بندھی اجرت آتی ہے جو دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں کر پاتی۔
سرمایہ دارانہ معیشت کرپشن سے شروع ہوتی ہے اور کرپشن پر ختم ہوتی ہے۔ ملک کی نوے فیصد آبادی اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ وہ کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ صنعتی شعبے میں اربوں کا منافع ہوتا ہے لیکن یہاں بھی غریب مزدور کے حصے میں مقررہ ناکافی اجرت آتی ہے اور اربوں کا منافع صنعتکار حاصل کر لیتا ہے۔ یہی بلکہ اس سے بدتر حال زرعی شعبے کا ہے صنعتی شعبے میں مزدور کو نام نہاد ہی صحیح کچھ حقوق ملتے ہیں لیکن زرعی شعبے میں تو حقوق نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہوتی جاگیردار اور وڈیرے مالک کل ہوتے ہیں۔
دنیا بھر کے عوام خواہ ان کا تعلق کسی ملک سے ہو مسائل کے انبار میں دبے ہوئے ہیں جدید دنیا کے سیاسی مفکرین کا خیال ہے کہ جمہوریت ہی ایک ایسا نظام ہے جو عوام کو ان کے مسائل سے نجات دلا سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت ابھی تک عوام کے مسائل کا حل نہ بن سکی۔ ترقی یافتہ دنیا میں اگرچہ عوام کے مسائل میں کمی ہوئی ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں عوام کی معاشی بدحالی کا عالم یہ ہے کہ ان ملکوں میں رہنے والوں کا سارا وقت دو وقت کی روٹی کے حصول میں گزر جاتا ہے۔
عوام کی اس معاشی بدحالی اور مسائل کے انبار نے تعلیم یافتہ حلقوں میں یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ ''کیا جمہوریت عوام کے مسائل کا حل ہے؟'' زمینی حقائق یہ ہیں کہ پسماندہ ملکوں میں عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے حتیٰ کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی کوششوں کا مرکز بھی روٹی کا حصول بن گیا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے یہاں کی غربت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک کی آبادی کا 53 فیصد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔
یہ صورت حال صرف پاکستان کی نہیں ہے بلکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی 53 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جب کہ یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت تیزی کے ساتھ اقتصادی ترقی کر رہا ہے۔ یہ صورت حال یا اس سے ملتی جلتی صورتحال تمام پسماندہ ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے اس کی ایک کلاسیکی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ان ملکوں میں بوجوہ صنعتی ترقی کا فقدان رہا ہے اور ترقی کے لیے صنعتی ترقی ضروری ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک اربوں ڈالر کے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں ۔ عالمی مالیاتی ادارے اربوں ڈالر کی امداد اور قرض دے رہے ہیں۔ اقتصادی راہداری منصوبے میں صرف چین پون کھرب ڈالر دے رہا ہے اس کے علاوہ ترقی یافتہ مغربی ملک مختلف شعبوں میں ترقی کے لیے اربوں ڈالر دے رہے ہیں۔
اس قسم کی لوٹ مار اس نظام کا لازمی حصہ ہے اس کھلی لوٹ مار کی گندگی کو چھپانے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے اس نظام کے مکروہ چہرے پر جمہوریت کا خوبصورت نقاب ڈال دیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے نشان دہی کر دی ہے ترقی یافتہ ملکوں کی بھاری اکثریت بھی بنیادی ضرورتوں کی جستجو ہی میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیتی ہے۔ لوٹ مار میں اس کا حصہ نہیں ہوتا، لیکن ان ملکوں میں چونکہ انتخابی نظام نسبتاً آسان ہے۔
اس لیے ان ملکوں میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ پہنچ تو جاتے ہیں لیکن کانِ نمک میں جانے والے بہرحال عموماً نمک ہو جاتے ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں زمینی اور صنعتی اشرافیہ اعلیٰ سطح کی بیورو کریسی سے ملک ایسی بے لگام لوٹ مار میں جٹی ہوئی ہے کہ ملک کی دولت کے 80 فیصد حصے پر اس نے قبضہ کر لیا ہے یہ کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ ایک شرمناک حقیقت ہے۔ اس لوٹ مار میں شامل ہونے کے لیے اقتدار میں آنا اور اقتدار کے قریب رہنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ''اپنے مسائل'' حل کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ کیا اس میں موروثی سیاست کا دخل ہے؟
حالیہ احتسابی مہم میں جن لوگوں پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں محض الزامات ہی نہیں بلکہ عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ جو ملک کے اندر اور ملک کے باہر اربوں ڈالرز کے مالک بنے بیٹھے ہیں؟ کیا یہ مزدور ہیں، کسان ہیں، چھوٹے موٹے تاجر ہیں، سرکاری ملازمین ہیں؟ ان سوالوں کے جواب میڈیا میں بھرے پڑے ہیں، مسئلہ کسی نظام کی اللہ واسطے مخالفت کا نہیں بلکہ دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیوں کا ہے تا کہ سسٹم کی خرابیاں منظر عام پر آ سکیں۔ جمہوریت سیاسی ارتقا کی ایک اچھی شکل ہے لیکن جمہوریت کے متعارفین نے جمہوریت کی جو تعریف کی ہے کہ ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' کیا ہماری نام نہاد جمہوریت اس تعریف پر پوری اترتی ہے؟