بیگم نصرت بھٹو کو جدا ہوئے چار برس بیت گئے
بیگم نصرت بھٹو صاحبہ 23مارچ1928ء کو پیدا ہوئیں اور 23اکتوبر2011ء کو وفات پا گئیں
WASHINGTON:
بیگم نصرت بھٹو عزم و استقلال کا پیکر اور غیر جمہوری قوتوں کے خلاف مزاحمت کی علامت تھیں۔ جنرل ضیاء کے بدترین مظالم کا انھوں نے جس جرأت و بہادری سے مقابلہ کیا وہ ایک شاندار مثال ہے۔ انھوں نے مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن سر نہیں جھکایا۔ بیگم صاحبہ نے اپنے کارکنوں کو جنرل ضیاء کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف یہ پیغام دیا تھا کہ ہمارے سر کٹ سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے۔ ہم پاکستان کے لیے نسل در نسل لڑیں گے۔ اس اعلان نے کارکنوں میں بہت حوصلہ اور جوش پیدا کر دیا اور انھوں نے جنرل ضیاء کے ظلم و تشدد کا آہنی عزم کے ساتھ مقابلہ کیا۔
بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو بطور چیئرمین پی پی پی مارشل لاء کے خلاف سینہ سپر ہو گئیں۔ انھوں نے جرأت و بہادری کے ساتھ عوام کے جمہوری حقوق کی آواز بلند کی، انھیں جدوجہد سے روکنے کے لیے جیل اور گھر میں قید کر دیا گیا مگر اس بہادر خاتون نے مضبوط اعصاب کے ساتھ تمام مشکلات و مصائب برداشت کیے، اپنی قائد کی پیروی میں پارٹی کارکنوں نے جمہوری جدوجہد میں بہادری کے نئے باب رقم کیے اور اپنے کردار و عمل سے سیاسی عبادت کا درجہ دے کر پاکستان پیپلزپارٹی کا پرچم سربلند رکھا۔ انھیں یہ تقویت بیگم صاحبہ کی ولولہ انگیز قیادت سے ملی۔ قذافی اسٹیڈیم میں بیگم صاحبہ پر تشدد کیا گیا اور زخمی بیگم صاحبہ کی یہ تصویر تمام دنیا میں شایع ہوئی جس سے جنرل ضیاء کی بربریت آشکار ہوئی اور جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا سیاہ چہرہ بے نقاب ہوا۔
بیگم نصرت بھٹو پر دوسرے درجے کا ذہنی تشدد بھی کیا گیا۔ ان کی جواں سال بیٹی بے نظیر کو قید اور نظربند کرکے بیگم صاحبہ سے علیحدہ رکھا گیا۔ سکھر جیل میں بے نظیر بھٹو پر جو بہیمانہ تشدد کیا گیا اور جس گرمی میں انھیں رکھا گیا وہ ان کا حوصلہ نہ توڑ سکا، انھوں نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور نئے عزم کے ساتھ جنرل ضیاء کے جبر کو چیلنج کرکے اس کی نیندیں حرام کر دیں۔
قائد عوام کے عدالتی قتل کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے سیاسی اور جمہوری جدوجہد تیز کر دی۔ پاکستانی عوام ان کے ساتھ تھے۔ انجام کار جنرل ضیاء نے اپنی بزدلی کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے 16اکتوبر1979ء کو انتخابات منسوخ کر دیے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار مساوات کو بند کر دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا گیا۔
فوجی ڈکٹیٹر کی اس بزدلانہ کارروائی سے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن انھوں نے حوصلہ مندی سے جبر اور ظلم برداشت کیا۔ انھوں نے کوڑے کھانے کی مثالیں قائم کیں۔ اور جئے بھٹو کے نعروں سے سیاسی فضا گونجنے لگی۔ صحافی بھی ڈکٹیٹر کے عتاب کا نشانہ بنے انھوں نے کوڑے کھائے اور جیل کاٹی۔
یہ بدترین تاریک دور تھا۔ بیگم صاحبہ نے اپنے دونوں بیٹوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی جدائی کا غم برداشت کیا۔ انھوں نے جنرل ضیاء کی امیدوں کی کمر توڑ دی۔ ان کا جذبہ حریت اور خودی تابناک رہا۔ بیگم صاحبہ طویل قید کے دوران پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوئیں۔ جنرل ضیاء کی یہ کوشش تھی کہ وہ اس موذی مرض سے جانبر نہ ہو سکیں لیکن عوامی اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے انھیں بغرض علاج بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیدی۔
بیگم صاحبہ 22نومبر 1982ء کو جرمنی کے شہر میونخ پہنچیں۔ ان کی صحت بے حد تشویشناک تھی۔ ان کی ہمشیرہ مسز بہجت حریری تیمارداری کے لیے ان کے ساتھ تھیں۔ بیگم صاحبہ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھیں۔بیگم نصرت بھٹو علیل تھیں لیکن یورپی ملکوں سے آئے ہوئے پارٹی ورکروں کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا،''ملک میں جمہوریت اور مارشل لا کے خاتمے، انسانی حقوق اور آئین کی بحالی کے لیے آگے بڑھیں اور مارشل لاء کی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر سراپا احتجاج بن جائیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور دیگر جمہوریت پسند پاکستانیوں کا یہ فرض ہے کہ ملک میں مارشل لاء کے بظاہر مضبوط لیکن اندر سے کھوکھلے ستونوں کو آخری ٹھوکر لگا کر زمین بوس کر دیں۔''
بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے بارے میں فخر سے کہاکہ'' وہ بڑی ذہین ،بہادر اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی لڑکی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ بھٹو شہید نے اپنی بیٹی کو بطور خاص سیاسی تربیت دی ہے۔ جب شہید بھٹو جیل میں تھے تو ہفتے میں صرف ایک بار ایک گھنٹہ کی ملاقات کی اجازت تھی۔وہ اس ایک گھنٹے میں سیاسی لیکچر دیتے تھے، شہید بھٹو کے آخری ایام میں یہ سیاسی تربیت ہماری بیٹی کے لیے بے حد کارآمد ثابت ہوئی۔ بے نظیر ہر آزمائش میں پوری اتری ہے وہ پارٹی کو فعال اور مؤثر قیادت فراہم کرے گی۔''
بیگم نصرت بھٹو صاحبہ 23مارچ1928ء کو پیدا ہوئیں اور 23اکتوبر2011ء کو وفات پا گئیں۔